غزہ: جنگ بندی کے بعد شہریوں کی واپسی، اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیوں میں تیزی

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 11 اکتوبر 2025 14:20

غزہ: جنگ بندی کے بعد شہریوں کی واپسی، اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیوں ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اکتوبر 2025ء) * غزہ جنگ بندی منصوبے پر بہت سے سوالات ہنوز جواب طلب

* کے پی کے مختلف اضلاع میں حملوں کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کرلی

ادارت: افسر اعوان، عاطف بلوچ


غزہ: جنگ بندی کے بعد شہریوں کی واپسی، اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیوں میں تیزی

غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے نفاذ کے بعد ہزاروں فلسطینی باشندے اپنے تباہ شدہ گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔

شہری دفاع کے ترجمان محمود باسل کے مطابق، اب تک تقریباً 200,000 افراد شمالی غزہ کی جانب واپس آ چکے ہیں۔

غزہ میں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان جنگ بندی کے نفاذ کے ایک دن بعد، ہزاروں کی تعداد میں تھکے ہارے فلسطینی اپنے تباہ شدہ گھروں کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ جمعہ کی دوپہر تک یہ شہر اسرائیل کے بڑے حملوں کا نشانہ تھا۔


غزہ کے شہری دفاع کے ترجمان محمود باسل نے کہا کہ جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے تقریباً 200,000 فلسطینی شمالی غزہ واپس لوٹ چکے ہیں۔ دریں اثناء اقوام متحدہ نے امدادی ترسیل کو تیز کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے تاکہ بے گھر افراد کو فوری مدد فراہم کی جا سکے۔ اس دوران، ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی افادیت پر سوالات بدستور موجود ہیں۔
غزہ کے باشندے جنگ بندی کے معاہدے کو محتاط امید کے ساتھ دیکھ رہے ہیں تاہم مستقبل کے حالات کے بارے میں غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔

غزہ کے شہری ملبے کی طرف لوٹ رہے ہیں


غزہ سٹی کے شیخ رضوان نامی علاقے کے ایک رہائشی اسماعیل زیدہ نے بتایا، ’’شکر ہے میرا گھر ابھی بھی کھڑا ہے لیکن پورا علاقہ تباہ ہو چکا ہے۔‘‘ تاہم ایک اور فلسطینی مہدی سقلا کے مطابق ان کے خاندان نے جنگ بندی کی خبر سنتے ہی شمال کی طرف واپسی کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہاں کوئی گھر نہیں بچا، تمام گھر تباہ ہو چکے ہیں لیکن ہمیں خوشی ہے کہ جہاں ہمارے گھر تھے، ملبے کے اوپر ہی سہی ہم واپس آئے ہیں۔

یہ بھی بڑی خوشی کی بات ہے۔ دو سال سے ہم جگہ جگہ بے گھر ہوکر تکلیفیں جھیلتے رہے ہیں۔‘‘
جنوبی خان یونس میں بھی شہری تباہ شدہ عمارتوں اور ملبے تک پہنچے ہیں۔ یہ کبھی اس علاقے کا دوسرا سب سے بڑا شہر تھا۔ اب یہاں سینکڑوں فلسطینی واپس لوٹ رہے ہیں، جہاں کبھی ان کے گھر تھے ۔ شہر کے کچھ حصوں سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء کے بعد انہیں تباہ شدہ عمارتیں، ملبہ اور تباہی ملی ہے۔


بے گھر رہائشی فاطمہ رضوان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’وہاں کچھ بھی نہیں بچا۔ بس چند کپڑے، لکڑی کے ٹکڑے اور برتن ۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ لوگ اب بھی ملبے کے نیچے سے لاشیں نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خان یونس کے ایک اور رہائشی احمد البریم نے کہا کہ وہ صرف اپنے گھر کے کھنڈرات سے لکڑیاں نکالنے میں کامیاب ہو سکے ہیں، جنہیں وہ کھانا پکانے کے لیے بطور ایندھن استعمال کریں گے۔


انہوں نے کہا، ’’ہم اپنے علاقے میں گئے، ہمیں فرنیچر، یا کپڑے یا کچھ بھی نہیں مل سکا، یہاں تک کہ سردیوں کے کپڑے بھی نہیں۔ کچھ بھی نہیں بچا۔‘‘

اسرائیل نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں


فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ جمعہ کے روز اسرائیلی فوج کے جنگ بندی کے اعلان کے بعد غزہ کے کچھ حصوں میں جاری شدید گولہ باری زیادہ تر رک چکی ہے۔


غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی فوجی اور بکتر بند گاڑیاں غزہ سٹی اور خان یونس دونوں جگہوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
لیکن اسرائیل نے فلسطینیوں کو خبردار کیا کہ وہ حماس سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ اسرائیل کے بقول حماس کی فورسز اپنی ’’آپریشنل پوزیشنز کو ایڈجسٹ کر رہی ہیں۔‘‘
اُدھر حماس کے زیرانتظام وزارت داخلہ نے کہا کہ وہ سکیورٹی فورسز کو ان علاقوں میں بھیج رہی ہے، جہاں سے اسرائیلی فوج نے انخلا کیا ہے۔

امداد کی ترسیل میں تیزی کی ضرورت
دریں اثنا، اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل کی طرف سے اقوام متحدہ کو اتوار سے غزہ میں بڑے پیمانے پر امداد کی فراہمی شروع کرنے کے لیے گرین لائٹ دی گئی ہے۔
اس امداد میں 170,000 میٹرک ٹن امدادی اشیا شامل ہوں گی، جو اردن اور مصر جیسے پڑوسی ممالک میں پہلے سے ذخیرہ ہیں۔


اس امداد سے شدید غذائی قلت اور قحط کے حالات کو حل کرنے میں مدد ملے گی، جو جنگ کے دوران امدادی رسائی پر اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے بگڑ گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے سربراہ ٹام فلیچر کے مطابق گزشتہ چند مہینوں میں اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار غزہ میں درکار امداد کا صرف 20 فیصد پہنچا سکے ہیں۔

امن منصوبے سے متعلق بہت سے سوالات باقی ہیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے نفاذ کے پہلے مرحلے پر اسرائیل اور غزہ میں جشن کا سماں دیکھنے میں آرہا ہے، اس کے باوجود بہت سے مسائل ہنوز جواب طلب ہیں، جن میں حماس کے غیر مسلح ہونے اور غزہ کے لیے مجوزہ عبوری اختیار شامل ہیں، اس عمل کی سربراہی صدر ٹرمپ کریں گے، جس میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا اہم کردار ہے۔


ایک بین الاقوامی فورس، جس میں زیادہ تر عرب اور مسلم ممالک کے فوجی شامل ہوں گے، غزہ کے اندر سکیورٹی کی ذمہ دار ہوگی۔
تاہم، حماس نے جمعے کو دیر گئے ایک بیان جاری کیا اور اسے مسترد کرتے ہوئے اسے ’’غیر ملکی سرپرستی‘‘ کہا ہے اور اس کا مزید کہنا ہے کہ غزہ کی حکمرانی خالصتاً فلسطینیوں کا اندرونی معاملہ ہے۔
جنگ بندی معاہدے کے تحت حماس باقی ماندہ 48 یرغمالی یا ان کی باقیات واپس کرے گی، جن میں سے 20 کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ابھی زندہ ہیں اور انہیں چند دنوں میں رہا کیا جانا ہے۔


دو سالہ غزہ جنگ سات اکتوبر 2023 ء کو اسرائیل پر حماس کے حملوں سے شروع ہوئی جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 251 افراد کو یرغمال بنایا گیا۔
اس جنگ میں اب تک67 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چُکے ہیں اور غزہ کی تقریباً 20 لاکھ آبادی کا 90 فیصد بے گھر ہو چکا ہے، اکثر شہری کئی بار نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔