یورپی رہنما ہزاروں تارکینِ وطن کی یورپ میں آبادکاری پر متفق ،یورپی ممالک 60 ہزار تارکینِ وطن کواپنے ہا ں پنا ہ دیں گئے

ہفتہ 27 جون 2015 03:30

برسلز(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27 جون۔2015ء)یورپی ممالک کے رہنما بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ پہنچنے والے ہزاروں غیرقانونی تارکینِ وطن کی آبادکاری میں تیزی لانے پر متفق ہوگئے ہیں۔برسلز میں تارکینِ وطن کے معاملے پر اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ 60 ہزار تارکینِ وطن کو یورپ کے مختلف ممالک اپنائیں گے۔تاہم اس اجلاس میں تارکینِ وطن کے مجوزہ کوٹہ سسٹم پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔

اجلاس کی صدارت کرنے والے یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ اٹلی اور یونان میں موجود تارکینِ وطن میں سے 40 ہزار کو آئندہ دو برس کے دوران دیگر یورپی ریاستوں میں بسایا جائے گا۔اس کے علاوہ مزید 20 ہزار ایسے تارکینِ وطن کی بھی باز آبادکاری کی جائے گی جن کے آبائی ممالک خانہ جنگی سے متاثر ہیں تاہم یہ تاحال واضح نہیں کہ کتنے تارکینِ وطن کسی یورپی ملک میں سکونت اختیار کریں گے۔

(جاری ہے)

اجلاس کے دوران ڈونلڈ ٹسک نے یورپی ممالک سے کہا کہ وہ کشتیوں میں بھر کر بحیر روم عبور کر کے بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ آنے والے ان افراد کا بوجھ اٹھانے میں حصہ ہاتھ بٹائیں۔سربراہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں ڈونلڈ ٹسک کا کہنا تھا کہ یونان اور اٹلی میں موجود تارکین وطن میں سے 40 ہزار کی آبادکاری کے بارے میں یورپی ممالک کی وزراتِ داخلہ رواں برس جولائی تک ایک منصوبہ بنا لیں گی۔

خیال رہے کہ سرحدی ادارے فرنٹیکس کے مطابق رواں برس کم از کم ایک لاکھ 53 ہزار تارکینِ وطن نے یورپ میں داخلے کی کوشش کی اور یہ تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 150 فیصد زیادہ ہے۔اٹلی جو کہ لیبیا سے آنے والے تارکینِ وطن کی ابتدائی منزل ہے، چاہتا ہے کہ دیگر یورپی ممالک اس مسئلے سے نمٹنے میں اس کی مدد کریں۔اطالوی وزیرِ اعظم میتیو رینزی نے ان اعدادوشمار پر مایوسی ظاہر کی ہے اور اس منصوبے کو ’عاجزی پر مبنی‘ قرار دیا ہے ،فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے اپنے خطاب میں ڈونڈ ٹسک کے موقف کی حمایت کی اور کہا کہ ’پناہ کے حقیقی متلاشیوں کے لیے ہر ملک کو ایسا وعدہ کرنا چاہیے جو پورا ہو۔

خیال رہے کہ مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے یورپ آنے والے پناہ گزینوں کو کوٹہ کے تحت مختلف ممالک میں آباد کرنے کے منصوبے پر مشرقی یورپ کے ممالک میں اختلاف پایا جاتا ہے اور برطانوی حکومت پہلے ہی کہ چکی ہے کہ وہ اس ’ری لوکیشن‘ یا باز آبادکاری کے منصوبے سے علیحدہ رہے گی۔

متعلقہ عنوان :