Episode 38 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 38 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

آج چھٹی کا دن تھا سب گھر میں موجود تھے۔ عمیر بھی یہیں تھا۔ نبیل بھائی نے اصرار کرکے اسے روک لیا تھا۔
”چھٹی کا دن ہمارے ساتھ گزار کے دیکھو۔“ نبیل بھائی نے بڑے دوستانہ انداز میں ہاتھ اس کے کندھے پہ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”اور آئندہ ہمیشہ کیلئے توبہ کر لیں گے۔ بعد میں ندا بھابھی سے کہیں گے۔ تم سارا دن سرکس میں کیسے گزار لیتی ہو؟“ میرب نے اندر داخل ہوتے ہوئے گفتگو میں حصہ لیا۔
”آپ کی موجودگی میں ،میں بور کیسے ہو سکتا ہوں۔“ پتہ نہیں اس کے لہجے میں کیا بات تھی۔ میرب نے ٹھٹک کے اسے دیکھا۔ مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا تاہم لبوں پر شریر و شوخ سی مسکراہٹ ضرور موجود تھی۔
”اس کی چھوڑو یار!! یہ دنیا میں واحد ہستی ہے جو ایم۔ بی اے کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

“ عذیر نے لطیف سا طنز کیا تھا۔ واقعی وہ جب سے یونیورسٹی جانا شروع ہوئی تھی۔

خاصی مصروف ہو گئی تھی۔
”تو تم بھی کر لو تاکہ ایک اور ایک گیارہ ہو جائیں۔“ وہ کھسیاہٹ مٹانے کو بولی۔
”عمیر بھائی! آپ بتائیں آپ کو کون سی ڈش پسند ہے۔ میں آج اسپیشل آپ کیلئے بناؤں گی۔“ مزنہ نے ہال میں داخل ہوتے ہی اسے مخاطب کیا۔
”بلیک بریانی۔“ رافع جھٹ سے بولا۔
”وہ کیا تمہارے گوشت کی بنتی ہے؟“ وہ تپ کے اس کی طرف مڑی۔
”نہیں تمہارے۔“ کمال اطمینان سے جواب دیا گیا۔ عمیر کا قہقہہ جاندار تھا۔
”گلاب جامن کی فرمائش کر دیں عمیر بھائی!“ رافع ابھی بھی باز نہیں آیا تھا۔
”نہ تنگ کرو میری بہن کو۔“ عمیر نے مزنہ کی سائیڈ لی تو وہ رافع کو گھورتی کچن میں چلی گئی۔
”آپ کی بہن بڑی تیز ہے۔“ رافع ہنستے ہوئے بولا۔
”تم جو ہر وقت اس کے پیچھے پڑے رہتے ہو۔
“ میرب بھی اس کی طرف متوجہ ہو کر بولی۔
”لو جی یہاں ہر طرف اس کے حواری ہیں۔“ اس نے مسکین سی شکل بنائی۔
”تم سمیت۔“ میرب نے مسکراہٹ لبوں میں دبا کر شرارتی نظروں سے اسے دیکھا۔
اس کی نگاہوں کا مفہوم سمجھ کے رافع نے چھت پھاڑ قہقہہ لگایا تھا۔ عمیر نے ٹھٹک کے ان دونوں کو دیکھا۔
”دال میں کچھ کالا ہے۔“ عمیر نے مشکوک نظروں سے ان دونوں کو دیکھا۔
میرب کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ رافع بھی مسکرا دیا۔
جسے ہم کہہ نہیں سکتے اسے ہم فرض کرتے ہیں
چلو ہم فرض کرتے ہیں ہمیں اس سے محبت ہے
عذیر نے ”تم“ کی جگہ اس کا صیغہ لگا کے حسب حال شعر پڑھا۔
”اچھا۔ تو یہ بات ہے۔“ عمیر بھی مسکرا دیا۔
”بس بھائی! بڑا خدا ترس دل پایا ہے۔“ رافع نے انکساری کی حد کر دی۔
جاؤ جاؤ یہ خدا ترسی کہیں اور دکھاؤ ایسے بھی گرے پڑے نہیں ہم۔“ میرب کی بہنا پے کی رگ پھڑکی۔
”صلہ رحمی گھر والوں سے شروع کرنی چاہئے۔“ وہ علامہ بنا۔
”بس اپنی مردانہ انا کو نیچے نہ آنے دینا انا کا پرچم بلند رہے تو دل کو تسکین ہوتی ہے۔ ہے ناں۔“ اس نے آئینہ دکھایا۔
”صلہ رحمی میں انا کہاں سے آ گئی؟“ وہ بھی بڑا کائیاں تھا جلد ہاتھ آنے والوں میں سے نہ تھا۔
”یہ تو بڑا لطیف جذبہ ہے مس میرب! دل کے معاملوں میں انا کا عمل دخل نہیں ہوتا۔“ عمیر بھی میدان میں کود پڑا۔
”مردوں کیلئے سب سے بڑا معاملہ ہی اناکا ہوتا ہے۔“ وہ اپنے موقف پر ڈٹی تھی۔
”آپ اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتی ہیں؟“ وہ بھی سنجیدہ ہوا۔
”میں نے ہزار دفعہ مشاہد کیا ہے“ اس کے لہجے میں ہلکی سی تلخی کی آمیزش تھی۔
جسے عمیر محسوس کئے بنا نہ رہ سکا۔
”پھر ہم اس احساس کو محبت کا تو نام نہیں دے سکتے۔ میرے نزدیک جو محبت انا کی انگلی تھامے ہوئے ہو وہ محبت تو نہیں سراسر خود غرضی ہے۔“ وہ بڑے گہرے لہجے میں بولا۔
”ہم خود غرضی کو محبت کے لبادے میں ہی تو لپیٹ دیتے ہیں۔“ وہ بولی۔
”لیکن پانچوں انگلیاں برابر تو نہیں ہوتیں مس میرب!“ اس نے بھی گویا اسے سمجھانے کا حلف اٹھا رکھا تھا۔
یہ میں نے کب کہا کہ سب لوگ ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر ایسے ہی ہوتے ہیں اس کی بات پر عمیر نے ایک اطمینان بھری سانس کھینچی۔
”چلیں شکر ہے آپ نے سب مردوں کو ایک ہی صف میں کھڑا نہیں کر دیا۔ ورنہ میں تو ڈر ہی گیا تھا آپ کے نادر خیالات سے۔“ اسے دیکھ کر وہ مبہم سا مسکرایا۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز
عذیر نے ماحول پر چھائی کثافت کو کم کرنے کیلئے نہایت ہی بے تکا شعر پڑھا۔
جس پر وہ سب ہی بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
###
محبت پھر محبت ہے
کبھی دل سے نہیں جاتی
ہزاروں رنگ ہیں اس کے
عجب یہ ڈھنگ ہی اس کے
کبھی صحرا کبھی دریا
کبھی جگنو ،کبھی آنسو
ہزاروں روپ رکھتی ہے
بدن جھلسا کے جو رکھ دے
یہ ایسی دھوپ رکھتی ہے
کبھی بن کر یہ اک جگنو
شب غم کے اندھیروں میں
دلوں کو آس دیتی ہے
کبھی منزل کنارے پر
صدیوں کے مسافر کو
فقط اک پیاس دیتی ہے
اذیت ہی اذیت ہے
محبت پھر محبت ہے
کبھی دل سے نہیں جاتی
###
”میرب!“ اپنے نام کی پکار پر اس نے پلٹ کے دیکھا تو مقابل عمیر حسن کو پایا۔
”کیسے ہیں آپ؟“ وہ خوشدلی سے دریافت کرنے لگی۔
”ٹھیک ٹھاک آپ سناؤ۔“ اس کی آنکھوں کی چمک میرب کو مخاطب کرتے وقت یونہی بڑھ جایا کرتی تھی۔ جیسے اب اسے بک شاپ پر دیکھ کے اسے وہ بے حد خوش ہو تھا۔
”میں بھی ٹھیک ہوں۔ چند بکس خریدنا تھیں اس لئے یونیورسٹی سے سیدھی ادھر آ رہی ہوں۔ یہ تینوں بکس پیک کر دیں۔“ اسے جواب دینے کے ساتھ وہ کاؤنٹر مین سے مخاطب ہوئی۔
”چلیں پھر لگے ہاتھوں میری بھی ہیلپ کر دیں۔“ وہ اس کی منتخب کردہ کتابیں الٹ پلٹ کے دیکھنے لگا جو Accountes اور Finance کے متعلق تھیں۔
”why not“ وہ ہلکے سے مسکرائی۔
”لیکن آپ کو Help چاہیے کس سلسلے میں؟“
”فی الحال تو کچھ بکس خریدنا ہیں باقی بعد میں بتاؤں گا۔“ اسے نگاہوں میں رکھ کے وہ خوبصورت انداز میں گویا ہوا۔
”ایکچوئلی ندا آپی کا برتھ ڈے قریب ہی ہے مجھ سے وہ ہر دفعہ اچھی سی بکس کی ہی امید لگائے رکھتی ہیں۔
اسی سلسلے میں آج ادھر آ نکلا۔ قسمت اچھی تھی کہ آپ مل گئیں ورنہ اکیلا ہی کھپتا رہتا۔“
”ارے واہ…! ندا بھابھی کا برتھ ڈے اور مجھے تو علم ہی نہیں۔ تھینکس گاڈ پتہ چل گیا ورنہ سب کے سامنے کتنی سبکی ہوئی۔“ ایکسائٹڈ ہونے کے ساتھ اس نے ایک جھرجھری بھی لی۔
”تو پھر کون سی کتاب لی جائے جو ان کیلئے مناسب ہو مزاج کے مطابق ہو۔“ وہ اب بک شاپ کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئے۔
جہاں مختلف ریکس میں ہر موضوع کے متعلق ہر قسم کی بکس دستیاب تھیں۔
”اب تو کوئی امور خانہ داری متعلق کتابیں ہی ان کیلئے best رہیں گی۔“ وہ شرارت سے بولی تو عمیر ہنس دیا۔
”پھر تو وہ مزنہ کے زیادہ کام آئیں گی۔“ وہ بھی موڈ میں تھا۔
”اچھی بات ہے ناں ایک تیر میں دو شکار۔“
”یہ کیسی رہے گی؟“ وہ احمد فراز کی درد آشوب نکال کے اسے دکھانے لگا۔
”توبہ کریں شادی کے بعد تو یہ درد و الم کی ڈائریاں تو انہیں گفٹ نہ کریں۔ ویسے بھی وہ نبیل بھائی کے ساتھ بہت خوش ہیں۔“ اس کے ہاتھ سے کتاب لے کر اس نے واپس اس جگہ رکھ دی۔
”پھر تو اس سے بہتر کوئی کتاب ہو ہی نہیں سکتی۔“ بظاہر چہرے کے تاثرات کو وہ سنجیدہ رکھتے ہوئے ڈاکٹر یونس بٹ کی شادیات نکالتے ہوئے بولا میرب کا اپنائیت بھرا انداز اسے شرارت پر اکسا رہا تھا۔
”توبہ ہے آپ تو…“ وہ اس دفعہ اپنی ہنسی روک نہ پائی۔
”بالآخر مستنصر حسین تارڑ کے چند سفر ناموں پر ان کا اتفاق ہوا تھا۔
”آیئے میں آپ کو ڈراپ کر دوں۔“ بک شاپ سے باہر نکل کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے عمیر حسن نے اسے پیشکش کی تھی۔
”تھینکس یو آپ کو کافی لمبا چکڑ پڑے گا میں ٹیکسی سے چلی جاؤں گی۔“ وہ متامل ہوئی۔
”ڈونٹ بی قارمل میرب! میں نے کوئی آپ کو کندھوں پر سوار کرکے نہیں لے جانا جو لمبا چکر کاٹنے سے تھک جاؤں گا۔“ شاپرز اسے تھما کر وہ گاڑی کا لاک کھولتے ہوئے بولا۔
”پھر بھی وقت تو لگے گا نا۔“ وہ ابھی بھی متامل تھی۔
”تو کیا ہوا وقت بہرحال آپ سے قیمتی نہیں ہے۔“ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔ پھر دونوں شاپرز اس کے ہاتھ سے لے کر بیک ڈور کھول کر اندر رکھے میرب کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی تھی اس کے انداز پر۔
”بیٹھو۔“ اس نے دور کھولتے ہوئے تحکمانہ لہجے میں کہا تو وہ جز بز ہوئی بیٹھ گئی۔
”اور اسٹڈی کیسی چل رہی ہے۔“ گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے وہ اس سے مخاطب ہوا۔
”ٹھیک۔“ وہ ایک لفظی جواب دے کر اپنے ناخنوں کو دیکھنے لگی۔
”اگر برا لگا ہو تو آئم سوری مجھے اچھا نہیں لگا کہ خود چلا جاؤں اور تم یوں ٹیکسی میں سفر کرتی پھرو۔
“ وہ اس پر نگاہ ڈال کر بڑے نرم انداز میں بولا تھا۔
”یہ ایسی بات تونہیں کہ اسے انا کا مسئلہ بنا لیا جائے۔ اگر آپ نہ آتے تو مجھے ٹیکسی سے ہی جانا تھا۔“ وہ یونہی دھیرے لہجے میں گویا ہوئی۔
”بات انا کی نہیں بات دل کی ہے اور میرے دل نے یہ گوارا نہیں کیا کہ تم اکیلی جاؤ۔“ اس سے بحث کرنے میں شاید اسے مزہ آیا تھا۔
”تو پھر یوں کریں کہ جتنی بھی Female ٹیکسی میں سفر کر رہیں سب کو اٹھا کر اپنی گاڑی میں لاد لیں۔
“ وہ جھلا کر بولی تو گاڑی عمیر حسن کے قہقہے سے گونج اٹھی۔
”پھر تو مجھے کار کی بجائے ٹرک خرید لینا چاہئے۔“ وہ کچھ اس انداز سے بولا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میرب کی ہنسی نکل گئی۔
”ٹرک بھی برا نہیں ہے۔“ وہ ہنسی روکتے ہوئے بولی۔
”چلئے جی یہ فرمائش بھی سر آنکھوں پر بشرطیکہ فرنٹ سیٹ پر تم بیٹھو۔“ اس نے لہجے میں شرارت کا عنصر نمایاں تھا۔
”میرا دماغ خراب نہیں ہے۔“ اس نے صاف ہری جھنڈی دکھائی۔
”خوش قسمت ہیں ورنہ ادھر تو دماغ کے ساتھ ساتھ خانہ خراب دل بھی جواب دے گیا ہے دل بھی اپنا نہیں ہے۔“ اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔
”میرا خیال ہے اے سی کی کولنگ ہی کافی ہے۔“ میرب کا اشارہ اس کی ٹھنڈی آہوں کی طرف تھا۔ وہ سمجھ کے مسکرا دیا۔
”ویسے سنگ دل اور پتھر دل لوگوں کے بارے میں صرف سنا تھا آج دیکھ بھی لیا۔
“ ایک مسکراتی ہوئی نگاہ اس پر ڈال کر وہ گویا ہوا۔
”کیا آ… آ۔“ وہ احتجاجاً چلائی۔
”ایک انسان دن رات ان دیکھی آگ میں جلے اور اگلے بندے تک اس کی آنچ بھی نہ پہنچے یہ سنگدلی نہیں تو پھر اور کیا ہے؟“ وہ پورا کا پورا اس کی طرف متوجہ تھا۔ اے سی کی کولنگ کے باوجود میرب کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔
”گھر آ گیا…“ اسی وقت گاڑی کے بریک لگے۔
وہ اتنی گھبرائی ہوئی تھی کہ وہ فوراً ڈور کھول کر باہر نکل گئی۔ برق رفتاری سے گاڑی کا بیک ڈور کھولا ایک شاپر باہر کھینچا اور یہ جا وہ جا۔
”اپنی گھبراہٹ میں وہ نہ تو اسے تھینکس کہہ سکی اور نہ ہی اندر آنے کی دعوت دی فوراً گیٹ کھولا اور عڑاپ سے اندر عمیر مسکرا دیا۔ بڑے جذب کے عالم میں گنگناتے ہوئے وہ گاڑی بیک کرنے لگا۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum