سلمان بٹ نے ایک بار پھر گرین شرٹس کی نمائندگی کی خواہش ظاہر کردی ، کچھ ہوا وہ نئی نسل میں منتقل نہیں ہونا چاہیے اور ہمیں انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ زندگی میں شارٹ کٹ اور ایسے لوگوں سے بچیں جو آپ کو غلط کام کے لیے اکسانے کی کوشش کریں ، انٹرویو

بدھ 15 اپریل 2015 04:26

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔15 اپریل۔2015ء)پاکستان کے سابق کپتان اور اسپاٹ فلسنگ کے باعث پابندی کے شکار سلمان بٹ نے ایک بار پھر گرین شرٹس کی نمائندگی کی خواہش ظاہر کی ہے۔2010 میں انگلینڈ کے خلاف لارڈز ٹیسٹ میں رقم کے عوض جان بوجھ کر نو بال کروانے پر اس وقت کے قومی ٹیم کپتان سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

سلمان بٹ کو دس، آصف کو سات جبکہ عامر کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی، تینوں کھلاڑیوں نے برطانیہ میں جیل میں بھی وقت گزارا۔تاہم سلمان بٹ اپنے اس کیے پر شرمندہ ہیں اور وہ کرکٹ میں ایک بار پھر پاکستان کی نمائندگی کرنے کے خواہش مند ہیں۔انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جو کچھ ہوا وہ نئی نسل میں منتقل نہیں ہونا چاہیے اور 'ہمیں انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ زندگی میں شارٹ کٹ اور ایسے لوگوں سے بچیں جو آپ کو غلط کام کے لیے اکسانے کی کوشش کریں'۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ 'ہم کسی ایک شخص کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے، یہ نہیں کہہ سکتے کہ سب کچھ ایک ہی شخص نے کیا، جو کوئی بھی اس میں ملوث تھا وہ غلط تھا، ہم سب انسان ہیں اور ہم سب غلطی کرتے ہیں'۔یاد رہے کہ اسپاٹ فکسنگ میں سب سے پہلے محمد عامر نے جرم کا اعتراف کیا جبکہ ا آصف اور سلمان بٹ ایک عرصے تک خود کو بے قصور ثابت کرنے پر مصر تھے۔تاہم آئی سی سی تحقیقات کے بعد آصف اور پھر سلمان بٹ نے بھی جرم کا اعتراف کر لیا۔

سلمان بٹ نے کہا کہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ کو اپنے کیے پر شرمندگی ہو، آپ واپس آئیں، اپنی غلطی تسلیم کریں اور آگے بڑھتے ہوئے اس بات کا ادراک کریں کہ آپ دوسروں کو اس تکلیف سے گزرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہیں گے جس سے آپگزر چکے ہیں۔جرم کے اعتراف کے بعد سے عامر ایک عرصے تک آئی سی سی کے انٹی کرپشن یونٹ کے ساتھ کام کرنے کے ساتھ ساتھ تربیت بھی لیتے رہے لیکن آصف اور سلمان بٹ ایسے کسی بھی عمل کا حصہ نہیں رہے۔یہی وجہ ہے آئی سی سی نے پانچ سالہ پابندی ختم نہ ہونے کے باوجود عامر کو ڈومیسٹک کرکٹ میں واپسی کی اجازت دے دی تھی جہاں وہ گریڈ ٹو کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن آئی سی سی سے عدم تعاون کی وجہ سے انہیں کرکٹ کھیلنے کی پابندی ملنے کا امکان انتہائی معدوم ہے۔