بھارتی ریا ست راجستھان میں ہندو مسلم فسادات تین افراد ہلاک ، آٹھ زخمی ، انتہا پسند ہند و ں نے مسلما نو ں کے دس گھروں کو آگ لگا دی ، علا قے میں کر فیو نا فذ، آس پاس کے پانچ اضلاع کی پولیس علاقے میں بلا لی گئی

جمعرات 16 جنوری 2014 03:53

پرتاپ گڑھ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16جنوری۔2013ء) بھا رت کی مغربی ریاست راجستھان کے پرتاپ گڑھ ضلعے میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں تین افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔پر تشدد واقعات کے بعد علاقے میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔زخمیوں کو راجستھان کے شہر ادے پور روانہ کیا گیا ہے جہاں بعض کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔

بھا رتی میڈیا کے مطا بق فرقہ وارانہ تصادم کا یہ واقعہ قبائلی اکثریتی علاقے پرتاپ گڑھ کے کو ٹٹر ی قصبے میں پیش آیا۔ پرتاپ گڑھ کے سپرنٹینڈنٹ پولیس یو این چھانوال نے مقامی صحافی نارائن باریٹھ کو بتایا کہ ’تشدد کے ان واقعات میں تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔پرتاپ گڑھ ریاستی دارالحکومت جے پور سے تقریباً 432 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ بھارت کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش سے ملحق ہے۔

(جاری ہے)

پولیس حکام کے مطابق یہ تنازع گذشتہ رات کو ٹٹر ی میں اس وقت شروع ہوا جب ایک مذہبی گروپ کے رضا کار ایک پروگرام میں شرکت کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔پولیس حکام نے بتایا کہ موٹر سائیکلوں پر سوار ایک مذہبی برادری کے لوگوں نے ان پر فائرنگ کی اور فرار ہو گئے۔ بھاگتے ہوئے لوگوں کو پاس کے گاوٴں میں روکنے کی کوشش کی گئی تو وہاں بھی انھوں نے فائرنگ کی۔

اس کے بعد لوگ مشتعل ہو گئے اور مسلما نو ں کے دس گھروں کو آگ لگا دی۔اس حملے میں کو ٹٹر ی کے راجہ نامی ایک شخص کی موت واقع ہو گئی۔ اس کے بعد حالات مزید خراب ہوگئے اور آدھی رات کو کو ٹٹر ی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔شدید طور پر زخمی آٹھ افراد کو پاس کے شہر ادے پور بھیجا گیا جن میں سے دو کی موت ہو گئی۔ اس طرح مرنے والوں کی کل تعداد تین ہو گئی ہے۔

انتظامیہ اور پولیس کے سینئر افسر جائے حادثہ پر پہنچ گئے ہیں اور علاقے میں سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔ آس پاس کے پانچ اضلاع کی پولیس علاقے میں بلا لی گئی ہے۔بھارت میں گذشتہ سال 2013 میں ستمبر کے مہینے میں دارالحکومت دہلی سے ملحق ریاست اتر پردیش کے مظفرنگر ضلعے میں ہندو مسلم جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس تشدد سے متاثرہ سینکڑوں لوگ اب بھی امدادی کیمپوں میں گزر بسر کر رہے ہیں۔اس معاملے نے کافی طول پکڑ لیا تھا اور اس کی وجہ سے ریاستی حکومت پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ واقعے کے لیے ذمہ دار کچھ ممبران اسمبلی سمیت کئی لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔