Episode 8 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 8 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

اسے یہاں آئے ہوئے ہفتہ سے اوپر ہو چلا تھا کافی حد تک وہ سب کے مزاج کو سمجھ گئی تھی ،لیکن وہ زیادہ تر اپنے کام سے ہی کام رکھتی تھی بہت کم کسی سے مخاطب ہوتی تھی ،اس کا اپنا انداز لئے دیئے رہنے والا ہی تھا ،اسی لئے سب اس کی طرف سے محتاط تھے ،کچھ وہ رواحہ کے ساتھ آتی تھی اس کا بھی سٹاف پر رعب تھا ،لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس سے پوچھ لے۔

البتہ اپنے کام کے ساتھ وہ بالکل مخلص تھی ،اس کے کام کی وجہ سے کسی کو اس سے شکایت نہیں تھی ،ثاقب اکثر و بیشتر ہی اس کے کام کی تعریف کرکے اس کی حوصلہ افزائی کرتا رہتا تھا ،وہ اس کی توقع سے بڑھ کر ٹیلنیٹڈ نکلی تھی۔
”حسب معمول لنچ آورز میں پیون اس سے کھانے کا پوچھنے آیا تھا ،اس نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا تھا ،آج اس کا ارادہ تھا ماما کو فون کرنے کا ،کیونکہ پچھلے کافی دنوں سے ماما کا کوئی فون نہیں آیا تھا ،اسے ہادی کی خیر خیریت بھی پتہ نہیں چلی تھی۔

(جاری ہے)

صبح رواحہ نے اسے کسی کام کیلئے طلب کیا تو اس نے بہت جھجکتے ہوئے اس سے دریافت کیا تھا۔
”سر کیا… میں آفس کے فون سے ایک کال کر سکتی ہوں آؤٹ آف سٹی۔“ کتنا مشکل ہوتا ہے کسی سے کچھ مانگنا ،اگرچہ وہ اجازت ہی کیوں نہ ہو ،اس کی پیشانی ایک جملے میں ہی عرق آلود ہو گئی تھی اور ہتھیلیاں بھیگ گئی تھیں۔
”یس… وائے ناٹ… آپ جب چاہیں جہاں چاہیں کال کر سکتی ہیں میری طرف سے آپ کو کھلی پرمیشن ہے۔
“ رواحہ نے بڑے کھلے دل سے اسے اجازت دی تھی۔
”نجانے کیا بات تھی لیکن اسے اپنے دل کے ایک حصہ میں ایک انجانا سا دکھ محسوس ہوا تھا ،وہ علیشا جو بڑے آرام سے کبھی اس کی ساری لائبریری کو تہس نہس کرکے بغیر اجازت کتابوں کا بیڑہ غرق کر آئی تھی ،آج فقط ایک فون کال کیلئے کتنی بے بسی سے اس کی اجازت مانگ رہی تھی۔
ایک مرتبہ پھر اس خواہش نے دل میں انگڑائی لی تھی کہ وہ اس سے اس کے حالات کے متعلق پوچھے ،اس حد تک تبدیلی کی وجہ جانے ،لیکن ایک مرتبہ پھر اس نے اپنی خواہش کو دبا لیا تھا ،کیونکہ فی الحال وہ ایسا کوئی حق نہیں رکھتا تھا۔
”تھینک یو۔“ ممنون لہجے میں کہتی وہ اٹھ کر جا چکی تھی۔
ایک بار ،دو بار ،سہ بار ،بار بار ٹرائی کے باوجود نمبر مل کے نہیں دیا ،ہر دفعہ رابطہ نمبر بند ہی ملا ،ریسیور ،کریڈل پر ڈالتے ہوئے وہ ازحد پریشان ہو چکی تھی۔
”پتہ نہیں فون ڈیڈ ہو گیا ہے یا کسی نے پلگ ہی نکال کے پھینک دیا ہے۔“ وہ اضطراری انداز میں ہاتھوں کی انگلیاں چٹخانے لگی۔
”اب کیسے رابطہ ہو سکتا ہے ماما سے؟“ وہ پریشانی سے سوچنے لگی۔
”سیل فون بھی تو نہیں ہے ناں ،اب ان کے پاس۔“ اس کی پریشانی میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔
”فاطمہ بھابھی!“ ایکدم اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔
فاطمہ ان کی پڑوسن تھیں علیشا کی ان سے کافی اچھی علیک سلیک تھی کئی دفعہ مشکل وقت میں علیشا نے ان کا ساتھ دیا تھا ،فاطمہ اس کی بہت عزت کرتی تھیں ،شکر تھا کہ اس کے ذہن میں ان کا نمبر یاد رہ گیا تھا ،اس نے لپک کر ریسیور اٹھایا اور تیزی سے نمبر پریس کرنے لگی۔
”السلام علیکم!“ اس کی توقع کے مطابق فون فاطمہ بھابھی نے ہی ریسو کیا تھا۔
”وعلیکم السلام بھابھی! میں علیشا بات کر رہی ہوں۔“
”کیسی ہو علیشا! بھئی کہاں گم ہو گئی ہو تم میں کئی دفعہ ندرت آنٹی سے تمہارا پوچھ چکی ہوں ،کتنی خوشی ہو رہی ہے مجھے تمہاری آواز سن کے۔“ دوسری طرف سے ان کی پرجوش سی آواز سنائی دی تھی ،وہ ایک ہی سانس میں بولے گئیں۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں اور کہیں گم نہیں ہوئی ،اسی دنیا میں ہوں اچھا بھابھی مجھے ماما سے بات کرنی ہے گھر کا نمبر نہیں مل رہا ،میں ذرا جلدی میں ہوں ،کیا آپ ان سے میری بات کروا سکتی ہیں۔“ وہ فوراً مطلب کی بات پر اتر آئی۔
اگر رواحہ نے اسے اجازت دے دی تھی تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ شروع ہی ہو جاتی اور آئندہ اس رعایت سے بھی جاتی۔
”ہاں ہاں کیوں نہیں تم پانچ منٹ بعد فون کر لینا میں بلا لاتی ہوں بچے تو سکول گئے ہیں۔“ انہوں نے کہا۔
”اوکے ٹھیک ہے ،شکریہ۔“ اس نے تشکر بھری سانس خارج کرتے ہوئے ریسیور رکھا اور دل میں دعا کرنے لگی کہ ماما گھر پہ ہی ہوں۔
پانچ منٹ بعد اس نے دوبارہ نمبر پریس کئے ،اس دفعہ فون ماما نے ہی اٹھایا تھا۔
”کیسی ہیں ماما؟“ ماما کی آواز سنتے ہی اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔
”وہ جو کبھی ماما کے بغیر ایک منٹ نہیں رہتی تھی ،آج کتنے دن بعد ان کی آواز سن رہی تھی اور شکل تو پتہ نہیں کب دیکھنا نصیب ہونا تھی۔
”میں ٹھیک ہوں بیٹا! تم کیسی ہو؟“ دوسری طرف ماما کی حالت بھی کچھ اس سے مختلف نہ تھی۔
”میں بھی ٹھیک ہوں ،گھر کا نمبر کیوں نہیں مل رہا ،میں آدھے گھنٹے سے ٹرائی کر رہی ہوں۔“ اس نے جلد خود کو سنبھال لیا تھا۔
”بیٹا! لینڈ لائن تو کافی دن ہوئے شیراز نے کٹوا دیا ہے۔“ ان کا کرب میں بھیگا لہجہ سنائی دیا۔
”کٹوا دیا؟ کیوں؟“ اس نے ازحد حیرانی سے دریافت کیا۔
”بس بیٹا! شاید بل وغیرہ کا کوئی مسئلہ تھا ،تم سناؤ ،طبیعت ٹھیک ہے تمہاری ،گھر میں سب کیسے ہیں؟“ انہوں نے بات کا رخ بدل دیا۔
”لیکن ماما! ہادی نے بھی تو رابطہ کیا ہوگا ،وہ وہاں بیٹھا کتنا پریشان ہو رہا ہوگا ،آج مجھے کوئی کم پریشانی اٹھانی پڑی ہے ،وہ تو شکر ہے کہ فاطمہ بھابھی کا نمبر میرے ذہن میں تھا۔
“ اس کا لہجہ بے بسی کی گہری تڑپ لئے ہوئے تھا ،کاش اے کاش وہ کچھ کر سکتی ،کچھ تو ہوتا اس کے اختیار میں۔
”آیا تھا ہادی کا فون بھی ،اسی نمبر پہ ٹھیک ہے وہ بھی تمہیں سلام دعا دے رہا تھا۔“ انہوں نے ہادی کی خیر خیریت اس تک پہنچائی ،علیشا کا دل دکھ سے بھر گیا۔
”کتنے وقار اور تمکنت سے ان کی ماما نے ساری زندگی گزاری تھی اور اب اس بڑھاپے میں انہیں یوں ذلیل و خوار ہونا پڑ رہا تھا ،ایک فون کال کیلئے وہ دوسروں کی محتاج ہو گئی تھیں۔
”گھر میں سب ٹھیک ہیں تہمینہ کیسی ہے؟“ اس کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے خود ہی ادھر ادھر کی باتیں شروع کر لیں۔
”جی ہاں سب ٹھیک ہیں اور بہت اچھے ہیں۔“ اس نے گہرا سانس کھینچا اور پھر اصل بات کی طرف آ گئی جس کیلئے اس نے فون کیا تھا۔
”ماما! میں نے جاب کر لی ہے۔“ یہ جملہ ادا کرتے وقت وہ کس کرب سے گزری تھی یہ صرف وہی جانتی تھی یا اسے جنم دینے والی ماں۔
”کہاں؟“ وہ متفکر ہو گئیں۔
”یہیں قاسم انکل کے آفس میں ،وہ لوگ تو بہت اچھے ہیں مجھے آگے پڑھنے کا کہہ رہے تھے ،لیکن میرا دل نہیں مانا کہ مزید کسی پہ بوجھ بنوں ،میں نے ٹھیک کہاں ناں ماما؟“ ایک تو ہستی تھی جس سے وہ اپنے دل کی ہر بات بلا خوف وہ جھجک کہہ سکتی تھی ،بغیر کسی عار کے۔
”ہاں شاید۔“ وہ مبہم سا بو لیں۔
”چلو اس طرح تمہارا دھیان تو بٹا رہے گا۔
“ پتہ نہیں انہوں نے کس کو تسلی دی تھی اسے یا خود کو۔
”آپ دعا کریں ہادی اچھی طرح سیٹل ہو جائے ،بس پھر ہم لوگ بھی یو کے چلے جائیں گے اور میں نے جاب بھی اسی لئے کی ہے تاکہ کچھ اماؤنٹ جمع کر سکوں۔“ دوسری طرف ایک پل کو سکون چھا گیا تھا۔
”اوکے ماما ،میں آپ کو پھر کال کروں گی ابھی آفس کے فون سے کر رہی ہوں ،زیادہ دیر بات نہیں کر سکتی ،آپ اپنا خیال رکھئے گا ڈھیر سارا ،میں جلد ہی سیل فون خرید لوں گی تاکہ آپ سے اور ہادی سے آسانی سے رابطہ ہو سکے اوکے اللہ حافظ۔
“ جلدی جلدی کہتے ہوئے وہ ایک ہی سانس میں کئی جملے بول گئی اور ریسیور کر یڈل پہ ڈال دیا۔
”ٹائم دیکھنے کیلئے اس نے جونہی وال کلاک کی طرف نظر اٹھائی تو اپنے سامنے رواحہ کو دیکھ کر ایک لمحے کیلئے بھونچکی ہو گئی۔
نجانے وہ کب سے کھڑا اس کی گفتگو سن رہا تھا ،ماما سے بات کرتے ہوئے اسے قطعاً احساس نہیں ہوا۔
”پتہ نہیں میں کتنی دیر سے باتیں کئے جا رہی تھی کیسا سوچتا ہوگا میری پرمیشن کا کتنا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
“ اندر ہی اندر اسے ازحد ندامت نے آن گھیرا۔
”مس علیشا! صبح آپ کو ثاقب نے جو رائل انڈسٹری کی فائل دی تھی اس میں کوئی مارکیٹنگ سیلری کے پرسٹیج والا پیج ہے اس کے دو تین پرنٹ نکال کر میرے آفس میں بھیج دیں۔“ اس نے بڑے نارمل انداز میں کہا تھا ،گویا اس نے اس کی ٹیلیفونگ گفتگو کو سنا ہی نہیں تھا۔
”پتہ نہیں واقعی نہیں سنایا پھر جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں۔“ اس نے دل میں سوچا۔
”جی سر!“ وہ کہنے کے ساتھ ہی سب سے نچلی دراز میں رکھی فائل کو نکالنے لگی۔
”اس نے ایک نظر اس کے اسکارف سے ڈھکے سر کو دیکھا اور پھر اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا ،وہ بھی سر جھٹکتے ہوئے فائل میں سے صفحہ نکالتے ہوئے پرنٹر کی طرف متوجہ ہو گئی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum