جوڈیشل کمیشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی نمائندوں کو شامل کرنیکاعمران کا مطالبہ مسترد، ملک میں جنگل کا قانون نہیں کہ جس کا جو مرضی آئے کہتا رہے،آئین اور قانون کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے، اسحاق ڈار،تحقیقات کے طریق کار کا تعین عدالتی کمیشن کا کام ہے،کمیشن کیلئے نام بھی سپریم کورٹ دے سکتی ہے حکومت نہیں جونہی نام آئیں گے نوٹیفکیشن جاری کر دیں گے،عمران سترہ ماہ سے الزامات لگارہے ہیں آج تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کئے، پرویز رشید،پاکستان میں بونا پارٹ ازم نہیں ہو سکتا کہ سلطنت بادشاہ اور جج وہ خود ہی ہوں،وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی وزیراطلاعات اور زاہد حامد کے ہمراہ پریس کانفرنس

منگل 11 نومبر 2014 08:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11نومبر۔2014ء)حکومت نے عمران خان کے دھاندلی کے لئے جوڈیشل کمیشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو شامل کرنے کے مطالبہ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ملک میں جنگل کا قانون نہیں کہ جس کا جو مرضی آئے کہتا رہے،آئین اور قانون کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے، تحقیقات کے طریقہ کار کا تعین عدالتی کمیشن کا کام ہے اور جوڈیشل کے لئے نام بھی سپریم کورٹ دے سکتی ہے حکومت نہیں جونہی نام آئیں گے ہم نوٹیفکیشن جاری کر دیں گے اور وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ عمران سترہ ماہ سے الزامات ہی لگارہے ہیں تاہم آج تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کئے، پاکستان میں بونا پارٹ ازم نہیں ہو سکتا کہ سلطنت بادشاہ اور جج وہ خود ہی ہوں۔

(جاری ہے)

پیر کے روز پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی)میں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات پرویز رشید اور وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کی جانب سے جوڈیشل کمیشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کو شامل کرنے کی بات کی ہے جبکہ جوڈیشل کمیشن میں ایسا نہیں ہوتا اس کے اراکین صرف جج صاحبان ہوتے ہیں۔

13 اگست کو سیکرٹری لاء نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک خط بھیجا جس میں ٹرم آف ریفرنس اور دیگر معاملات طے کئے گئے۔حکومت نے 15 اجلاسوں کے بعد انتخابی اصلاحات پر تحریک انصاف سے بات چیت کی تھی ۔ان ملاقاتوں میں مسلم لیگ (ن)نے صرف اپنا نہیں بلکہ پارلیمانی کی تمام جماعتوں کا موقف بیان کیا۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم چاہیں تب بھی جوڈیشل کمیشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی اس کا حصہ نہیں بن سکتے کیونکہ یہ قانون کے خلاف ہے اور آئین اس کی اجازت نہیں بن سکتے کیونکہ یہ قانون کے خلاف ہے اور آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ جوڈیشنل کمیشن کے ناموں کے لئے لکھ دیا گیا ہے جونہی نام موصول ہوں گے حکومت اعلان کر دے گی۔انہوں نے کہا کہ ملک میں جنگل کا قانون نہیں ہے ایسا نہیں کہ جو چاہیے اپنی من مانی کرے بلکہ ملک میں سپریم کورٹ ہے۔عمران خان شدید کنفیویژن کا شکار ہیں ۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سینٹ کی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کم مدت میں لاسکتی۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ30 سے کم حلقوں کے نتائج کیسے پورے ایوان اور300 سے زائد اراکین کی قسمت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کو اپنے 10 اجلاسوں میں1283 تجاویز موصول ہوئیں ہیں اور کمیٹی انتخابی اصلاحات کے عمل کو تیزی سے مکمل کررہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم جلد از جلد جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین نے انتخابی اصلاحات پر کمیٹی کے دس اجلاسوں میں سے صرف دو میں شرکت کی ۔

انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے آئین و قانون کے دائرہ میں رہ کر بھی بات ہو سکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ دھرنوں نے معیشت اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور مجھے سرمایہ کاروں کا اعتماد ڈگمگانا نظر آیا۔دھرنوں کے باعث اوجی ڈی سی ایل کی نجکاری متاثر ہوئی اور270 ارب کی بجائے 220 ارب ڈالر کی بھی پیشکش ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو بے انتہا نقصان پہنچایا گیا ہے تاہم اب حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں ۔

سٹاک ایکسچینج پوائنٹ پر واپس آ چکی ہے۔روپے کی قدر میں بھی بہتری آئی ہے ۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ حکومت نے بڑا سوچ سمجھ کر1956 کے آئین کے تحت انکوائری کمیشن کی بات کی تھی ۔حکومت عمران سے بات چیت کے لئے تیار ہے حتی کہ انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کے چیئرمین شپ کی پیشکش بھی شاہ محمود کو تھی تاہم انہوں نے خود لینے سے انکار کر دیا ہے اور کہا کہ حکومت اس حوالے سے تیز کام کرے گی۔

سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت جو ریلیف عوام کو دے سکتی تھی دے چکی ہے ۔وفاقی حکومت نے آلو پر تمام لیویز اٹھائی ہوئی ہیں اب صوبوں کا کام ہے کہ قیمتوں کو کنٹرول کریں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سب کو عدلیہ کی عزت و احترام کرنا چاہیے بلکہ ملک کے تمام اداروں کا احترام کرنا چاہیے ۔جب عمران کہتے ہیں کہ عدلیہ آزاد تو ہوگئی تاہم غیر جانبدار ہیں تو ایسی بات نہیں کرنا چاہیے۔

آئین کے مطابق قائد حزب اختلاف نے تین نام دینے ہیں اگر اتفاق نہیں ہوتا تو چھ ناموں کی فہرست قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف دونوں کی جانب سے جائیں گے ۔قائد حزب اختلاف تین نام تجویز کر کے بیرون ملک روانہ ہیں جو کہ آج یا کل موصول ہو جائیں گے۔میڈیا میں ناموں کا گھومنا پارلیمانی کمیٹی پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہوگا۔ ہمیں بادشات والی کہ مسٹر اے یا مسٹر بی پسند نہیں والی عادت چھوڑنا ہوگی اور جمہوریت کی جانب آنا ہوگا۔

آئی ایس آئی اور ایم آئی کو کمیشن میں شامل کرنا ہے تو پھر جے آئی ٹی بنائیں۔جوڈیشل کمیشن کی بات چھوڑیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت مذاکرات کے لئے تیار ہے۔مستقبل کی بہتری کے لئے انتخابی اصلاحاتی کمیٹی اپنا کام کررہی ہے۔انہوں نے خود بات چیت روکی ہے اگر بات چیت جوڈیشل کمیشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کی شمولیت کی بات کرنی ہے تو یہ ناممکن ہے کیونکہ آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔

انہوں نے کہا کہ آڈٹ میں بعض سیمپلوں پر آڈٹ نہیں ہوتا۔ عمران حکومت سے نہیں اللہ کے فیصلے سے ٹکرا رہے ہیں کیونکہ ہمیں ووٹ دینے کے لئے اللہ نے عوام کے دل ہی احساس ڈالا ۔اس موقع پر سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ عمران سترہ ماہ سے الزامات ہی لگارہے ہیں تاہم آج تک انہوں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کئے ۔پاکستان میں بونا پارٹ ازم نہیں ہو سکتا کہ سلطنت بادشاہ اور جج وہ خود ہی ہوں۔

مئی میں انہوں نے خود اسی جج کی تعریف کی کہ اللہ ملک کو ایسا جج دے تا ہم اب وہ خود ہی اس پر اعتبار نہیں کررہے۔ استعفیٰ سپیکر صاحب نے منظور کرنے ہیں یہ ان کا معاملہ ہے ۔اس موقع پر اسحاق ڈار نے صفائی پیش کی کہ بعض تکنیکی وجوہات پر اراکین کا خود پیش ہونا ضروری ہے ۔۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک کے اقتصادی مفاد کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے ۔عمران پرامن طور پرا حتجاج کر سکتے ہیں۔