صدرکرزئی کا طالبان قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ، امریکہ کو تشویش

ہفتہ 11 جنوری 2014 07:02

کابل (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11جنوری۔2014ء)افغان صدر حامد کرزئی کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے سکیورٹی خطرہ قرار دیے جانے والے ایسے قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا جن کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے ثبوت کافی نہیں ہیں۔دوسری جانب امریکہ نے افغانستان کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان میں سے کئی خطرناک مجرم ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ جن 72 قیدیوں کو رہا کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ ’خطرناک مجرم‘ ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ شواہد موجود ہیں کہ یہ افراد شدت پسندی کی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔ افغانستان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل امریکہ کی حراست میں رہنے والے 88 میں سے 72 قیدیوں کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔

(جاری ہے)

نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے امریکہ اور افغانستان کے درمیان اختلافات میں مزید اضافہ ہوگا۔واشنگٹن کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے پہلے ہی دونوں ممالک کے تعلقات تناوٴ کا شکار ہیں۔امریکہ ان قیدیوں کی رہائی کے سخت خلاف ہے اور اس کا موقف ہے کہ یہ قیدی امریکی اور نیٹو افواج کے اہلکاروں کو زخمی یا قتل کرنے میں ملوث ہیں۔

مارچ 2013 میں افغان حکومت نے بگرام جیل کا کنٹرول سنبھال لیا تھا جس کے بعد وہاں مقید سینکڑوں قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔افغان حکومت کا کہنا ہے کہ 88 میں سے 45 قیدیوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے جبکہ 27 قیدیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے ثبوت کافی نہیں ہیں۔ صدر کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے خبررساں ادارے روائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم معصوم افغان شہریوں کو ان کے خلاف مقدمہ چلائے بغیر مہینوں اور برسوں تک بلاوجہ قید میں رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

‘’ہم جانتے ہیں کہ بدقسمتی سے ایسا بگرام میں ہو رہا ہے لیکن یہ غیر قانونی ہے اور افغانستان کی سالمیت کی خلاف ورزی ہے اور ہم اس کی مزید اجازت نہیں دے سکتے۔‘گزشتہ ہفتے کابل کا دورہ کرنے والے امریکی سینیٹروں کا کہنا تھا کہ ان قیدیوں کی رہائی سے کابل اور واشنگٹن کے ’تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان‘ ہوگا اور اس سے رواں سال کے آخر میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد امریکی افواج کے افغانستان میں قیام کے منصوبے کو بھی نقصان پہنچے گا۔

امریکہ کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ بگرام جیل کا کنٹرول افغان حکام کے حوالے کرتے وقت کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مینڈیٹ کے مطابق امریکہ کی سربراہی میں افغانستان میں موجود بین الاقوامی افواج 2014 کے اختتام تک سکیورٹی کی تمام ذمہ داریاں افغان افواج کو سونپ دیں گی۔لیکن اگر دونوں ممالک کے درمیان ’سکیورٹی اور دفاع کے تعاون کا معاہدہ‘ طے پاگیا تو تقریباً 10,000 امریکی فوجی اگلے دس سال تک افغانستان میں رک سکتے ہیں۔