Episode 1 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 1 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

”اوہ شٹ! بڑی ماما کی بات سن کے وہ جھلا گیا ،خلق سے اترتی چائے کی شیرینی اسے تلخی سے بدلتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”صبح ہی صبح موڈ غارت ہو گیا۔“ وہ چائے کا آخری گھونٹ حلق میں اتارتے ہوئے بڑبڑایا۔
”میں تو شکر کر رہی تھی کہ آج اتوار ہے ،ورنہ تمہارے لئے بہت مشکل ہو جاتی۔“ بڑی ماما اس کی بڑبڑاہٹ نظر انداز کرتے ہوئے بولیں۔
”کیوں مجھے کیوں مشکل ہو جاتی؟“ اس نے تیوری چڑھا کے پوچھا۔
”ظاہری بات ہے جب تم اسے لینے جاؤ گے تو پھر آفس کو چھوڑنا پڑے گا ،آج چونکہ تم نے آفس نہیں جانا تو پھر تمہارے لئے سہولت ہے۔“ ان کا اطمینان جوں کا توں تھا۔
”کیا؟“ وہ اچھل ہی پڑا۔
”مجھے اپنی چھٹی برباد کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے اور وہ بھی اس آفت کی پرکالہ کیلئے تو ہرگز نہیں ،نو… نیور۔

(جاری ہے)

“ اس نے قطعی انداز میں سر کو جنبش دی۔

”رواحہ!“ بڑی ماما نے تنبیہی نظروں سے اسے دیکھا۔
”پلیز بڑی ماما! آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پہ ،لیکن مجھے اپنے کان بہت عزیز ہیں اور ابھی میرے روم میں ڈھیروں کام میرے منتظر ہیں ،اگر میں چھوڑ کر چلا گیا آپ کی اس لاڈلی کو لینے کیلئے ،،تو واپسی تک میرا دماغ بہت حد تک خالی ہو چکا ہوگا اور پھٹنے کے قریب ہوگا ،لہٰذا مجھے آپ معاف ہی رکھیں۔
“ اس نے کسی لگی لپٹی کے بغیر صاف کہہ دیا۔
”حد ہوتی ہے مبالغہ آرائی کی رواحہ! اب وہ اتنی بھی ال مینرڈ نہیں ہے۔“ نور نے قدرے برہم نظروں سے اسے دیکھا۔
”دیکھا ،اس کے حمایتی اس سے پہلے ہی ٹپک پڑے ہیں۔“ اس کا انداز صاف چڑانے والا تھا۔
”میں حمایتی ہوں تو خود کیا ہو؟ دشمن اول۔“ نور تو اس کے انداز پہ پہلے ہی بھری بیٹھی تھی۔
”میں خوا مخواہ دشمنی مول لوں اس سے ،ابھی مجھے اپنی زندگی بہت عزیز ہے۔“ رواحہ کو گزشتہ دنوں کے واقعات ہرگز نہیں بھولے تھے۔
”بس کرو ،اب لڑنا مت شروع کر دینا۔“ تہمینہ نے ٹوکا تو وہ دونوں ہی خاموش ہو گئے۔
”نور! تم لحاظ رکھا کرو وہ بڑا ہے تم سے اور رواحہ! تم بھی ہر بات میں بحث مت کیا کرو۔“ انہوں نے باری باری دونوں کو ڈانٹا۔
”کتنے بجے آنا ہے مس علیشا فرحان نے۔“ رواحہ نے فوراً ان کا موڈ بحال کرنا چاہا ،نور نے اپنی بے ساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو بمشکل روکا۔
”تین بجے پہنچ جانا اسٹیشن۔“
”اسٹیشن؟“ روحانہ کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
”علیشا فرحان اور لاہور سے کراچی تک ریل گاڑی میں سفر؟“
”کسی مجبوری کی وجہ سے وہ ٹرین میں سفر کر رہی ہے ورنہ اس نے بائی ایئر ہی آنا تھا۔
“ نور نے اس کی حیرت کو ختم کرنا چاہا۔
”مجبوری نہیں ایڈونچر کی خاطر۔“ رواحہ نے طنزاً کہا ،پھر بڑی ماما کی تیز نظروں کو محسوس کرکے فوراً بولا۔
”آپ فکر مت کریں بڑی ماما! آپ کی لاڈلی کو بخیریت گھر پہنچانا میری ذمہ داری ہے۔“
”کیا تھا اگر یہی بات پہلے کہہ دیتے۔“ اسے کھڑا ہوتا دیکھ کر نور نے کہا ،تو وہ اسے گھورتا ہوا ڈائننگ روم سے نکل گیا۔
”یہ اچھی مصیبت بڑی ماما نے میرے گلے ڈال دی ہے اب پتہ نہیں یہ محترمہ کتنے دن یہاں قیام فرمائیں گی ،میرا خیال ہے میں اتنے دن ایک چکر دوبئی کا لگا آؤں ،کچھ کرتا ہوں ،پہلے ایک جھنجھٹ سے تو جان چھڑوا لوں۔“ وہ خود ہی بڑبڑاتا ہوا سیل فون سے نمبرز پریس کرنے لگا۔
”ہیلو ساجد! کہاں ہو اس وقت؟“ ساجد اس کا ڈرائیور تھا اور اپنی سہولت کیلئے ہی رواحہ نے اسے سیل فون لے کر دیا تھا ،آج چونکہ سنڈے تھا لہٰذا اس کی چھٹی تھی۔
”ایسا کرنا ،تین بجے اسٹیشن پہنچ جانا اور علیشا کو لے آنا ،پہچان تو لو گے ناں تم۔“ علیشا تقریباً ڈیڑھ سال پہلے کراچی آئی تھی اور ساجد کو اس وقت نئی نئی ملازمت ملی تھی یہاں۔
”ٹھیک ہے ،بس یہی کام ہے آج تمہارے ذمے۔“ سیل آف کرکے اس نے بیڈ پہ اچھالا ،ایک مصیبت سے تو جان چھوٹی۔
”اس کی بجائے ساجد کو جاتے دیکھ کر بڑی ماما نے خاصی خفگی کا اظہار کیا تھا اس نے اپنی مصروفیت کا بہانہ کرکے بڑی ماما کو رام کر لیا تھا اور یہ بہانہ اتنا بودا بھی نہیں تھا اسے واقعی پی سی پر کافی کام کرنا تھا اور جس وقت اس نے پی سی ٹرن آف کرکے وال کلاک کو دیکھا تو وہ ساڑھے چار بجا رہا تھا۔
”اوہ ،آئی تھنک علیشا کافی دیر کی آچکی ہو گی ،اچھی بات ہے ملاقات کا ابتدائی مرحلہ طے ہو چکا ہوگا‘ لگتا ہے بڑی ماما ابھی بھی ناراض ہیں ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مہمان آیا ہو اور فوراً اس سے ملاقات کا شرف نہ بخشا جائے۔“ خود کلامی کے سے انداز میں کہتا ہوا وہ کھڑا ہو گیا ،لیکن اس معاملے میں خود کو حق بجانب سمجھتا تھا ،کیونکہ پچھلی دفعہ علیشا کو ایئر پورٹ سے رسیو کرنے وہ ہی گیا تھا اور راستے میں اس نے رواحہ کے اتنے کان کھائے تھے کہ بے ساختہ اس کی جی چاہا تھا گاڑی کسی ٹرک میں مار دے ،کم از کم اس کی زبان تو رکے اور اسی پہ اکتفا نہیں کیا تھا ہر کھٹی میٹھی چیز دیکھ کر اس کا دل مچلنے لگتا تھا ،اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ وہ پہلی مرتبہ کراچی ان سے ملنے کیلئے آئی ہے اور اسے اتنی جلدی کسی مرد سے فری نہیں ہونا چاہئے ،وہ کبھی پانی پوری کی فرمائش کر دیتی تو کبھی دہی بھلے ،لیکن رواحہ بھی ٹھس بنا بیٹھا رہا مجال ہے ہاتھ کبھی ہینڈ بریک کی طرف بڑھا ہو۔
”اور بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی ،اپنے دو ماہ کے قیام میں اس نے ہر طرح سے رواحہ کو زچ کیا تھا ،بس انہی ناخوشگوار واقعات کی بناء پر رواحہ نے اس سے دور ہی رہنا چاہا تھا ،اب بھی صرف بڑی ماما کے ڈر سے وہ علیشا سے سلام دعا کرنے کیلئے اٹھا تھا ورنہ ارادہ تو یہی تھا کہ ڈنر پہ ہی ملاقات ہو جائے۔
”وہ سیڑھیاں اتر رہا تھا ،جب لاؤنج کا دروازہ کھلا اور علیشا اندر داخل ہوئی اور رواحہ کو حیرت کا جھٹکا لگا، اس نے پیچ کلر کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا اور ہم رنگ دوپٹہ نہایت سلیقے سے اوڑھا گیا تھا ،چہرے پہ نہایت سنجیدہ بلکہ رنجیدہ تاثرات رقم تھے اندر آتے ہی اس نے سب کو مشترکہ سلام کیا تھا۔
”شکر ہے تم پہنچ گئی مجھے بہت فکر ہو رہی تھی۔“ بڑی ماما نے فوراً آگے بڑھ کر اسے اگلے لگایا تھا اور علیشا کا سارا ضبط جواب دے گیا ،آنسو خود بخود ہی پلکوں کی باڑھ توڑ کر ایک تسلسل سے نکل پڑے تھے ،جنہیں روکنے کی کوشش میں اس نے اپنا نچلا ہونٹ اس بے دردی سے کچلا تھا کہ اس سے خون چھلکنے کے قریب ہو گیا تھا اور رواحہ تو گویا اپنی جگہ ساکت رہ گیا تھا ،وہ چہرے جسے اس نے ہمیشہ کھکھلاتے دیکھا تھا آج ناقابل یقین کیفیت میں اس کے سامنے تھا۔
”دائیں ہتھیلی کی پشت سے اس نے اپنا چہرہ صاف کیا اور ان سے علیحدہ ہوئی نور بھی فوراً اس کی طرف لپکی تھی اور اسے گلے لگایا ،آنسو ایک مرتبہ پھر اس کی آنکھوں میں مچلے تھے اور باہر نکلنے کو بے تاب ہو گئے ،آنکھیں زور سے میچتے ہوئے اس نے انہیں روکنے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔
”بی بریو علیشا! یو آر آ اسٹرانگ گرل۔“ نور نے اس کی کمر پہ تھپکی دیتے ہوئے اسے تسلی دی تھی ،سر کو آہستگی سے اثبات میں جنبش دیتے ہوئے وہ اس سے الگ ہوئی۔
”جاؤ نور! بہن کے کھانے پینے کا انتظام کرو ،آؤ علیشا ادھر بیٹھو۔“ بڑی ماما اسے ساتھ لئے صوفے پہ بیٹھ گئیں ،رواحہ اسی بے یقینی کی سی کیفیت میں نیچے اترا اور اسے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام!“ اس نے پل کی پل نظریں اٹھائیں ،گہری براؤن شہد رنگ آنکھوں میں ہر طرف سیلاب تھا شناسائی کی ہلکی سی رمق بھی نہ تھی ،اب کی دفعہ رواحہ کو حیرت کا دوسرا جھٹکا لگا تھا۔
”تمہیں تو میں کبھی بھول ہی سکتی رواحہ احمد! کیونکہ تمہیں میں نے بہت زیادہ تنگ کیا ہے ،بہت ستایا ہے، تم ہمیشہ مجھے یاد رہو گے۔“ علیشا نے بہت چٹخارے لیتے ہوئے یہ جملہ اس سے کہا تھا ،وہ نہ چاہنے کے باوجود اسے یاد رکھے ہوئے تھا اور وہ چاہتے ہوئے بھی اسے کیسے بھول گئی۔
”بیٹھ جاؤ رواحہ! کھڑے کیوں ہو۔“ وہ جو شش و پنج کی کیفیت میں کھڑا تھا بڑی ماما کے کہنے پر اس کے سامنے ہی سنگل صوفے پہ بیٹھ گیا۔
”کیسی ہو علیشا؟“ وہ جو صرف کھڑے کھڑے سلام کرنے آیا تھا پتہ نہیں کیوں اب چاہ رہا تھا کہ اس سے بیٹھ کے باتیں کرے ،جواب دینے کی بجائے اس نے صرف سر ہلانے پہ اکتفا کیا تھا ،اس کی بھیگی پلکوں نے رواحہ کو اچھا خاصا ڈسٹرب کیا تھا۔
”اسی وقت نور چائے کی ٹرالی ڈھیروں لوازمات سمیت گھسیٹ لائی تھی ،علیشا نے صرف ایک گلاس سادہ پانی پینے پہ اکتفا کیا تھا ،بڑی ماما اور نور کے بے حد اصرار پہ اس نے صرف ایک آدھ چیز ہی چکھی تھی۔
”میں اب آرام کروں گی آنٹی! بہت تھک گئی ہوں۔“ اس سارے عرصے میں اس نے رواحہ پہ ایک کے بعد دوسری نظر نہیں ڈالی تھی ،وہ تو شاید اپنے وجود سے بھی لاتعلق ہو رہی تھی۔
”ہاں… ہاں… سو جاؤ ،کچھ دیر آرام کر لو نور تمہیں بیڈ روم تک چھوڑ آتی ہے۔ نور اسے لے کر چلی گئی۔
”یہ علیشا کو کیا ہو گیا ہے؟ صرف ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں وہ سرتا پا بدل گئی ہے ،کوئی انسان اتنا بھی بدل سکتا ہے؟“ اپنے بیڈ روم میں آکے بھی وہ مسلسل اسی کے متعلق سوچے جا رہا تھا۔
”لیکن مجھے اس سے کیا ،وہ ہنسے یا روئے۔“ اس نے اپنے خیال کو جھٹکنے کی کوشش کی ،لیکن یہ کوشش بری طرح ناکام ہوئی تھی ،اس کا دل و دماغ ابھی بھی علیشا فرحان میں اٹکا ہوا تھا۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum