Episode 34 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 34 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

”واہ بھئی واہ! آج تو ناشتے پر میرب بیٹا بھی موجود ہے۔“ فاروق اسے ناشتے کی ٹیبل پہ دیکھ کر خوشدلی سے بولے تھے۔
”جی بڑے ماموں! کل ہی امتحان ختم ہوئے ہیں۔“ وہ بڑی سعادت سے سر جھکا کے بولی تھی۔
”پھر اے ون گریڈ کی امید رکھیں ہم…؟“ چھوٹے ماموں نعیم نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”انشاء اللہ!“ وہ بڑے بھرپور انداز میں بولی۔
”میرب! ڈھنگ سے ناشتہ کرو۔ اتنے دنوں بعد تو کوئی چیز تمہارے حلق سے نیچے اتر رہی ہے۔“ اسے خالی چائے سے پیٹ بھرتا دیکھ حسنہ ٹوک کے بولیں۔
”پھپھو! ایسی پیار بھری سرزنش ہمیں بھی کر دیا کریں۔ صحت کیلئے بڑی مفید ہوتی ہے۔“ رافع جو سدا کا پیٹو تھا۔ فوراً بول اٹھا۔
”پہلے اپنی صحت دیکھی ہے موٹے! پھٹنے کے قریب ہو گئے ہو۔

(جاری ہے)

“ مزنہ بھی اسے چڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی۔

میری صحت تمہاری عقل سے زیادہ موٹی نہیں ہے بلیک بیوٹی!“ حسب معمول رافع اس کی سانولی رنگت پہ چوٹ کرنا نہیں بھولا تھا۔
”آرام سے ناشتہ کرو۔ کیا صبح ہی صبح شروع ہو گئے ہو۔“ عائشہ بیگم نے گھور کر کہا اور ان کی گھوری میں مخفی پیغام ”بڑوں کی موجودگی کا لحاظ کرو۔“ ان سب نے بخوبی پڑھ لیا تھا۔
”کل عنبر کا فون آیا تھا۔ آپ کا پوچھ رہی تھی۔
“ اب وہ شوہر سے مخاطب ہوئیں۔
”کیسی ہے وہ؟ گھر میں تو سب خیر ،خیریت ہے نا…!“ وہ پوری طرح متوجہ ہوئے۔
”ہاں اللہ کا شکر ہے۔ میں نے پاکستان آنے کا کہا تو کہنے لگی۔ امی جان! بس آپ جلدی سے نبیل کی شادی کریں تو پھر میں آؤں گی۔“ ان کی بات پہ سب ہی مسکراتے لب اور معنی خیز نگاہوں سے نبیل کو دیکھنے لگے۔
”میرے چہرے پہ کیا لگا ہے؟“ سب کی نظروں کی تپش محسوس کرکے وہ بری طرح جھنجھلا گیا۔
”زعفران“ عذیر جھٹ سے بولا۔
”ایسا کرو اتار کر تم لگا لو۔“ وہ تپ کے بولا۔
”کیوں میں کیوں لگاؤں؟“ کوئی میری شادی کی بات ہو رہی ہے۔“ دوسرا جملہ خاصے حسرت زدہ لہجے میں ادا کیا گیا تھا۔
”بھئی مجھے تو عنبر کی بات بہت پسند آئی ہے۔ واقعی اب کوئی شور ہنگامہ ہونا چاہئے۔ نبیل کی شادی والا آئیڈیا تو بہت ہی زبردست ہے یہ تو میرے ذہن میں آنا چاہئے تھا۔
“ نعیم خوشدلی سے قہقہہ لگا کے بولے جس میں ان سب کی بھی کھی کھی شامل تھی۔
”چھوٹے ماموں! سچ میں میرا بھی بہت دل چاہ رہا ہے کوئی فنکشن اٹینڈ کرنے کو۔“ میرب نے بھی تائید کی۔ باقی سب ہی زور و شور سے سر ہلانے لگے۔
”لو بھئی جس کی شادی ہے وہ تو بڑے مصروف انداز میں ناشتہ تناول فرما رہے ہیں۔“ رافع نے نبیل کے سنجیدہ انداز پہ چوٹ کی۔
”میرا خیال ہے ذہن میں جتنی بھی لڑکیوں کی تصویریں ہیں۔ نبیل ان میں سے کسی ایک کو Select کرنے میں مصروف ہے۔“ عذیر نے اپنا ہی قیاس لگایا۔
”بھائی اگر مشکل پیش آ رہی ہے تو میں Help کروں؟“ رافع نے نہایت انکساری سے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔
”خدا کیلئے میرے معصوم ،بھولے بھائی! اس لڑکے کی نیت میں سے مجھے فتور کی Smell آ رہی ہے۔ میرے ہوتے ہوئے آپ کو اس نالائق کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔
“ عذیر نے فوراً اپنی چرب زبانی کا مظاہرہ کیا تھا۔
”ویسے بائی دا وے یہ ”فتور“ کس خوشبو کا نام ہے؟“ مزنہ نے نہایت دقیق نکتہ اٹھایا۔
”بلیک روز۔“ رافع نے جھٹ سے جواب دیا۔
”بس کرو۔ تم سب تو مجھے میراثی لگتے ہو۔ ویلے نکموں کو بس زبان چلانی خوب آتی ہے۔“ عائشہ بیگم نے لتاڑا تو وہ سب ہی ایسے فرمانبرداری سے ناشتہ کرنے لگے جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
”دیکھا ان خبیثوں کی ایکٹنگ کو… مہارت رکھتے ہیں ان کاموں میں۔“
مت پوچھ ان خرقہ پوشوں کی کبھی اردات ہو تو دیکھ 
خنجر لئے پھرتے ہیں اپنی آستینوں میں
رباحہ نے نہایت عاجزانہ انداز میں شعر پڑھا۔
”کتنے گھنٹے لگائے تھے اس شعر کو رٹنے میں۔“ سب سے پہلے عذیر کی زبان میں ہی کھجلی ہوئی تھی۔ اس بیچاری نے پہلی مرتبہ زبان کھولی تھی اور دھر لی گئی تھی۔
”اتنی ذہین تو ہے میری بیٹی تم تو ایسے ہی پیچھے پڑ جاتے ہو۔“ بالآخر حسنہ نے اس کی خلاصی کروائی۔
اور یوں باتوں ہی باتوں میں نبیل کی شادی کی بات درمیان میں ہی کہیں رہ گئی جس پہ نبیل نے خدا کا شکر کیا تھا۔
###
”تمہیں کیا ہوا ہے سن ساٹھ کی ہیروئنز کی طرح بڑی اداس بیٹھی ہو۔“ میرب کمرے میں داخل ہوئی تو رباحہ کاغذات کا پلندہ اردگرد بکھرائے سخت پریشان نظر آ رہی تھی۔
”کیا ہوا…؟ کوئی ٹاپک مس ہو گیا ہے؟“ اسے ہنوز اسی حالت میں دیکھ کر میرب نے دوبارہ سوال کیا۔
”کوئی ایک آدھ ٹاپک ہوتا تو پھر بھی خیر تھی مگر یہاں تو میرے بائیو کیمسٹری کے بہت سارے ٹاپک مس ہو گئے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ میں کور کر لوں گی کچھ اتنا مشکل نہیں ہے۔ مگر اتنا ٹف ہے یہ Chapter کہ میرے پلے خاک بھی نہیں پڑ رہا اوپر سے میرا خیال ہے کہ سر فہیم فاروقی نے اس دفعہ Presentation بھی میری رکھنی ہے۔
اتنے چالاک ہیں تاک میں رہتے ہیں۔ کون سا Student زیادہ کلاسز بنک کرتا ہے پھر اسی کی Presentation رکھ دیتے ہیں پکڑ کے۔“ رباحہ نوٹس فائل میں رکھتے ہوئے جلے کٹے لہجے میں بولی۔
”ہر مشکل کا کوئی نہ کوئی حل تو ہوتا ہے ناں۔“ میرب نوٹس ایک طرف ہٹا کر بیٹھتے ہوئے بولی۔ ہاں حل تو یہ ہے کہ میں رات رات بھر جاگوں اپنا خون دل دماغ سے کچھ جلاؤں تب کہیں جا کر یہ منحوس مارے نوٹس Prepare ہوں گے۔
“ وہ انتہائی جلے ہوئے انداز میں گویا ہوئی۔
”تو کوئی شارٹ کٹ اختیار کرو ناں مائی ڈیئر رباحہ!“ میرب نے معنی خیزی سے کہا۔
”اب کیا Super man بن جاؤں۔“ وہ جل ہی تو گئی۔
”Super man بنو نہیں تلاش کرو۔“
”کیا اول فول بک رہی ہو میرے پاس کیا جادو کی انگوٹھی ہے جسے رگڑوں گی تو جن حاضر ہو جائے گا جو سپر مین کو اس کے گھر سے پکڑ کے میرے سامنے لاکھڑا کر لے گا۔
“ رباحہ تپ کے بولی۔
”صحیح کہتا تھا رافع اس کو کیمسٹری مت پڑھائیں یہ تو پہلے ہی نیم پاگل ہے بعد میں تو پوری پاگل ہو جائے گی۔“ میرب تاسف سے سر ہلاتے ہوئے بولی تو رباحہ اسے گھور کے رہ گئی۔
”یوں گھوریاں مت ڈالو۔ میں تمہیں آسان سا حل بتاتی ہوں کیا تمہاری کلاس میں کوئی قابل ذہین اور پروفیسرز کا منظور نظر کوئی اسٹوڈنٹ ہے۔“ میرب اب لائن پہ آ گئی۔
”ہاں ہے۔“ وہ بڑے زور و شور سے سر ہلاتے ہوئے بولی۔
”کون…؟“
”تیمور خان۔“
”تو بس سمجھو کہ کام ہو گیا۔“ میرب نے چٹکی بجائی۔
”وہ کیسے…؟“ رباحہ نے ہونقوں کی طرح اسے دیکھا۔
”بھئی سیدھی سی بات ہے اس کے سامنے جانا دو چار ادائیں دکھانا پلکیں جھکا کے ،دوپٹے کا بایاں پلو مڑوڑتے ہوئے شرما کے کہنا سنئے! کیا آپ کے پاس سر فہیم فاروقی کے بائیو کیمسٹری کے لاسٹ فور ،فائیو لیکچرز ہیں؟ بس پھر دیکھنا وہ بوتل کے جن کی طرح ایک ہفتے کے چھوڑ پورے سال کے لیکچرز لا کے تمہارے سامنے ڈھیر کر دے گا۔
“ میرب نہایت مزے لے لے کر بولی۔
”تم نے اسے دیکھا نہیں ہے ناں اس لئے یہ ساری بکواس کر رہی ہو۔ کھڑوس ہے وہ پورا… مجال ہے کسی لڑکی کو منہ لگا جائے پورے ڈیپارٹمنٹ کی لڑکیوں نے اسے پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی ہے پر وہ بھی بڑا کائیاں ہے پروں پہ پانی نہیں پڑنے دیتا۔“ رباحہ نے منہ بسورتے ہوئے اسے حقیقت حال سے آگاہ کیا۔
”امید پر دنیا قائم ہے تم ٹرائی تو کرکے دیکھو۔
“ میرب اپنے موقف پہ ڈٹی رہی۔
”نہ بابا نہ… مجھے اپنی بے عزتی کروانے کا کوئی شوق نہیں۔“ اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
”تو پھر ایسے کرنا کہ سر فہیم فاروقی سے ہی عزت افزائی کروا لینا سب کے سامنے اور پھر یہ رونی صورت لے کر میرے سامنے مت آنا۔“ وہ جل بھن کے تو ہی رہ گئی۔
”پلیز کوئی اور مشورہ نہیں ہے تمہارے پاس کوئی اچھا سا آسان سا حل بتا دو ناں۔
“ وہ پھر منت پر اتر آئی۔
”آسان سا حل یہ ہے کہ تم سر فہیم فاروقی کو ہی قابو کر لو۔“ وہ بڑے ریلیکس انداز میں اس کے برابر لیٹتے ہوئے بولی تو رباحہ نے اسے کھا جانے والی نگاہوں سے گھورا۔
”وہ تایا جان ٹائپ پروفیسر تو آج تک اپنی بیوی کے قابو میں نہیں آئے تو میں کس کھیت کی مولی ہوں۔“
”تو آخری حل یہی ہے مائی سویٹ کہ دماغ لڑاؤ اور دن رات ایک کرکے محنت کرو۔ یہی شرفاء کا شیوہ ہے۔“ کلس کر کہتے ہوئے وہ رخ موڑ کے لیٹ گئی جبکہ رباحہ نے اس کی پشت کو ایک عدد گھوری سے نوازنے کے بعد دوبارہ اپنے سامنے دھرے نوٹس کو بڑی بے بسی سے دیکھا تھا۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum