پاکستان کو سیاسی نہیں ، آبادی سے شدید خطرہ ہے ، بر طا نو ی اخبا ر ،پاکستان کئی افریقی ممالک جیسا ہے جہاں تباہ کن آبادی نے ان کی معیشت کو تباہ کردیا، پاکستان کی 2050تک زیادہ سے زیادہ آبادی 39کروڑ50لاکھ جبکہ کم از کم 26 کروڑ 60 لاکھ نفوس تک جا سکتی ہے،پاکستانی سیاستدان طویل مدتی منصوبہ بندی یا سوچ نہیں رکھتے ، ان کی سوچ صرف انتخابی مدت تک محدود ہوتی ہے، آبادی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان میں غربت ، مذہبی انتہاء پسندی ،بڑھتی آبادی کا ایک خطرناک اورغیر مستحکم مرکب بن جائیگا،فنانشل ٹائمز

ہفتہ 13 ستمبر 2014 09:19

لند ن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13ستمبر۔2014ء)برطانوی اخبار”فنانشل ٹائمزکا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں سیاستدان پاکستان پر کنٹرول کے لئے ایک دوسرے سے برسرپیکارہیں۔تاہم ان رہنماوں کی شعلہ بیانی میں پاکستان کو درپیش بحران یا ان سے نکالنے کا کوئی اشارہ نہیں۔ پاکستان کو سیاسی نہیں ، آبادی سے شدید خطرہ ہے۔پاکستانی سیاستدان طویل مدتی منصوبہ بندی یا سوچ نہیں رکھتے،ان کی سوچ صرف انتخابی مدت تک محدود ہوتی ہے۔

اپنی ایک رپو رٹ میں اخبا ر نے امریکی تھنک ٹینک کا حوالہ دیتے ہو ئے کہاہے کہ اگر پاکستان کی آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی تو 2050تک 30کروڑ 2 لاکھ نفوس ہو جائے گی۔ دنیا کے گنجان آبادی کے حامل شہر کراچی میں پانی کی کمی نے زندگی کومفلوج،ایک اپارٹمنٹ میں درجن یا اس زائد لوگ کو رہنے او ر مسافروں کوبسوں کی چھتوں پر سفر پر مجبور کردیا ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ دو دہائیوں میں افرادی قوت دگنی ہو کر6کروڑ ہو چکی جب کہ لیبر مارکیٹ کو نئے آنے والوں کو سالانہ 30لاکھ روزگار دینے کی ضرورت ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔

گزشتہ حکومتوں کی کئی دہائیوں سے شرح افزائش کو کنٹرول کرنے میں نظر اندازی نے پاکستان کو دیگر گنجان آبادی کے حامل بنگلادیش اور ایران جیسے ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ایشیا میں صرف افغانستان اور تیمور کی اس سلسلے میں صورت حال خراب ہے۔پاکستان کئی افریقی ممالک جیسا ہے جہاں تباہ کن آبادی نے ان کی معیشت کو تباہ کردیا۔

پاکستان کی آبادی کسی بھی افریقی ملک سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بہت سے مرد و خواتین کم بچے چاہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ دس لاکھ اسقاط حمل ہوتے ہیں۔اخبار لکھتا ہے کہ1947میں قیام پاکستان کے وقت آبادی 3 کروڑ 3لاکھ تھی آج 20کروڑنے آبادی نے پاکستان کو دنیا کا چھٹا بڑاملک بنا دیا ہے۔تاہم ایک اندازے کے مطابق 2050تک زیادہ سے زیادہ آبادی 39کروڑ50لاکھ جب کہ کم از کم26کروڑ60لاکھ نفوس تک جا سکتی ہے۔

اس وقت پاکستان میں شرح پیدائش 3.8 بچے فی خاتون ہیں۔قدرتی وسائل خاص طور پر پانی ، حکومتی خدمات، بنیادی ڈھانچے اور خاندان پر دباو پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور یہ صورت حال مزید خراب ہو گی -

ہارورڈ اسکول میں اقتصادیات اور آبادیات کے پروفیسر ڈیوڈ بلوم وضاحت کرتے ہیں کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ اور نوجوانوں کو ان کی ضروریات کی فراہمی معیشت پر ایک کچلے جانے والے بوجھ ہے۔

اگر آئندہ دس یا بیس سال پاکستان میں لاکھوں نوجوان بے روز گار رہتے ہیں تو پاکستان ایسے بحران کا سامنا کرسکتا ہے جیسا کہ اب ہیں۔ماہر اقتصادیات ثاقب شیرانی کہتے ہیں کہ سیاستدان طویل مدتی سطح پر نہیں سوچ رہے۔وہ انتخابی سائیکل سے آگے نہیں سوچتے۔آبادی کونسل کی کنٹری ڈائریکٹر کہتی ہیں کہ آبادی کی منصوبہ بندی پر لوگوں یا جماعتوں کے درمیان کوئی مضبوط اتحاد نہیں کہ اس اہم مسئلے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو واقعی سب کو متاثر کر رہا ہے۔

یہ دہشت گردی جیسے مسئلے کی طرح کاٹ رہا ہے، لیکن اس پر بات کرنے کو کوئی تیار نہیں۔اگر آبادی جیسے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان میں غربت ، ناقص اسکولنگ، مذہبی انتہا پسندی ،بڑھتی آبادی کا ایک خطرناک اورغیر مستحکم مرکب بن جائے گا۔ اکانومسٹ اکمل حسین لکھتے ہیں کہ اگلی دو دہائیوں میں لاکھوں کی تعدا د میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو افرادی قوت میں داخل نہ کیا گیا توپھر انتہا پسندی، عدم برداشت اور تشدد کی طرف موجودہ رجحان ایک دھماکہ خیز مواد کی صورت اختیار کر جائے گا۔

متعلقہ عنوان :