Episode 5 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 5 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

اور ابھی بھی علیشا کی آنکھوں میں اس کیلئے کوئی رنگ نہ تھا ،شاید واقعی پچھلے واقعات اس کے ذہن سے محو ہو گئے تھے ،اسے یہاں آئے ہوئے ہفتہ سے اوپر ہو چلا تھا لیکن اس کے مزاج میں بالکل بھی تبدیلی نہیں آئی تھی، رواحہ محسوس کر رہا تھا وہ سب ہی اسے چیئر اپ کرنے کی کوشش کرتے تھے کہیں کچھ ”غلط“ ضرور تھا جس سے سب واقف تھے ماسوائے اس کے اور اسے شاید اس لئے نہیں بتایا گیا تھا کہ وہ تو علیشا کے نام سے بھی خار کھاتا تھا اس کی داستان کیسے سنتا؟ خود سے اس نے باتوں ہی باتوں میں بڑی ماما اور نور سے پوچھنے کی کوشش کی تو وہ دونوں ہی ٹال گئیں ،اب حقیقت حال تو صرف علیشا ہی بتا سکتی تھی اور وہ اس سے کیا کسی سے بھی زیادہ بات نہیں کرتی تھی۔

”رواحہ! موسم تبدیل ہو رہا ہے بیٹا! نور نے کچھ شاپنگ کرنا تھی میں چاہ رہی تھی علیشا بھی موسم کی مناسبت سے کچھ کپڑے وغیرہ لے لے تم آج آفس سے ذرا جلدی آ جانا۔

(جاری ہے)

“ صبح آفس کیلئے نکلنے سے پہلے بڑی ماما نے اس سے کہا تو اس نے بڑی سعادتمندی سے سر ہلا دیا تھا اور پھر واقعی وہ شام ڈھلنے سے کچھ دیر پہلے ہی لوٹ آیا تھا۔

”نہیں آنٹی! میرے پاس سب کچھ ہے ،کسی چیز کی ضرورت نہیں ،میں کیا شاپنگ کروں گی ،آپ نور کو ہی بھیج دیں۔
“ تہمینہ نے اسے شاپنگ کا کہا تو اس نے فوراً ہی انکار کر دیا ،وہ کسی بھی طرح ان پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھی۔
”کیوں ضرورت نہیں ہے ،موسم تبدیل ہو رہا ہے اب تو سردی لگنے لگی ہے اور تم ابھی تک لان ،کاٹن کے کپڑوں میں گھومتی رہتی ہو ،سردیوں میں تو خریدنے کی ہزار چیزیں ہوتی ہیں۔“ تہمینہ کی بجائے نور تیز لہجے میں بولی تھی ،رواحہ خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہا تھا پھر اس کے ہزار نہ نہ کرنے کے باوجود نور سے اسے اپنے ساتھ گھسیٹ ہی لیا تھا۔
”علیشا! یہ کار ڈیگن دیکھو ،کتنا خوبصورت ہے ،تم پہ بہت سوٹ کرے گا۔“ نور نے ایک براؤن کلر کے اسٹائلش سے کارڈیگن کی طرف اشارہ کیا ،کارڈیگن واقعی بہت خوبصورت تھا ،علیشا نے بھی پسندیدہ نظروں سے اسے دیکھا تھا ،لیکن جیسے ہی اس کی نظر اس کی پرائز پہ پڑی ،اس نے خاموشی سے ہاتھ سے پرے کر دیا ،تین چار ہزار تو علیشا کیلئے معمولی سی رقم ہوا کرتی تھی ،اتنی رقم کی چیزیں تو وہ عام استعمال کیلئے خرید لیا کرتی تھی ،مگر آج یہ بتیس سوکا کارڈیگن اسے اچھا خاصا مہنگا لگ رہا تھا۔
”ارے بی بی! تم جو خون پسینے سے کمائی گئی رقم یوں چٹکیوں میں اڑا دیتی ہو کبھی خود کماؤ تو پتہ چلے ،پھر تو ایک ایک پیسہ بھی سوچ سمجھ کر خرچ کرو گی ،مگر یہ پیسہ تو تمہارے لئے حرام مال کی طرح ہے ہاتھ کی میل سمجھتی ہو ہونہہ،مال مفت دل بے رحم۔“ کسی کی چنگھاڑتی ہوئی آواز اس کے کانوں میں گونجی تو وہ جیسے خود سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی تھی۔
”کیوں؟ کیا ہوا… پسند نہیں آیا؟“ اسے آگے بڑھتا دیکھ کر نور نے متعجب ہو کر پوچھا۔
”ہوں… کچھ خاص نہیں۔“ مدہم لہجے میں کہتی وہ یونہی اور چیزوں کی طرف متوجہ ہو گئی۔
رواحہ جو اس کے چہرے کے تاثرات نوٹ کر رہا تھا فوراً ہی وہ کارڈیگن خرید ڈالا ،پھر جتنی بھی شاپنگ کی نور نے ہی کی ،علیشا کیلئے سب کچھ اس نے ہی خریدا تھا ،اگرچہ علیشا اس کیلئے کسی طور نہیں مان رہی تھی۔
”تو تم مجھے بھی غیر ہی سمجھتی ہو؟ تمہارے نزدیک میں بھی اس جاہل عورت کی طرح ہوں ،میں تمہیں بات بات پہ طعنے دوں گی ،احسان جتلائے گی۔“ اس کی ہر بات کے جواب میں انکار سن کر نور تڑخ کے بولی۔
”یہ بات نہیں ہے نور! تم میرے لئے کیا ہو میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔“ علیشا اس کی بات پر تڑپ کر اس کی طرف مڑی۔
”لیکن زندگی کا برتاؤ میرے ساتھ کچھ یوں بدلا ہے کہ میں فی الحال خود کو بھی سمجھنے سے قاصر ہوں ،اگر تمہیں میری کوئی بات بری لگی تو آئم سوری۔
“ اس کے ہاتھ تھام کر وہ نم پلکوں سمیت بولی ،رواحہ جو کہ ان کے قریب کھڑا تھا ،بے اختیار اس کا جی چاہا کہ اس لڑکی کے سارے دکھ اپنے ہاتھوں سے اپنے کھاتے میں ڈال لے اور کوئی ایسی بات کر دے کہ یہ نم آنکھیں پہلے کی طرح کھلکھلا تھیں۔
”کیسی سوری علیشا؟“ میں ہی کچھ جذباتی ہو گئی تھی ،سوری تو مجھے کہنا چاہئے۔“ نور کے لہجے میں قدرے شرمساری کا تاثر تھا۔
”چلو آؤ ،کچھ ماما کیلئے بھی خرید لیں ورنہ ماما کیا سوچیں گی کیسی بیٹیاں ہیں اپنی ہی شاپنگ کرکے واپس آ گئی ہیں ماں کا ذرا خیال نہیں کیا۔“ اس کا دھیان بٹانے کی غرض سے نور اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے آگے کی طرف بڑھ گئی۔
”جبکہ رواحہ ایک مرتبہ پھر مختلف سوچوں میں گھرا وہیں کھڑا رہ گیا ،اس کا دل علیشا کے بارے میں اتنا پریشان کیوں رہتا تھا اسے خود علم نہیں تھا۔
###
”انکل! میں جاب کرنا چاہتی ہوں ،آپ کی اجازت درکار ہے۔“ صبح ناشتے کی ٹیبل پہ وہ سب بڑے خوشگوار موڈ میں ناشتہ کر رہے تھے جب علیشا کی بات پر ایک لمحے کیلئے ڈائننگ روم میں سکوت چھا گیا نور نے بھی حیران ہو کے اسے دیکھا تھا ایسا کوئی ارادہ اس نے ظاہر تو نہیں کیا تھا۔
”کیوں بیٹا! کوئی مسئلہ ہے یہاں؟“ قاسم صاحب نے نہایت مشفقانہ لہجے میں دریافت کیا تھا۔
”نہیں انکل! مسئلہ تو کوئی نہیں ،میں ویسے ہی گھر میں بیٹھی بور ہو جاتی ہوں ،فارغ ہی ہوتی ہوں تو میں نے سوچا کہ کوئی جاب ہی کر لوں۔“ وہ فوراً وضاحتی انداز میں بولی۔
”اگر اپنا دھیان بٹانا ہی چاہتی ہو تو پھر بہتر ہے کہ آگے پڑھائی شروع کر لو ،جاب تو ویسے بھی ایک ٹینشن ہے نری خواری اور سر درد۔“ اب کی دفعہ تہمینہ نے کہا۔
”لیکن آنٹی! شاید میں فی الحال پڑھائی کو پوری توجہ نہ دے پاؤں ،میں کہہ رہی تھی کہ اگر کوئی جاب وغیرہ کر لوں تو ایک اچھی مصروفیت مل جائے گی۔
“ اسٹڈی شروع کرکے وہ ان لوگوں پہ مزید کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھی بلکہ وہ تو یہ چاہ رہی تھی کہ اپنا خرچ بھی آپ اٹھائے اور کچھ رقم ماما کو بھی بھیج دیا کرے ،خدا جانے وہ اپنا گزارا کس طرح کر رہی ہوں گی۔
”ہونہہ۔“ قاسم صاحب نے پر سوچ انداز میں ہنکارا بھرا تھا۔
”تو بیٹا! آپ کی نظر میں کوئی جاب ہے؟“
ان کا یہ سوال اس بات کی تصدیق کر رہا تھا کہ انہوں نے اس کی رائے سے اتفاق کر لیا ہے۔
”پاپا! اس کی نظر میں جاب کہاں سے آ گئی وہ سکینڈ ٹائم تو کراچی آئی ہے اور ویسے بھی ہم کسی پر اعتماد نہیں کر سکتے ،یہ کام تو اب آپ کو یہی کرنا پڑے گا۔“ اس کی بجائے نور نے صرف جواب دیا تھا بلکہ یہ ذمہ داری بھی ان کے کندھوں پہ ڈال دی تھی،علیشا جس فیز سے گزر رہی تھی وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ جاب کیوں کرنا چاہتی ہے پھر وہ خود بھی یہی چاہتی تھی کہ علیشا پہلے کی طرح زندگی کی طرف لوٹ آئے وہ اسے اس کا اعتماد واپس دلانا چاہتی تھی اور اس کے خیال میں اس معاملے میں جاب اس کی معاون ثابت ہو گی جب وہ مختلف لوگوں کو جان پرکھ سکے گی۔
”بیٹا! یہ چیف ایگزیکٹو تو تمہارے سامنے بیٹھا ہے اس سے پوچھو کہ تمہارے آفس میں کوئی ویکنسی ہے؟“ انہوں نے رواحہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”یہ بھی ٹھیک ہے اگر رواحہ کے آفس کوئی ویکنسی مل سکتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ویٹ کرو ،جب کوئی سیٹ ہو گی تو رواحہ بلا لے گا ،میں بچی کو باہر بھیجنے کا رسک نہیں لے سکتی۔“ تہمینہ نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
”کیوں رواحہ! تمہارے آفس میں کوئی جگہ ہے۔“ نور اب اس کی طرف متوجہ ہوئی ،کیونکہ وہ جانتی تھی علیشا خود تو براہ راست اس سے پوچھے گی نہیں۔
”آپ کی کوالیفیکیشن کیا ہے؟“ رواحہ نے براہ راست اسے مخاطب کرکے پوچھا۔
”بی سی ایس۔“ اس نے جواب دیا۔
”کوئی شارٹ کورس ،ڈپلومہ ،کوئی تجربہ وغیرہ ہے آپ کے پاس۔“ وہ خالص پروفیشنل لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
”نہیں۔“ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”اوکے۔“ اس نے گہری سانس بھری پھر قاسم صاحب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔
”مس ثمن کی شادی ہونے والی ہے وہ آج کل میں ریزائن دے رہی ہیں توثاقب کو ایک کمپیوٹر اسسٹنٹ کی ضرورت ہو گی آئی تھنک کہ مس علیشا کو پھر وہاں اپائنٹ کر لیا جائے ،ثاقب انہیں سٹ کرے گا۔“
”اوکے ٹھیک ہے لیکن ایک بات یاد رکھنا ،علیشا میری بیٹی ہے تم باقی ورکرز کی طرح نہ تو اس پہ غصہ نکال سکتے ہو اور نہ ہی رعب و دبدبہ ڈال سکتے ہو۔
“ انہوں نے علیشا کے کندھے پہ شفقت بھری تھپکی دیتے ہوئے ذرا سخت لہجے میں اسے دھمکایا تھا۔
”رولز تو رولز ہیں ناں بڑے پاپا! اگر یہ رولز اینڈ ریگولیشنز کو فالو کریں گی تو کوئی بھی آفیسر انہیں کچھ نہیں کہہ سکے گا۔“اس نے ایک سنجیدہ سی نظر اس پہ ڈالتے ہوئے کہا تھا جو سپاٹ چہرہ لئے چائے کے چھوٹے سیپ لے رہی تھی۔
”یہ تو مجھے پوری امید ہے کہ تمہیں میری بیٹی سے ایسی کوئی شکایت نہیں ملے گی،کیوں بیٹا!“ انہوں نے آخر میں تائید طلب نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔
”جی… انشاء اللہ۔“ وہ یونہی نظریں جھکائے ہوئے بولی تھی۔
”چلیں بس کریں آپ لوگ تو یہیں آفس کھول کے بیٹھ گئے ہیں۔“ تہمینہ نے اکتاہٹ بھرے انداز میں ان دونوں کو ٹوکا تھا۔
”شکر ہے یہاں آفس نہیں کھل سکتا ورنہ آپ تو ہمیں کوئی کام نہ کرنے دیں۔“ وہ مسکرائے اور نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔
”انہیں کھڑے ہوتا دیکھ کر تہمینہ ان کا بریف کیس لینے چلی گئیں ،رواحہ بھی رسٹ واچ پہ نظر دوڑاتا کھڑا ہو گیا تھا ،نور اٹھ کے ناشتے کے برتن سمیٹنے لگ گئی تو علیشا بھی اس کی ہیلپ کو کھڑی ہو گئی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum