پی ڈی ایم کی اسٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس چھوٹی جماعتوں کا پیپلزپارٹی اور نون لیگ پر تحفظات کا اظہار

اختلافات کے باعث پی ڈی ایم کا مستقبل داﺅ پر لگ سکتا ہے‘ضمنی اور سینیٹ انتخابات کے معاملے پر دونوں بڑی جماعتیں ایک پیج پر ہیں ‘استعفوں کے معاملے پر مولانا فضل الرحمان کو شہبازشریف اور آصف علی زرداری کو قائل کرنا ہوگا. ”پاکستان پوائنٹ نیٹ ورک“کے گروپ ایڈیٹر میاں محمد ندیم کا خصوصی تجزیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 18 جنوری 2021 21:36

پی ڈی ایم کی اسٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس چھوٹی جماعتوں کا پیپلزپارٹی اور نون لیگ پر تحفظات کا اظہار
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 جنوری ۔2021ء) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اسٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس میں اتحاد میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے کردار کے بارے میں چھوٹی جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے .

(جاری ہے)

معتبر ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران چھوٹی جماعتوں کی جانب سے استعفوں کے معاملے اور پی ڈی ایم کے بیانیے سے پیچھے ہٹنے کا الزام عائدکیا گیاواضح رہے کہ 11جماعتوں پر مشتمل جماعتوں کے اتحاد میں عوامی نیشنل پارٹی‘عوامی نیشنل پارٹی (ولی خان گروپ)‘بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)‘جمعیت اہلحدیث‘جمعیت علمائے اسلام‘نیشنل پارٹی (بزنجو گروپ)‘پاکستان مسلم لیگ نون‘پاکستان پیپلز پارٹی‘پشتونخوا ملی عوامی پارٹی‘پشتون تخفظ موومنٹ‘قومی وطن پارٹی شامل ہیں .

ذرائع کا کہنا ہے کہ آج پریس بریفنگ کے دوران مولانا فضل الرحمان کا یہ کہنا کہ” احتجاج میں کسی بھی رہنما کی شرکت کو لازمی قرار نہیں دیا گیا ہے اس لیے کسی عدم شرکت پر کوئی مسئلہ نہیں ہے“ یہ اشارہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب تھا انہوں نے کہا کہ اجلاس کے دوران سخت تناﺅ کا شکارہا جس کی وجہ پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری رکن جماعتوں کے درمیان بعض امور پر اختلافات ہیں پیپلز پارٹی نے اپنی” سیاسی مجبوریوں“کے باعث پی ڈی ایم کے دوسرے اتحادیوں سے بالکل مختلف الگ موقف اختیار کیا ہے اور سب کو اپنے راستے پر چلانا چاہتی ہے .

سنیئرصحافی اور ”پاکستان پوائنٹ نیٹ ورک“کے گروپ ایڈیٹر میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ ان اختلافات کے باعث پی ڈی ایم کا مستقبل بھی داﺅ پر لگ سکتا ہے جبکہ پی ڈی ایم راہنماﺅں کا اصرار ہے کہ اتحاد میں پائے جانے والے اختلافات کی نوعیت بہت سنجیدہ نہیں ہے بلکہ یہ محض آرا کا اختلاف ہے جو آج کے اجلاس میں زیر بحث آئے‘پی ڈی ایم میں تنازع کی وجہ مستقبل قریب میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی ہونے والی8 نشستوں اور مارچ میں سینیٹ کے انتخابات اور اسمبلیوں سے استعفے دینا ہیں .

اپوزیشن جماعتوں کا حکومت مخالف یہ اتحاد گذشتہ سال 20 ستمبر کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے نتیجے میں وجود میں آیاجس کے میمورنڈم کے 26 نکات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینا بھی شامل تھا تاہم 10رکن جماعتوں میں سے9 استعفے کا آپشن استعمال کرنے کے حق میں ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اس کی مخالفت کر رہی ہے میاں محمد ندیم کے مطابق یہی بنیادی اختلاف ہے اتحاد میں‘انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی بعض نشستوں کے لیے ضمنی انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا جن میں حصہ لینے سے متعلق پیپلز پارٹی کی حزب اختلاف کی دوسری جماعتوں سے رائے مختلف ہے پیپلزپارٹی کی جانب سے ضمنی انتخابات کے اعلان کے بعد نون لیگ نے بھی ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا حالانکہ پیپلزپارٹی کے اعلان پر مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ نون نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت سمجھتی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اپوزیشن جماعتیں حکمران جماعت تحریک کے لیے راستہ صاف کردیں گی چونکہ سینیٹ میں اس وقت پیپلزپارٹی کے مفادات اتحاد میں شامل تمام جماعتوں سے زیادہ ہیں لہذا وہ ان سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں .

میاں ندیم نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے علاوہ پی ڈی ایم کی دوسری تمام جماعتیں ضمنی اور سینیٹ انتخابات سے دور رہنے اور جلد از جلد اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے حق میں ہیں پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ نے ان تمام امور پر اپنی ”مختلف سوچ“ کا اظہار کیے بغیر گیند پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کی کورٹ میں ڈال دی تھی جس کے گذشتہ ہفتے میں ہونے والے اجلاس میںان اختلافی مسائل پر فیصلے ہو چکے ہیں تاہم انہیں منظر عام پر نہیں لایا گیا .

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سی ای سی کے اجلاس کے بعد بتایا تھا کہ یہ فیصلے پی ڈی ایم کے راہنماﺅں کے سامنے رکھے جائیں گے‘دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد کہا تھاکہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پیپلز پارٹی کے فیصلوں پر گفتگو ہو گی اور حتمی فیصلے کیے جائیں گے .

دلچسپ بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ( ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اگر یہ خبر درست ہے تو اس مسئلے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک صفحے پر آگئی ہیں اب دیکھنا ہوگا کہ مولانا فضل الرحمان اس سلسلے میں کیا راستہ اختیار کرتے ہیں . حزب اختلاف کی جماعتوں میں پائے جانے والے اختلافات اور مختلف آرا سامنے آنے کے بعد پی ڈی ایم کے قائم رہنے کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہوگئے جبکہ تحریک انصاف حکومت کے ترجمان تو ان اختلافات کو خصوصاً ہوا دینے اور پی ڈی ایم کے خاتمے کی پیش گوئیوں میں پیش پیش رہے ہیں .

پی ڈی ایم کے مشکوک مستقبل سے متعلق پیش گوئیوں کے برعکس مسلم لیگ (ن) کے راہنما رانا ثنااللہ نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم اپنی بات ان کے سامنے رکھیں گے اور اگر وہ نہ مانیں تو ہم (ان کی بات) مان جائیں گے تاہم یہاں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے فیصلے ان کی مرکزی لیڈرشپ کے ہاتھوں میں ہیں لہذا سیاسی مبصرین کے مطابق اس بیان کی اہمیت اس وقت زیادہ ہوتی اگر مریم نواز یا شہبازشریف کی جانب سے ایسا کوئی بیان آتا .

میاں ندیم کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں شدید نوعیت کے اختلافات موجود ہیں مگر اتحاد ختم ہونے کا کوئی فوری امکان موجود نہیں ہے کیونکہ اختلافات کے باوجود اتحاد میں شامل دونوں بڑی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے خلاف اہم مزاحمتی قوت کی حیثیت سے پی ڈی ایم کو قائم رہنا چاہیے . مفادات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ہر جماعت اپنے سیاسی مفادات کو مقدم رکھتی ہے مثال کے طور پر عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی)کے پی کی بڑی جماعت رہی ہے تاہم جماعت کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ سے اسے شدید دھچکا پہنچا ہے لہذا اپنے سیاسی وجود کو منوانے کے لیے اسے کے پاس دو ہی راستے ہیں یا وہ حکمران اتحاد میں شامل ہوجائے یا حزب اختلاف کے اتحاد میں یہی معاملہ جمعیت علمائے اسلام(ف)سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں کا ہے قومی اسمبلی میں نون لیگ کے پاس83پیپلزپارٹی کے پاس 55متحدہ مجلس عمل کی15نشستیں ہیں مولانا فضل الرحمان کی اپنی جماعت متحدہ مجلس عمل کا حصہ ہے اور ایم ایم اے میں شامل بڑی مذہبی جماعت جماعت اسلامی کی متحدہ مجلس عمل کی نصف کے قریب نشستیں جماعت اسلامی کے پاس ہیں جوکہ پی ڈی ایم کا حصہ نہیں‘اسی طرح مولانا فضل الرحمان کومتحدہ مجلس عمل میں شامل دیگر کئی جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں انہوں نے کہا کہ اگر مولانا فضل الرحمان متحدہ مجلس عمل کو ایک پیج پر لانے میں ناکام ہیں تو وہ ساری اپوزیشن جماعتوں کو ایک پیج پر کیسے لاسکتے ہیں؟.

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم میں شامل بیشتر جماعتوں کے پاس بمشکل دو‘دو یا ایک‘ایک نشست ہے اسی طرح سینیٹ کے 104کے ایوان میں سے 52سینیٹرزنے 31مارچ2021کو ریٹائرڈ ہوجانا ہے اس وقت تین بڑی جماعتوں کے درمیان سینیٹ میں اکثریت کے لیے مقابلہ ہے جن میں تحریک انصاف ‘پیپلزپارٹی اور نون لیگ شامل ہیں ریٹائرڈ ہونے والے65فیصد سینیٹرزکا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے لہذا اس وجہ سے پیپلزپارٹی سینیٹ کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے حق میں نہیں ہے.

میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ ان کے ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت(خصوصاشہبازشریف)بھی سینیٹ کے انتخابات میں تحریک انصاف کے لیے میدان خالی چھوڑنے کے حق میں نہیں ہیں تاہم وہ الزام اپنے سر لینے کی بجائے پیپلزپارٹی کا کندھا استعمال کررہے ہیں تاکہ پارٹی کے کارکنوں کو یہ نہ لگے کہ ان کی قیادت اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹ رہی ہے.

انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پرپی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ہی نفسیاتی حربے استعمال کر رہی ہیںانہوں نے کہا کہ یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ عمران خان حکومت ہٹانے کی غرض سے حزب اختلاف کی جماعتوں کو پی ڈی ایم کی شکل میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے بعد پیپلز پارٹی الگ راستہ کیوں اختیار کر رہی ہے؟ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری حکومت مخالف شدید احتجاج کی صورت میں جمہوری نظام کے لیے خطرہ محسوس کر تے ہیںان کا موقف ہے کہ حزب اختلاف کے اسمبلیوں سے استعفے دینے کی صورت میں سیاسی بحران پیدا ہوگا جو پورے نظام کو متاثر کر سکتا ہے ‘انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اسٹیبلیشمنٹ پر بھروسہ نہیں کرتی اور اسی لیے سندھ میں اپنی حکومت چھوڑنے اور اسمبلیوں سے استعفوں کی مخالفت کر رہی ہے‘یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری دوسری اپوزیشن پارٹیوں کو ڈرا بھی رہے ہیں کہ ضمنی اور سینیٹ کے انتخابات کے بائیکاٹ کی صورت میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہو جائے گی اور انہیں من چاہے اقدامات کا موقع مل جائے گا.

استعفوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستانی سیاست میں یہ طریقہ پریشربڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے پی ڈی ایم کے میمورنڈم میں استعفے دینے کی تاریخ کا کہیں ذکر نہیں ہے‘ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں اختلافات کی وجہ نظریاتی تضادات کے علاوہ جماعتوں کے مفادات بھی ہیں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اس صورت حال سے کافی فائدہ اٹھایا ہے اور خصوصاً مریم نواز کو لاڑکانہ بلا کر انہوں نے پوائنٹ سکور کیے مولانا فضل الرحمان شروع سے حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک کو انتہائی نقطے تک لے جانے کے حق میں ہیں وہ اسمبلیوں سے استعفے دینے اور ہر قسم کے انتخابات سے دور رہنے کے حامی ہیں بلکہ انہوں نے 2018میں عام انتخابات کے فوری بعد استعفوں کی تجویزاپوزیشن جماعتوں کے سامنے رکھی تھی جسے پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے رد کردیا تھا.

مولانا فضل الرحمان کا خیال ہے کہ استعفوں کے ذریعے ملک میں آئینی اور سیاسی بحران پیدا کر کے اسٹیبلشمنٹ کو اپوزیشن سے بات چیت پر مجبور کیا جاسکتا ہے تاہم آصف علی زرداری کے خیال میں بحران برے نتائج بھی دے سکتا ہے اور ایسا رسک نہیں لینا چاہیے. اس صورتحال میں پی ڈی ایم کو قائم رکھنے کے لیے مولانا فضل الرحمان دونوں بڑی جماعتوں کے ساتھ رہنے اور انہی کی اختیار کردہ لائن پر چلنے کو مجبور ہیں انہوں نے کہا کہ اگرچہ مولانا فضل الرحمان نوازشریف اور مریم نوازکو کسی حد تک قائل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں مگر مسلم لیگ نون کے صدر شہبازشریف ہیں اور وہی قومی اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈربھی ہیں اسی طرح سب سے بڑے اور اہم صوبے پنجاب میں بھی شہبازشریف کے صاحبزادے حمزہ شہبازقائدحزب اختلاف اور پارٹی کے پارلیمانی لیڈرہیں لہذا مولانا فضل الرحمان کو شہبازشریف اور آصف زرداری کو قائل کرنا ہوگا جوکہ فوری طور پر ممکن نظر نہیں آرہا.


لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں