Last Episode - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

آخری قسط - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

”بس امی جان! تیمور خان لاکھ اچھا سہی پر میرے بھائی سے بہرحال کم ہی ہے۔“ ندا بھابھی عمیر حسن کا کیس لے کر آج بڑوں کی عدالت میں موجود تھیں۔ رشتوں میں اتنی چاہت اور مان انہوں نے یہاں سے ہی سیکھا تھا۔
”آپ جیسے مرضی مقابلہ کر لیں عمیر ہر لحاظ سے تیمور سے بہتر ہے اور میرب کیلئے بالکل پرفیکٹ ہے۔“ ندا بھابھی مزید بولیں۔
”آپ کی بات بالکل بجا ہے بیٹا! لیکن ہم ان لوگوں کے سامنے اپنی پسندیدگی کا اظہار کر چکے ہیں۔
“ فاروق صاحب نرم لہجے میں بولے۔
”صرف پسندیدگی کا اظہار کیا ہے ناں خدا نخواستہ نکاح تو نہیں ہو چکا۔“ انہوں نے فوراً جواب دیا۔
”بیٹا! زبان ہی سب سے بڑی چیز ہوتی ہے۔“ عائشہ بیگم نے بھی حصہ لیا۔
”بے شک امی جان! لیکن ابھی باقاعدہ طور پر کچھ نہیں ہوا ہے ناں۔

(جاری ہے)

ہم انہیں سلیقے سے انکار بھی کر سکتے ہیں۔“ وہ متانت سے بولیں۔

”لیکن اس طرح وٹہ سٹہ بھی تو ہو جائے گا۔“ ندرت نے پہلی دفعہ کچھ کہا۔
”جہاں دونوں فریق سلجھے ہوئے ہوں ایک دوسرے کی خواہشات کا احترام کرتے ہوں وہاں لڑائی جھگڑے کی نوبت سرے سے آتی ہی نہیں۔ مجھے آپ میں رہتے ہوئے اتنا عرصہ تو اگرچہ نہیں ہوا لیکن پھر بھی میری ہر عادت آپ کے سامنے ہے۔ میں بھی آپ لوگوں سے واقف ہو گئی ہوں پھر عمیر حسن کو بھی آپ جانتے ہیں۔
بالکل رافع اور عذیر کی طرح گھل مل کے رہتا ہے۔ ہمارا اگرچہ سگا بھائی نہیں لیکن اس نے کبھی ہمیں بھائی کی کمی محسوس ہونے نہیں دی۔ وہ بہت ہی اچھا انسان ہے اور اچھی سلجھی ہوئی طبیعت کا مالک شخص لڑائی جھگڑے سے ہمیشہ کوسوں دور بھاگتا ہے چاہے درمیان میں وٹہ سٹہ ہو یا نہ ہو۔ یہ تو دلوں کی کدورت ہوتی ہے امی جان! اور جب دلوں میں کدورت کی بجائے پیار محبت ہو تو رشتے کی نزاکت کا احساس خود بخود ہی ہو جاتا ہے۔
“ ندا بھابھی نے بڑی تفصیل سے انکے ممکنہ خدشے سے تردید کی تھی۔
”یہ بات تو بالکل صحیح کہی تم نے۔“ ندرت نے بھی ان کی تائید کی تو انہیں قدرے ڈھارس ملی۔
”آپ کیا کہتی ہیں پھپھو!“ وہ ایکدم انہیں مخاطب کرکے بولیں تو سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔
”عمیر بھی مجھے اپنے بیٹوں کی طرح ہے۔“ واقعی عمیر کیلئے نرم گوشتہ رکھتی تھیں۔
”تو بس پھر… پیچھے رہ ہی کیا جاتا ہے پھر بھی مگر آپ چاہیں تو اپنے طور پر عمیر کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور اگر اب بھی آپ کو وہ موٹی خالدہ آنٹی اپنی ندا بیٹی سے زیادہ عزیز ہے تو پھر آپ اس کے بیٹے کے حق میں فیصلہ کر دیں۔“ انہوں نے آخری حربہ استعمال کیا اور مصنوعی ناراضی سے منہ پھلا لیا۔
”ارے… بیٹا! اتنے دلائل دینے کے بعد بھی آپ کا خیال ہے کہ ہم قائل نہ ہوں گے۔
“ فاروق صاحب نے محبت سے اسے دیکھا کہ عمیر تو بہرحال انہیں بھی پسند تھا۔
”تو… آر… آپ آئی مین…“ وہ بے یقینی میں گھری انہیں دیکھنے لگیں۔ پھر ایکدم حسنہ کی طرف مڑیں۔
”پھپھو…! آپ کو تو پتہ ہے ناں عمیر کتنا اچھا ہے میرب بالکل مجھے اپنی بہن کی طرح ہے۔ بلیومی۔“ حسنہ کے دونوں ہاتھ پکڑ کے وہ انہیں آنکھوں سے لگا کے بولی تو خود بخود ہی آنسو چھلک پڑے۔
”تم بھی مجھے بیٹی کی طرح عزیز ہو۔“ حسنہ نے بڑھ کے اسے گلے لگا لیا۔
”بھئی خوشی کے موقع پر آنسو اچھے نہیں لگتے۔“ عائشہ مسکرا کے بولیں۔
”تو پھر یہ تو طے ہے کہ ہمیں اپنی ندا بیٹی وہ موٹی خالدہ آنٹی سے زیادہ عزیز ہے۔“ فاروق صاحب نے مسکرا کے کہا تو وہ سب ہی مسکرا دیئے۔
###
خوشبو کی پوشاک پہن کر
کون گلی میں آیا ہے
کیسا یہ پیغام رساں ہے
کیا کیا خبریں لایا ہے
کھڑکی کھول کے باہر دیکھو
موسم میرے دل کی باتیں
تم سے کہنے آیا ہے
”خود تو سات سات گز کے دوپٹے اوڑھ کے بیٹھ گئی اور مصیبت ساری میرے سر پر پڑی ہے۔
میں کیا کیا کروں۔“ مزنہ پھرکی بنی پورے گھر میں گھوم رہی تھی۔
اور ہر دو منٹ بعد وہ ان دونوں کو یہ احساس جتلانا نہیں بھولتی تھی۔ وہ بھی ڈھیٹ بنی مسکرائے جا رہی تھیں۔ مزنہ کو تو پتنگے لگ گئے
”اللہ کرے لائٹ چلی جائے جنریٹر جل جائے تمہارے سارے میک اپ کا سیتاناس ہو جائے۔“ وہ منہ پھاڑ کے بولی مگر ادھر پرواہ کسے تھی۔
”ڈونٹ وری انہوں نے ہمیں بغیر میک اپ کے دیکھ رکھا ہے۔
“ میرب نے اسے منہ چڑایا تو وہ تن فن کرتی باہر نکل گئی۔
اس دن اپنے دل کا سارا بوجھ عمیر حسن کے سامنے ڈھیر کرکے وہ پرسکون ہو گئی تھی
اور پھر عمیر تیمور سے ملا۔ تیمور تو بیچارہ خود اس ساری صورتحال سے گھبرایا ہوا تھا۔ نادیہ نے جب اسے آکر بتایا کہ امی ادھر یہ کہہ کر آئی ہیں تو وہ سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔
”رباحہ نے اس کے بارے میں کیا سوچا ہوگا؟ وہ کیسا لڑکا ہے؟“ اگر چند دن تک عمیر اس سے نہ ملتا وہ شاید پاگل ہی ہو جاتا۔
خالدہ بیگم کو وہ ہر طرح سے قائل کرنے کی کوشش کر چکا تھا مگر نتیجہ صفر تھا۔ پھر یہاں پر نبیل نے ان کا ساتھ دیا۔
”میرب کی نسبت ندا کے بھائی سے طے ہے آنٹی! وہ U.K سے واپس نہیں آیا تھا تو ہم نے پریشانی میں تیمور کیلئے ہی سوچ لیا پر شکر ہے کچھ بھی ہونے سے پہلے وہ آ گیا ہے اور اب چند دن بعد میرب کی منگنی ہے۔“ نبیل نے بڑے رسان سے کہا تھا۔
”خالدہ کو جہاں اپنی پلاننگ فیل ہونے کا دکھ ہوا تھا وہاں یہ بھی احساس ہوا تھا کہ وہ اپنی اولاد کو بھی ناراض کر چکی ہیں۔ تیمور کے ساتھ ساتھ نادیہ بھی ان سے سخت خفا تھی۔
”رباحہ اب بھی میرب سے کم نہیں ہے پڑھی لکھی ہے میرب جتنا ہی دے کر رخصت کریں گے۔ پھر بیٹے کی بھی مرضی ہے۔ کل کلاں کو کچھ اونچ نیچ ہوئی بھی تو میں یہ تو کہہ سکوں گی اسے میاں! تمہاری ہی پسند تھی۔
“ انہوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد بالآخر رباحہ کو بھی پسندیدگی کی سند دے تھی مبادا وہ بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
پھر جب ندرت اور عائشہ نے انہیں میرب کے بارے میں بتایا۔ تو وہ بڑی فراخدلی سے کہنے لگیں۔
”اے لو! تو پھر کیا ہوا میرب کیا رباحہ کیا میرے لئے تو دونوں برابر ہیں۔ بس اب رباحہ کو تو آپ میری بیٹی بنا ہی دیں۔“ اور حسنہ جو اندر ہی اندر گھبرا رہی تھیں کہ کہیں صورتحال بگڑ نہ جائے ان کی بات پر اندر تک شانت ہو گئیں۔
ندرت اور عائشہ بھی ان کے اندرونی لالچ سے بے خبر ان کی سادہ دلی کی معترف ہو گئیں۔
پھر یہ ایک الگ قصہ ہے کہ تیمور نے رباحہ کو کس طرح اصل صورتحال سے باخبر کرکے راضی کیا تھا۔
بہرحال جہاں خالدہ بیگم کو جلدی تھی وہیں عمیر کی ماما بھی میرب سے مل کے بہت خوش ہوئی تھیں اور جلد ہی کوئی تاریخ چاہ رہی تھیں۔ دونوں طرف کی صورتحال کو پیش نظر رکھ کے بڑوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ فی الحال نکاح کی رسم کر لی جائے۔
رباحہ اور تیمور کی رخصتی تیمور کے اچھی طرح سیٹل ہو جانے کے بعد اور میرب کی رخصتی اس کی پڑھائی کے ختم ہونے کے بعد طے پائی تھی۔
###
”رباحہ! میں نے کل تمہیں جیولری باکس پکڑائے تھے وہ کہاں رکھے ہیں۔“ مزنہ ایک دفعہ پھر افراتفری میں کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ باہر تائی امی اس سے جیولری باکس مانگ رہی تھیں۔ وہ جلدی سے اندر کی طرف لپکی۔
”ادھر ہی دیکھ لو کہیں پڑا ہوگا۔“ اس نے لاپروائی سے کہا۔
”ادھر دیکھنا ہوتا تو تم سے پوچھنا تھا تمہیں اس لئے پکڑایا تھا کہ تم ادھر ادھر رکھ کے بھول جاؤ۔“ وہ اس پر برسنے لگی۔
”مزنہ! گھنٹے بھر سے تمہیں ایک کام کہہ رکھا تھا تم پتہ نہیں کہاں پھر رہی ہو۔“ ندرت نے اندر داخل ہوتے ہوئے اسے لتاڑا۔
”میں نے رباحہ کو پکڑایا تھا کل تو…“
”رباحہ کو چھوڑو اب کوئی کام خود بھی کر لیا کرو۔
وہ تو پرائی ہو گئی ہے۔ اب تمہیں دیکھنا ہے سب کچھ بچپنا چھوڑو اب عقل سے کام لینا سیکھو۔“ وہ اس کی بات کاٹ کے تیز لہجے میں بولیں۔
”میں دوسرے کمرے میں دیکھتی ہوں۔“ اس سے پہلے کہ ان کی نصیحتیں طول پکڑتیں وہ باہر کی طرف لپکی۔
”تم کدھر بے نتھنے بیل کی طرح بھاگی جا رہی ہو۔“ راستے میں ہی اس کا ٹاکرا رافع سے ہو گیا۔
”تم سے مطلب؟“ وہ پہلے ہی امی کی باتوں پر خار کھائے بیٹھی تھی۔
اس پر چڑھ دوڑی۔
”مطلب ،مطالب تو سارے مجھ تک ہی آتے ہیں مزنہ ڈیئر!“ وہ بغور اس کا جائزہ لے کر بولا جو کاپر اور سی گرین کام والے سوٹ میں ملبوس بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
ہم رنگ جیولری اور دونوں کلائیوں میں چوڑیوں نے اس کی دلکشی میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ ہاں البتہ ماتھے پہ بل جوں کے توں موجود تھے۔
”فضول باتیں مت کرو اور راستہ چھوڑو۔
مجھے بہت ضروری کام نبٹانے ہیں۔“ اس نے جھنجھلا کر اسے کہا۔
”ایک کام میرا بھی کرو۔“ اس پر مطلق اثر نہ ہو۔ شریر نظروں سے اسے دیکھا۔
”ہاں پھوٹو۔“ اس نے گویا جان چھڑائی۔ پتہ تھا وہ ایسے تو نہیں ٹلے گا۔
”کیا خیال ہے چاچو جان کی منتیں کرکے انہیں نکاح پر راضی کر لیتے ہیں۔ اچھی بات ہے ناں خرچا بچ جائے گا اور ان کی بھی بچت ہو جائے گی۔
“ وہ براہ راست اس کی آنکھوں میں جھانک کر بے حد شرارت سے بولا۔
”تو کروا لو مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو۔“ اس نے بظاہر بے نیازی برتنا چاہی۔
”اٹس اوکے تو تمہاری طرف سے تو اقرار ہے۔“ وہ شوخ ہوا۔
”مجھے نہیں پتہ۔“ اس کی ساری تیزی طراری ہوا ہو گئی۔
”یہ رافع بدتمیزی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ کیسے گھورے جا رہا ہے۔” اسے وہاں کھڑا ہونا محال لگ رہا تھا۔
وہ بھی اتنا ڈھیٹ تھا عین راستے میں کھڑا تھا۔
”ویسے یار! میں تو یہ سوچ سوچ کے پریشان ہو رہا ہوں کہ اگر چاچو نے یہ کہہ دیا کہ رخصتی مزنہ کی پڑھائی کے ختم ہونے پر ہو گی تو میں تو ساری عمر آہیں بھرتا رہوں گا۔ تین سال تو B.A میں لگ گئے آگے پتہ نہیں کیا ہوگا۔“ اپنی بات کے اختتام یہ اس نے خود ہی قہقہہ لگایا تھا۔
”ہاں تو لے آؤ کوئی پڑھا کو ،چشما ٹو M.A پاس بڈھی روح۔
“ زیادہ دیر خاموش رہنا اس کیلئے بھی محال تھا کلس کے بولی۔
”پر کیا کروں دل کو تو یہی بھائی ہے وہ کیا کہتے ہیں کہ دل آئے گدھی پر تو پری کیا چیز ہے۔“ وہ ابھی بھی چھیڑنے سے باز نہیں آیا تھا۔
”رافع… تم…“ اس نے دانت کچکچائے۔
”بہت اچھے ہو۔ میں جانتا ہوں یار۔“ اس نے اس کیفیت سے حظ اٹھایا۔
”تم دونوں ادھر کیا کر رہے ہو۔
نیچے مولوی صاحب آ گئے ہیں نکاح ہونے والا ہے۔ چلو نیچے۔“ عذیر بھنایا ہوا اوپر آیا تھا۔
”تم کیوں انگارے چبا رہے ہو۔“ رافع نے اس کی صورت دیکھ کر پوچھا۔
”یار! یہ بڑوں کو میں نظر نہیں آتا سب کی فکر ہے سوائے میرے۔“ اس نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے تو رافع کے ساتھ ساتھ مزنہ بھی مسکرا دی۔
”چل بچے! نیچے چل تیرا بھی بندوبست کرتے ہیں۔
“ رافع نے اسے نیچے کی طرف دھکیلا اور خود بھی اس کے پیچھے چل پڑا مزنہ نے بھی اس کی تقلید کی تھی۔
نیچے لان میں تو گویا خوشیوں کی بارات اتری ہوئی تھی۔ تیمور کے پہلو میں رباحہ اور عمیر کے پہلو میں میرب کو دیکھ کر اس کا دل بے انتہا خوشی سے لبریز ہو گیا تھا۔ ان سب کے جگمگاتے چہرے دیکھ کر اس نے بے ساختہ ان کی دائمی خوشیوں کیلئے دعا مانگی تھی۔
رافع سٹیج پر کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ مزنہ نے مسکرا کے اسے دیکھا اور پھر خود بھی اسٹیج کی طرف بڑھ گئی تاکہ تیسری جوڑی بھی کمپلیٹ ہو سکے۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum