مواصلاتی کمپنی کے کام سے انکار پر فرانس، اسرائیل تناؤ کا شکار ،فرانسیسی مواصلاتی کمپنی کی جانب سے خدمات فراہم کرنے سے انکار پر معذرت کے منتظر ہیں، جاننا چاہتے ہیں کہ ”اورینج“ گروپ نے اسرائیلی کمپنی کے ساتھ کام سے انکار کیوں کیا ہے۔اسرائیلی وزارت خارجہ

ہفتہ 6 جون 2015 08:55

مقبوضہ بیت المقدس ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6 جون۔2015ء)مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مواصلات کے شعبے میں سروسز فراہم کرنے والی ایک فرانسیسی فرم کی جانب سے اسرائیلی کمپنییوں سے تعاون ختم کرنے کے اعلان پر فرانس اور اسرائیل کے درمیان ایک نئی کشیدگی پیدا ہو گئی ۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک فرانسیسی مواصلاتی کمپنی "اورینج" کی جانب سے خدمات فراہم کرنے سے انکار پر معذرت کے منتظر ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ "اورینج" گروپ کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے اپنی 'شریک کار' اسرائیلی کمپنی کے ساتھ کام سے انکار کیوں کیا ہے؟ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان "ایمانویل نخشون" نے بتایا کہ ان کی حکومت نے فرانسیسی حکام کو ایک پیغام بھیجا ہے جس میں ان سے "اورینج" کی جانب سے اسرائیل میں سروز ختم کرنے کے اعلان پر معذرت کرنے کے ساتھ کام چھوڑنے کی وجہ معلوم کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

نخشون کا کہنا ہے کہ فرانس میں اسرائیلی سیفر یوسی گال نے بھی فرانسیسی ایوان صدر ، وزارت خارجہ اور وزارت اقتصادیات سے رابطہ کرکے ان سے سرکاری طورپر "اورینج" کے موقف کے بارے میں اس لیے جان کاری کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ اس کمپنی میں 25 فی صد شیئرز حکومت کے پاس ہیں۔خیال رہے کہ دو روز قبل اسرائیل میں مواصلاتی شعبے میں کام کرنے والی فرانسیسی کمپنی "اورینج" کے بورڈ آف ڈائریکٹر اسٹیفن ریچر نے نہایت غضبناک لہجے میں کہا تھا کہ ان کی کمپنی اسرائیلی "پارٹنر" کے ساتھ کام کا فیصلہ واپس لیے رہی ہے۔

کمپنی کیسربراہ نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی یہودی آباد کاری کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اسے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن عمل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قراردیا تھا۔"اورینج" کمپنی کے تازہ موقف کو اس معنی میں لیا گیا کہ کمپنی بھی ان دسیوں یورپی کمپنیوں میں شامل ہے جو متنازعہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی منصوبوں پر کام کررہی ہیں۔

متنازعہ علاقوں میں خدمات فراہم کرنا اسرائیل کے سنہ 1967ء کے علاقوں پر قبضے کو مزید مضبوط بنانے میں تل ابیب کی غیراعلانیہ معاونت سمجھا جا رہا ہے۔خیال رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں عرصہ دراز سے مقبوضہ بیت المقدس اور مقبوضہ مغربی کنارے کی یہودی کالونیوں میں کام کرنے والی غیرملکی کمپنیوں کو تنقید کا نشانہ بناتی آرہی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ غیرملکی کمپنیاں سنہ 1967ء کے مقبوضہ اور متنازعہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی قبضہ مضبوط بنانے میں مدد کررہی ہیں

متعلقہ عنوان :