کیا آئینی و قانونی طورپر فوجی افسران کیخلاف مقدمہ عام عدالتوں میں چل سکتا ہے یا نہیں؟،سپریم کورٹ آئندہ ہفتے قانونی نکات کا جائزہ لے گی، اٹارنی جنرل اور چاروں ایڈووکیٹس جنرل اپنا موقف دیں گے

پیر 7 جولائی 2014 02:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7جولائی۔2014ء)سپریم کورٹ (آج)پیر سے شروع ہونے والے ہفتہ کے دوران اس اہم قانونی سوال پر غور کرے گی کہ کیا آئینی و قانونی طور پر فوجی افسران کے خلاف مقدمات عام عدالتوں میں چل سکتے ہیں یا نہیں؟ اس حوالہ سے عدالت نے پہلے ہی اٹارنی جنرل اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹس جنرل کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں تاکہ وہ پیش ہوکر اس حوالہ سے قانونی نکتہ نظر پیش کر سکیں۔

(جاری ہے)

یہ سوال مالاکنڈ حراستی مرکز سے اٹھائے گئے 35 لاپتہ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کے دوران کھڑا ہوا ہے۔جس پر عدالت نے استفسار کیا ہے کہ کیاآئینی و قانونی حوالہ سے فوجی افسران کیخلاف مقدمہ عام عدالتوں میں چلایا جاسکتا ہے یا نہیں؟توقع ہے کہ نئے چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں بنچ اس اہم کیس کی سماعت کرے گا کیونکہ پہلے بھی ان کی ہی قیادت میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے یہ نوٹس جاری کئے گئے۔اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ یہ اہم مقدمہ ہے اس میں آئینی و قانونی سوالات کی تشریح کیلئے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کئے جائیں اس پر عدالت نے نوٹس جاری کردئیے۔

متعلقہ عنوان :