Episode 27 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 27 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

”کیا بات ہے جب سے تم دوبئی سے آئے ہو بڑے کھوئے کھوئے سے نظر آتے ہو۔“ ڈنر کرنے کے بعد وہ یونہی چینل سرچنگ میں مصروف تھا۔ جب ڈیڈی نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔
”ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ڈیڈ! ویسے ہی آپ کو فیل ہوا ہو گا۔“ وہ جو اپنے ہی کسی خیال میں تھا چونک کے بولا۔
”لیکن اس سے پہلے تو مجھے کبھی ایسا فیل نہیں ہوا۔“ وہ بغور اسے دیکھ رہے تھے۔
آریز سنبھل کے بیٹھ گیا۔
”بس ویسے ہی تھکاوٹ سی ہے شاید۔“ پتہ نہیں وہ ان کو مطمئن کر رہا تھا یا خود کو۔
”آریز… ادھر دیکھو میری طرف۔“ انہوں نے کہا تو اس نے ذرا کی ذرا نظریں اٹھا کے انہیں دیکھا پھر نگاہیں جھکالیں۔
”کوئی تو ایسی بات ہے جو میرا بریلینٹ اور بولڈ بیٹا آنکھیں ملا کے وہ بات نہیں کہہ سکتا۔

(جاری ہے)

“ اس کے کندھے پہ بازو پھیلاتے ہوئے انہوں نے اس کا سر اپنے شانے پہ رکھ دیا۔

آریز کے مضطرب دل کو قرار سا آنے لگا اور وہ کھلتا چلا گیا۔
”معلوم نہیں ڈیڈی! وہ واقعی خاص تھی یا پھر صرف مجھے ہی محسوس ہوئی تھی۔ جب میری دوبئی کی فلائٹ تھی۔ میں پلین میں جب اپنی مطلوبہ سیٹ پہ پہنچا تو میری سیٹ پہ وہ بیٹھی تھی اور اس کے برابر والی سیٹ پہ اس کی دادو تھیں۔ میں اس کے یونیفارم ٹائپ ڈریس سے پہچان گیا تھا کہ وہ ایئر ہوسٹس ہے۔
جھنجھلاہٹ میں اپنی دادو سے گفتگو کرتی ہوئی وہ مجھے اتنی پیاری اور بھلی سی لگی کہ میں چند ثانیے اسے ہی دیکھتا رہا پتا ہے ڈیڈی اس کی آنکھیں ہیزل گرین ہیں۔ جو اسے سب سے منفرد و ممتاز کرتی ہیں۔ میں نے اسے خوب تنگ کیا تھا۔ اس کی آنکھوں کی خفگی اس کے لبوں کی مسکراہٹ سے ہرگز میل نہیں کھاتی تھی اور اس روپ میں وہ اتنی دلکش لگ رہی تھی کہ میں نہ چاہنے کے باوجود اسے پھڑ چڑا گیا۔
پتہ نہیں وہ ہر کسی کی بات پہ یونہی چڑ جاتی ہے؟ ویسے ڈیڈی! وہ مجھے بہت اچھی لگی تھی اتنی اچھی اتنی اچھی کہ میرا جی چاہا…“
”اسے اپنی دلہن بنا لوں۔“ انہوں نے اس کی بات اچک لی تو وہ جھینپ گیا۔ اپنے وجیہہ بیٹے کا یہ انداز دیکھ کر انہوں نے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری۔
”لیکن لڑکی کون ہے کہاں رہتی ہے؟“ اس ان دیکھی لڑکی سے انہیں بھی انسیت ہو گئی۔
”وہ آپ کے دوست ہیں نا عازم ٹیکسٹائل والے عازم علی ان کی بیٹی ہے زونیہ عازم۔“
”بہت خوب بیٹا جان! میری ان سے ایک آدھ دفعہ ملاقات ہوئی ہے وہ بھی اپنی ایک ہی فیلڈ میں ہونے کی وجہ سے اور تم نے اسے دوستی میں بدل دیا۔“
وہ اپنے بیٹے کی ذہانت پر عش عش کر اٹھے۔
”پر اب تو دوستی کرنا پڑے گی نا ڈیڈی!“ سر ان کے کندھے سے اٹھاتے ہوئے اس نے خاصا معصومانہ انداز اختیار کیا تھا۔
”ارے یار! اب تو رشتہ داری بنانی پڑے گی خالی خولی دوستی سے کام نہیں چلے گا۔ آخرکار میرے نک چڑھے بیٹے کو کوئی لڑکی پسند آ ہی گئی ہے۔“ انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تو وہ بھی سر جھکا کے مسکرانے لگا۔
اور پھر واقعی ڈیڈی نے اپنا کہا پورا کر دکھایا تھا۔ قلیل عرصے میں ہی انہوں نے عازم انکل اور عامر انکل سے اچھی خاصی دوستی گانٹھ لی تھی۔
وہ خود بھی نہایت بذلہ سنج اور ہنس مکھ انسان تھے لوگ خود بخود ہی ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔ آریز کی بھی اس دوران ان دونوں سے ملاقات ہوئی تھی۔ بلکہ اکثر اوقات ہی ڈیڈی اسے چھیڑتے ہوئے کہا کرتے تھے۔
”جاؤ آریز میاں! آج ذرا اپنے ہونے والے سسر کو ہی سلام کر آؤ۔“
وہ بے چارہ خجل سا ہو جاتا کئی بار اس کا جی چاہا تھا وہ عازم انکل کے ساتھ ان کے گھر ہی چلا جائے اور اس ستم گر کا دیدار ہی کر آئے۔
جو پہلی ملاقات میں ہی اسے متاثر کر گئی تھی۔ لیکن فی الحال خود پہ کنٹرول کرتے ہوئے وہ کوئی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ مناسب وقت کا منتظر تھا۔
بہ الفاظ دیگر یوں کہ وہ چاہتا تھا صبر کا پھل واقعی میٹھا ہی ہو۔
اس کی بے چینی بھانپتے ہوئے ڈیڈی نے عازم اور عامر دونوں کی فیملی سمیت دعوت کر ڈالی۔ آریز تو جھوم جھوم گیا۔
”آخر یہ خیال میرے ذہن میں کیوں نہیں آیا۔“ خود کو پیار بھری سرزنش کرتے ہوئے وہ خاصا مسرور تھا اور خوب دل لگا کر تیار ہوا تھا۔
مگر اس کی قسمت میں ”انتظار فرمایئے“ کے الفاظ درج تھے۔ عازم اور عامر انکل اپنی پوری فیملی سمیت آئے تھے نہ آئی تھی تو ایک وہی دشمن جان جو ایک جھلک دکھلائے کبھی آنچل میں چھپ جائے“ بنی ہوئی تھی۔ عازم انکل نے نہایت معذرت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ آج ان کی اکلوتی بیٹی کی جدہ میں فلائٹ تھی۔
اس لئے وہ نہیں آ سکی البتہ ایک فائدہ اسے ضرور ہوا تھا اس ڈنر کے دوران اس کی عامر انکل کے تینوں بچوں رضی ،فرغام اور عفرا سے خاصی دوستی ہو گئی تھی وہ تینوں خود بھی نٹ کھٹ اور زندہ دل تھے۔ آریز کو اپنے گھر آنے کی نہ صرف دعوت دی تھی بلکہ اس سے وعدہ بھی لے لیا تھا اور آریز تو پہلے ہی سو جان تیار تھا۔
###
دادو انڈیا سے ایسے زبردست سوٹ اور جیولری لے کر آئی تھیں کہ میری اور عفرا کی تو مانو عید ہو گئی تھی۔
چھوٹی دادو نے ایک نہایت ہی خوبصورت صورت ساڑھی بطور خاص مجھے بھیجی تھی۔ عفرا کے اصرار پہ میں نے وہ ساڑھی باندھی تو بے اختیار وہ بول اٹھی۔ 
”قسم سے زون! قیامت لگ رہی ہو۔“
میں مسکرا کے خود کو آئینے میں دیکھنے لگی۔ ساڑھی واقعی میرے سراپے پہ جچ رہی تھی۔ شاید یہ لباس میں نے پہلی مرتبہ زیب تن کیا تھا اس وجہ سے بہرحال دل میں یہ ارادہ کرتے ہوئے کہ اب جو فنکشن سب سے پہلے آئے گا اس میں یہ ہی ساڑھی باندھوں گی میں نے اسے دوبارہ پیک کرکے رکھ دیا۔
آج چھٹی کا دن تھا اور سب کے ساتھ خوش قسمتی سے آج میرا بھی آف تھا۔ میں بڑے خوشگوار موڈ میں گنگناتی ہوئی سٹنگ روم میں داخل ہوئی۔
”ارے صبح صبح اٹھ کے تو اس کے دربار میں حاضری دے دیا کرو سارا دن جس کی نعمتوں کے مزے لوٹتے ہو۔ نیند ہی پیاری ہے تمہیں نماز نہیں پیاری۔
رضی اور فرغام ابھی اٹھ کے آئے تھے اور یقینا انہوں نے صبح کی نماز ادا نہیں کی تھی اسی لئے اب سرنیہو اڑے دادو سے عزت افزائی کروا رہے تھے۔
”چھوڑیں دادو! انہی کے بارے میں تو اقبال نے کہا ہے۔
کس قدر گراں تم پہ صبح کی بے داری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
میں نے جلتی پہ تیل چھڑکا رضی نے بلبلا کے پہلو بدلا۔
”جوانی میں ہی عبادت کرو گے تو فیض پاؤ گے بڑھاپے میں تو شیطان بھی منہ پہ ہاتھ پھیر جاتا ہے۔“
”آپ کے منہ پہ پھیر دیا۔“
فرغام کے منہ سے بے اختیار پھسلا۔
میں نے بمشکل اپنی امڈنے والی مسکراہٹ کو روکا ورنہ کچھ بعید نہیں تھا دادو کی توپوں کا رخ میری طرف ہو جاتا۔
”کچھ تو شرم کرو لڑکے!“ دادو تو آگ بگولا ہو گئیں۔
”دادو! تائی امی بلا رہی ہیں آپ کو ،پھپھو کا فون آیا ہے۔“ عفرا نے اندر جھانک کر اطلاع دی تو دادو باقی کا غصہ پھر کسی وقت کیلئے اٹھاتے ہوئے باہر نکل گئیں۔
”تم دادو کے سامنے زیادہ اترایا مت کرو۔
“ دادو کے جاتے ہی رضی نے خوفناک تیوروں سے مجھے گھورا فرغام کے ارادے بھی لگ بھگ یہی تھے۔
”اچھا بابا! نہیں اتراتی اب اپنی آنکھوں کی خوفناکی تو کچھ کم کرو۔“ میرا کوئی سپورٹر اس وقت یہاں موجود نہیں تھا۔ لہٰذا میں نے پسپائی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھا۔
”سیاستدان ہو پوری۔“ وہ بھی آخر میرے کزن تھے میری رگ رگ سے واقف۔
”زبردست بھئی! آج تو ساری ینگ پارٹی ادھر ہی جمع ہے اور تو اور ہماری زونیہ بھی موجود ہے۔
“ عامر چچا ہم سب کے ہی بہت اچھے دوست تھے۔ اکثر ہماری شرارتوں میں برابر کے حصے دار ہوتے تھے۔ شمیم چچی ان کی اس عادت سے اچھا خاصا چڑ جایا کرتی تھیں۔ لیکن وہ بھی خاطر میں کم ہی لایا کرتے تھے۔
”آج تو اسٹرونگ سی چائے ہو جائے وہ بھی زونیہ کے ہاتھوں کی تو مزا آ جائے۔“ انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تو میں اثبات میں سر ہلاتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
میرے ہاتھوں کی بنی ہوئی چائے کی تو پورے خاندان میں دھوم تھی۔ میں جہاں بھی جاتی تھی خواہ مہمان کیوں نہ ہوں چائے سب میرے ہاتھ کی ہی پیتے تھے۔ اب بھی میں بڑے موڈ میں تھی اس موڈ میں گنگناتے ہوئے میں نے چائے بنائی تھی۔ سٹنگ روم سے مسلسل قہقہوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ اتفاق سے ہی ایسا ہوتا تھا کہ کبھی چھٹی والے دن ہی سب جمع ہو جائیں اور آج ایسا اتفاق ہو ہی گیا تھا میں نے ساتھ میں فرنچ فرائز اور کباب بھی فرائی کر لئے۔
رضی اور فرغام کے ناشتے کا خیال آیا تو بسکٹ بھی نکال کے ٹرالی میں رکھ لئے۔ اگر باقاعدہ ناشتہ بنا کر لے جاتی تو بے چاروں کی ایک مرتبہ پھر دادو کے ہاتھوں شامت آ جاتی۔ میں بڑی ترنگ میں سٹنگ روم کا دروازہ کھول کر ٹرالی دھکیلتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی۔
”لو بھئی آ گئی ہماری بیٹی۔“ عامر چچا کی آواز پہ میں نے سر اٹھایا تو گویا ایک لمحے کیلئے مجھے سکتہ ہوا تھا۔
”اے زونیہ! پہچانا نہیں اپنا آریز ہے وہی جو دوبئی کی فلائٹ میں ہمارے ساتھ تھا۔ مجھے تو بڑی خوشی ہوئی ہے۔“ دادو کی پاٹ دار آواز نے میرا سکتہ توڑا تھا جبکہ ”اپنا آریز“ اور ”ہمارے ساتھ“ کے الفاظ پہ میں بھنا کے رہ گئی۔
”السلام علیکم۔“ ہونٹوں پہ بڑی دلکش سی مسکراہٹ سجاتے ہوئے وہ بولا تھا۔
”وعلیکم السلام۔“ میں نے خاصا چبا کر جواب دیا۔
اچھی خاصی ڈیشنگ پرسنالٹی تھی پھر بھی پتہ نہیں کیوں پہلی ہی ملاقت میں مجھے اس سے چڑ ہو گئی تھی۔
”زونیہ! میں نے تم سے ذکر کیا تھا نا ابراہیم انکل کا جن کے گھر ہم گئے تھے۔ آریز بھائی انہی کے بیٹے ہیں۔“
عفران کا آریز بھائی کہنا مجھے ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ تاہم بڑوں کی موجودگی کا خیال کرتے ہوئے میں نے کھینچ تان کر ایک مسکراہٹ لبوں پہ نمودار کر ہی لی تھی۔
”زونیہ! چائے دو بچے کو۔“ دادو یوں اس کے واری صدقے جا رہی تھیں جیسے بڑے عرصے بعد کوئی بچھڑا ملا ہو۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum