فلسطینی نوجوان کو جلا کر ہلاک کیا گیا تھا، اٹارنی جنرل

پیر 7 جولائی 2014 03:52

غزہ سٹی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7جولائی۔2014ء)فلسطینی اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ القدس میں شہید ہونے والے فلسطینی نوجوان ابو خضیر کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسے ’زندہ جلایا‘ گیا تھا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نوجوان ابوخضیر کی موت کی وجہ آگ سے جلنا بتائی گئی ہے۔اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ 16 سالہ نوجوان ابو خضیر کی موت کن حالات میں ہوئی ابھی یہ واضح نہیں ہے۔

عرب ٹی وی کے مطابق محمد ابو خضیر کو نامعلوم افراد بدھ کو علی الصباح القدس کے عرب علاقے کی ایک مسجد کے باہر سے زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے تھے جس کے چند گھنٹوں بعد اس کی لاش شہر کے نزدیک ایک جنگل سے برآمد ہوئی تھی۔فلسطینی حکام کے مطابق عرب نوجوان کی لاش کے 'فارینسک' جائزے کے دوران اس کی سانس کی نالی میں دھویں کے ذرات کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ جب اسے جلایا گیا تو وہ زندہ تھا

۔

(جاری ہے)

فلسطینی اٹارنی جنرل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نوجوان کا 90 فیصد جسم جھلسا ہوا تھا۔ اس سے قبل نوجوان کے والد نے کہا تھا کہ ان کے بیٹے کی لاش ناقابلِ شناخت حد تک جھلسی ہوئی تھی۔اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اب تک عرب نوجوان کے قتل کے محرکات اور اس میں ملوث ملزمان کا تعین نہیں کرسکی ہے۔لیکن فلسطینی حکام اور باشندوں کا الزام ہے کہ عرب نوجوان کو ان تین اسرائیلی نوجوانوں کے بدلے میں قتل کیا گیا ہے جنہیں گذشتہ ماہ کے وسط میں مغربی کنارے سے اغوا کیا گیا تھا اور رواں ہفتے ان کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔

اسرائیلی حکومت نے یہودی نوجوانوں کے قتل اور اغواء کا الزام 'حماس' پر عائد کرتے ہوئے فلسطینی مزاحمتی تنظیم سے اس کا بدلہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن حماس نے قتل اور اغوا کی اس واردات میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔اسرائیلی نوجوانوں کو 12 جون کو فلسطین کے علاقے مغربی کنارے میں قائم یہودی آبادکاروں کی ایک بستی سے اس وقت اغواء کیا گیا تھا جب وہ اسکول سے گھر لوٹ رہے تھے۔

متعلقہ عنوان :