Episode 30 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 30 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

پاپا نے حفصہ پھپھو کیلئے گھر پسند کر لیا تھا۔ عامر چچا ،شمیم چچی ،ماما اور پاپا سب نے متفقہ طور پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا اور تو اور رضی ،فرغام اور عفرا کو بھی گھر بہت پسند آیا تھا۔ ایک میں ہی رہ گئی تھی جو ابھی تک نہ دیکھ سکی۔ سرفراز انکل ایمرجنسی میں دادو کو لے کر چلے بھی گئے تھے۔
”تف ہے تم پر زونیہ! سمعان نے اسپیشل تمہیں دیکھنے کو کہا تھا اور تمہارے علاوہ سب دیکھ چکے ہیں۔
“ میں نے خود کو لتاڑا۔
چھٹی والے دن پاپا نے مجھے چلنے کو کہا تو میں فوراً راضی ہو گئی اور گھر واقعی عالیشان تھا۔ میں نے گھوم پھر کر سارا گھر دیکھا۔ لان بھی خاصا بڑا اور خوبصورت تھا۔ بلکہ اردگرد کے سب ہی گھر بہت خوبصورت تھے۔ میں نے عفرا کی دائمی خوشیوں کیلئے دعا مانگی۔

(جاری ہے)

اس موقعہ پر دادو کی کمی محسوس ہوئی تھی جو حفصہ پھپھو کے پاس تھیں۔

سودا تقریباً طے ہو چکا تھا۔ ان لوگوں نے کوٹھی خالی کر دی تھی اور اپنا سامان لے گئے تھے۔ ہمارے گھر سے کوئی نہ کوئی دیکھنے کیلئے آ جاتا تھا اس لئے عامر چچا نے ایک صوفہ سیٹ اور میز لا کر ہال کمرے میں رکھوا دیئے تھے تاکہ وقتی طور پر ہی سہی بیٹھنے کی جگہ تو ہو۔ البتہ باقی تمام کوٹھی خالی تھی۔ کیونکہ سرفراز انکل کا ارادہ تھا کہ انٹرئیر ڈیزائننگ وہ خود اپنی پسند سے کروائیں گے۔
وہ تو بس چند دن کیلئے پاکستان آئے تھے اور دادو کو لے کر چلے گئے۔
”کیسا لگا زونیہ!“ میں پورا گھر دیکھ کے ہال کمرے میں آئی تو پاپا پوچھنے لگے۔
”بالکل ٹھیک۔ مجھے پسند آیا پاپا! یہ علاقہ بھی اچھا ہے اور گھر بھی ویسے جس پراپرٹی ڈیلر سے بھی آپ نے رابطہ کیا ہے اس نے چیز آپ کو بالکل آپ کی توقع کے مطابق دکھائی ہے۔“ میں صوفے پہ بیٹھتے ہوئے بولی۔
”پراپرٹی ڈیلر سے نہیں بیٹا! میرا دوست ہے ابراہیم ،میں نے اس سے ذکر کیا تھا۔ اس کا گھر بھی یہیں ہے بس یہ کوٹھی فروخت ہو رہی تھی۔ اس نے مجھے خریدنے کا مشورہ دیا تو میں نے باہمی رضا مندی سے اسے خرید لیا۔“ معاً گیٹ پہ بیل ہوئی تو میرے ساتھ ساتھ پاپا بھی چونک گئے۔
”لگتا ہے پاپا! آس پڑوس سے کوئی آیا ہے۔ دیکھیں شاید ہماری تواضع کیلئے ہی آیا ہو۔
“ میری بات پہ پاپا مسکراتے ہوئے باہر کی طرف بڑھ گئے
”شاید پاپا کے جاننے والے ہیں۔“ باہر سے پاپا کا قہقہہ اور بولنے کی آواز پہ میں نے قیاس کیا۔
”یہ میری بیٹی ہے زونیہ۔“ پاپا نے اندر آتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے شخص سے میرا تعارف کروایا تو میں نے احتراماً کھڑے ہو کر انہیں سلام کیا۔
”وعلیکم السلام جیتی رہو۔“ انہوں نے نہایت خوشدلی سے میرے سلام کا جواب دیا اور محبت و شفقت سے دعا دی۔
”کیسا لگا زونیہ بیٹی کو گھر۔“ وہ اور پاپا سامنے رکھے سنگل صوفوں پہ بیٹھ گئے۔
”بہت اچھا لگا۔“ میں نے ایمانداری سے جواب دیا۔
”زونیہ! میں ابھی تم سے ذکر کر رہا تھا نا ابراہیم کا۔ وہ یہی ہیں انہی کے توسط سے ہم نے یہ گھر خریدا ہے۔“ پاپا کے بتانے پر میرے ذہن میں جھماکا ہوا تھا۔
”ابراہیم… تو یہ آریز کے والد ابراہیم ہیں۔
تو ان کا گھر یہیں ہے۔ شکر ہے ان کا وہ تاڑو قسم کا بیٹا ساتھ نہیں آ گیا۔“
”میں بالکونی میں کھڑا تھا کہ تمہاری گاڑی مجھے کھڑی نظر آئی۔ چوکیدار سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ایک صاحب اور بی بی اندر گئے ہیں۔ میں نے سوچا ذرا تم سے گپ شپ ہی لگا لوں۔“ وہ اپ پاپا سے مخاطب تھے۔
”تو اس کا مطلب ہے کہ ان کا گھر بالکل سامنے ہی ہے۔“ میں نے ان کی باتوں سے اندازہ لگایا۔
”بہت اچھا کیا تم نے ،اب تو ہم ہمسائے بھی بن گئے ہیں۔“ پاپا خوشگوار لہجے میں کہہ رہے تھے۔
”السلام علیکم۔“ اچانک ہی کسی نے اندر داخل ہوتے ہوئے سلام جھاڑا تھا۔ میں جو اپنے ہی کسی حساب کتاب میں مگن تھی۔ سر اٹھا کے سامنے دیکھا تو حیران سی اسے دیکھتی رہ گئی۔ مجھے ہرگز توقع نہیں تھی کہ وہ یہاں بھی آ جائے گا۔ بلکہ میں تو اپنی طرف سے فرض کئے بیٹھی تھی کہ وہ یہاں ہے ہی نہیں۔
”یہ سب تکلف کیسا بھئی ابراہیم…“ آریز کے ہاتھ میں شاپرز دیکھ کر پاپا نے مصنوعی ناراضی سے انکل ابراہیم سے کہا۔
”کوئی تکلف نہیں میری بیٹی پہلی دفعہ یہاں آئی ہے میں نے کہا پتا نہیں ہمارے گھر آتی بھی ہے یا نہیں تو کیا یونہی روکھا پھیکا منہ لے کر یہاں سے چلی جاتی۔ کیا سوچتی وہ کیسے پڑوسی ہیں۔ میں نے آریز سے کہا تم فٹا فٹ کچھ لے آؤ میں تب تک عازم سے دو چار باتیں کر لوں۔
ایسا کرو آریز! اب جلدی سے انہیں پلیٹوں میں ڈال کر لے آؤ۔“ آخر میں وہ آریز سے مخاطب ہوئے تو وہ سر ہلاتا ہوا کچن کی طرف بڑھ گیا۔ وہ یقینا پہلے آ چکا تھا اسی لئے اسے کمروں کا اندازہ تھا۔
کچن تو سراسر خواتین کا شعبہ ہے اور ایک خاتون کی موجودگی میں مرد کچن میں کھڑا ہوا خاصا آکورڈ ہی لگ سکتا تھا اور پھر اخلاق کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ اٹھ کر کچن میں جاتی۔
اب میں اتنی بدلحاظ بھی نہیں تھی کہ ڈھیٹ بنی وہیں بیٹھی رہتی لہٰذا میں اٹھ کر کچن میں آ گئی۔
”تھینکس گاڈ! تم آ گئیں ورنہ میں اتنا سگھڑ ہرگز نہیں کہ ایک عدد خاتون کی موجودگی میں کچھ سرو کر سکوں۔“ وہ جو کسی شاپر میں گھسا کچھ نکال رہا تھا مجھے دیکھتے ہی پرے ہٹ گیا۔ میں سلیب پہ دھرے شاپرز کھنگالنے لگی۔
سوفٹ ڈرنک کے ٹن پیک ،پزا ،کیک ،چکن رول ،نگٹس وہ نجانے کیا کیا الم غلم اٹھا لایا تھا۔
یہاں تو خالی کچن بھاں بھاں کر رہا تھا۔ شکر تھا کہ وہ ڈسپوز بل پلیٹیں بھی لے کر آیا تھا۔
میں نے سب سے پہلے شاپر سے پلیٹیں نکالیں اور سوفٹ ڈرنک کے ٹن پیک اس میں رکھ دیئے۔
”ایک بات تو بتاؤ زونیہ!“ میں نگٹس پلیٹ میں نکال رہی تھی جب وہ بولا میں نے کچھ کہنے کی بجائے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔
”یہ تم ہر دفعہ مجھے اتنی حیران ہو کے کیوں دیکھتی ہو جیسے ہم غیر متوقع طور پر ملے ہوں۔
“ اس کا سوال ہی کچھ ایسا تھا کہ میں ایک لمحے کیلئے جزبز ہو گئی۔
”آپ ہر دفعہ اچانک ہی ٹپک پڑتے ہیں جیسا کہ اب ،آپ کو کیسے علم ہوا کہ میں یہاں آئی ہوں اور پھر ساتھ اتنے ڈھیر سارے لوازمات بھی آپ کے ہمراہ ہیں۔“ میں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر صاف کہہ دیا۔
”صبح فرغام نے مجھے فون پہ بتایا تھا کہ آج تم اور انکل یہاں آ رہے ہو۔ یقین جانو میں صبح کا تمہارے انتظار میں گھر سے نہیں نکلا کہ پتہ نہیں تم کس وقت آ جاؤ۔
اللہ اللہ کرکے تو تمہاری گاڑی اس ایریے میں داخل ہوئی ہے اور میں نے شکر کا کلمہ پڑھا۔“ اس کے لہجے میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جو مجھے چونکا گئی۔
”میرا انتظار خوامخواہ کر رہے تھے مجھے آپ کی طرف تھوڑی آنا تھا۔“ میں نے بظاہر خود کو بے نیاز ہی ظاہر کیا۔
”تو میری طرف بھی آ جاؤ۔ اسی بہانے گھر بھی دیکھ لینا شاید تمہیں پسند آ ہی جائے۔
“ دونوں بازو سینے پہ لپیٹتے ہوئے وہ بڑے معنی خیز انداز میں گویا ہوا۔
”فضول میں…“ میں بڑبڑاتے ہوئے دوبارہ شاپر کی طرف متوجہ ہو گئی۔ لیکن دل ایک دفعہ ضرور زور سے دھڑکا تھا۔
سابقہ پوزیشن میں مجھ سے کچھ ہی فاصلے پہ سلیب سے ٹیک لگائے وہ پوری محویت سے مجھے اپنی نگاہوں کے حصار میں لئے ہوئے تھا۔ اچھی خاصی بولڈ ہونے کے باوجود میں اس کی گرم نگاہوں کی حدت سے بری طرح پزل ہو گئی تھی۔
مجھے اپنے گال دہکتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے اور ہاتھوں میں لرزش نمایاں تھی۔ چکن رول شاپر سے پلیٹ میں منتقل کرنا میرے لئے دو بھر ہو گیا تھا۔
”آپ جائیں یہاں سے۔“ جب میں اپنی کوشش میں بری طرح ناکام ہو گئی تو بالاخر اسے کہہ ہی اٹھی۔
”میں نے کچھ کہا ہے…“ مسکراہٹ لبوں میں دبائے وہ معصومیت سے پوچھ رہا تھا۔ مگر آنکھوں کے تاثرات اس کے بالکل برعکس تھے۔
”اس سے تو اچھا ہے کہہ لیں۔“ میں چڑ کے بولی تو وہ ہنس دیا۔
”کہنے کو تو بہت کچھ ہے اگر تم سنو تو…“ وہ دلچسپی سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا۔
”مجھے نہیں سننا شکریہ۔“ رکھائی سے کہتے ہوئے میں نے دونوں ہاتھوں میں پلیٹیں اٹھائیں اور ہال کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اس نے بھی میری مدد کی اور ہم نے مل کر ٹیبل پر تمام چیزیں سجا دیں۔ خود تو وہ آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا جبکہ میں نے ان تینوں کو سوفٹ ڈرنک پیش کی اور اپنا ٹن پیک لے کر اسی صوفے پہ اس سے فاصلہ رکھتے ہوئے بیٹھ گئی۔
کیونکہ اس کے علاوہ دو ہی سنگل صوفے اور تھے جن پہ ابراہیم انکل اور پاپا براجمان تھے۔ نجانے کیوں مجھے محسوس ہا تھا کہ آریز کے ساتھ بیٹھتے ہی مجھے دیکھ کر ابراہیم انکل کی آنکھوں میں چمک در آئی ہے۔ میں نے گڑبڑا کر ٹن پیک لبوں سے لگایا۔
وہ تینوں بزنس سے متعلق اتنی ثقیل گفتگو کر رہے تھے کہ میری سمجھ سے دو فٹ اوپر سے ہی گزرتی جا رہی تھی۔
اللہ جانے کون کون سی دھاتیں اور اسکریپ زیر بحث تھے میں نے اکتا کر رسٹ واچ دیکھی لیکن ان کا گفتگو سمیٹنے کا کوئی چانس نظر نہیں آ رہا تھا۔
”یہاں بور ہونے سے بہتر ہے کہ اوپر والے پورشن میں سمعان کیلئے کوئی بیڈ روم منتخب کر لوں ،آخر کل کو عفرا نے بھی وہیں آنا ہے۔“ میں نے ٹن پیک ٹیبل پہ رکھا اور ”میں ابھی آتی ہوں۔“ کہہ کر ہال کمرے سے گزرتی سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گئی۔
دائیں ہاتھ پہ بنا پہلا کمرہ لوکیشن کے لحاظ سے خاصا پرفیکٹ تھا۔ میں دروازہ کھول کے اندر داخل ہو گئی۔
”ہاؤ…“ میں ابھی ڈھنگ سے کمرے کا جائزہ بھی نہیں لے پائی تھی کہ میرے عقب سے آواز ابھری۔ میں نے ڈر کے مارے چیخنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ ایک بھاری مردانہ ہاتھ میرے منہ پہ آکے رک گیا۔
”اٹس جسٹ آ جوک زونیہ! اگر تم چلائیں تو ڈیڈی اور انکل پریشان ہو جائیں گے۔
“ آریز نے میرے سامنے آتے ہوئے اپنا ہاتھ میرے منہ سے ہٹایا تو میں خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورنے لگی۔
”آپ میرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔“
”کیونکہ تم مجھے اچھی لگی ہو… آں ایک منٹ پہلے میری بات سن لو۔“ مجھے منہ کھولتے دیکھ کر وہ فوراً ٹوک کے بولا تو میں خاموش ہو گئی۔
”میں کوئی سڑک چھاپ اور فلرٹی قسم کا لڑکا نہیں ،بڑا سیدھا سادا سا آدمی ہوں یہ الگ بات ہے کہ تمہیں دیکھ کر اوٹ پٹانگ حرکتیں مجھ سے خود بخود سرزد ہو جاتی ہیں اگر تمہیں بری لگی ہوں تو ان کیلئے معذرت، میں ویسے بھی چور راستوں کی بجائے سیدھے راستے کا قائل ہوں اور صاف لفظوں میں یہ کہ میں تمہیں اپنا ہم سفر بنانا چاہتا ہوں لیکن تم پر اس سلسلے میں کوئی زور زبردستی نہیں۔
سوچ سمجھ کر جواب دے سکتی ہو۔ میں انتظار کر سکتا ہوں۔“
وہ ٹھہرے ہوئے ،گھمبیر اور مضبوط لہجے میں اپنی بات بیان کر گیا تھا جبکہ میرے لئے یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا تھا کہ میں ابھی تک حق دق سی اپنی جگہ پہ کھڑی تھی۔ بلاشبہ آریز ابراہیم ایسا شخص تھا کہ کوئی بھی لڑکی اسے اپنا آئیڈیل بنا سکتی ہے۔
”زونیہ! میں تمہارے جواب کا منتظر ہوں۔
“ وہ دو قدم چل کے مزید میرے قریب آ گیا۔ میں نے بوکھلا کر خشک ہونٹوں پہ زبان پھیری دل تو پہلے ہی اس معاملے میں باغی ہو رہا تھا۔
”میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا۔“ بوکھلاہٹ میں ہی فقرہ میرے منہ سے پھسل گیا۔
”تو سوچو نا۔“ اس کے تراشیدہ لبوں پہ مسکراہٹ پھیلی۔ میں اچھا خاصا گھبرا گئی تھی اور کچھ نہ سوجھا تو میں وہاں سے کھسک کر ٹیرس پہ چلی آئی وہ بھی میرے پیچھے تھا۔
”میری زندگی کا سوال ہے اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا۔“ وہ عین میرے سامنے آ گیا۔ ٹیرس کی گرل اس کی پشت پر تھی۔ مجھے دیکھتے ہوئے گرل سے پشت ٹکا کر وہ غالباً کچھ کہنے ہی والا تھا۔ ٹیرس کی گرل شاید کچھ خراب ہو گئی تھی۔ آریز کے ٹیک لگانے سے اسے جھٹکا لگا تھا شاید وہ ہلی تھی۔ وہ ذرا سے پیچھے کی طرف سرکا۔ میرے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔
غیر ارادی طور پر میں نے اس کا بازو پکڑ کر زور سے کھینچا۔ صورتحال ہم دونوں کی سمجھ میں نہیں آئی تھی اور جب میرا دماغ کچھ سنبھلنے کے قابل ہوا تو میں اس کے سینے سے لگی ہوئی تھی۔ میری اعتدال پہ آتی دھڑکن ایک مرتبہ پھر غیر معتدل ہو گئی۔ میں ایک جھٹکے سے اس سے علیحدہ ہوئی تھی۔ شاید اس کو کھینچتے وقت میں بدحواس ہو کر خود ہی اس پہ گر پڑی تھی۔
مارے خفت اور شرمندگی کے میرا برا حال ہو گیا تھا۔ لیکن وہ ایک لمحہ جب میں نے اس کی دھڑکن کو پوری طرح محسوس کیا تھا مجھے عجیب ہی کیفیت سے دو چار کر گیا تھا۔ آریز کے کلون کی تیز مہک مجھے خود سے آ رہی تھی۔ دل کی رفتار تو اس وقت کسی بوئنگ طیارے سے بھی بڑھ گئی تھی۔
”اس قدر اپنائیت کا شکریہ! ویسے اگر ہم دونوں نیچے گر جاتے تو صبح اخبار کے فرنٹ پیج پہ ہماری تصویر شائع ہوتی۔
آریز نے دلچسپی سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر بات مذاق میں اڑائی۔
چند لمحے قبل زونیہ کا ردعمل اسے بھی بدحواس کر گیا تھا لیکن اس نے جلد ہی خود پہ قابو پا لیا تھا۔ میرے لئے تو وہاں کھڑے رہنا ہی دشوار ہو گیا تھا۔ چند لمحوں میں ہی میرے دل کی کیفیت بن گئی تھی۔ کچھ بھی کہنے کی بجائے میں دھڑکتے دل اور لرزتے قدموں پہ قابو رکھنے کی کوشش میں نیچے آ گئی۔
”پاپا! چلیں کافی وقت ہو گیا ہے۔“ اندر آتے ہی میں بیٹھنے کی بجائے ایسے ہی پاپا سے مخاطب ہوئی۔
”ہماری بیٹی ہمارا گھر دیکھے بغیر ہی چلی جائے گی۔ ایسا تو ہم نہیں ہونے دیں گے۔“ پاپا کی بجائے انکل ابراہیم نے کہا۔
”بہت شکریہ انکل! لیکن مجھے ایک ضرور کام یاد آ گیا ہے میں پھر کسی دن ضرور آؤں گی۔“ آریز سے بھاگ کر تو میں یہاں سے نکل رہی تھی اس کے گھر کیسے چلی جاتی۔
”پھر کس نے دیکھا ہے۔ آج تو تمہارا ڈنر ہماری طرف ہی ہے بس اب کوئی ضد نہیں۔“ ان کے اپنائیت بھرے استحقاق میں مزید پریشان ہو گئی۔ ساتھ میں جانا نہیں چاہتی تھی اور نہ جا کر ان کا مان بھی نہیں توڑنا چاہتی تھی۔ پاپا خاموشی سے ہمیں سن رہے تھے۔
”چلیں ڈیڈی! آج مہلت دے دیں انہیں۔ لیکن آئندہ کیلئے وعدہ ضرور لے لیں۔“ آریز نے غالباً میرے چہرے کے تاثرات جانچ لئے تھے۔ اسی لئے میری مدد کیلئے بولا تھا۔ میں ممنون نظروں سے اسے دیکھنا تو چاہتی تھی لیکن نظریں اٹھانے کی ہی تو ہمت پیدا نہیں ہو رہی تھی مجھ میں ،انکل ابراہیم تھوڑی سی پس و پیش کے بعد مان گئے تھے۔ میں بے ساختہ شکر کا سانس لیتی باہر نکلی تھی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum