Episode 14 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 14 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

”ہاں آپ کی بزدلی ،آئی ڈونٹ نو آپ کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ،لیکن اس دنیا میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جنہیں آپ سے بھی بڑے غم ملے ہوں ،جنہیں زندگی نے آپ سے بھی بڑا دھوکہ دیا ہوگا لیکن وہ یوں آپ کی طرح ہار کر بیٹھ نہیں جاتے ،بلکہ آزمائش کی بھٹی میں کندن بن کر اسی سے داد وصول کرتے ہیں اور ایسا کام بزدل نہیں بہادر لوگ ہی کیا کرتے ہیں۔“ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ دونوں اس موضوع پہ آ گئے جسے زیر بحث لانے کا دونوں کا ارادہ و خیال نہیں تھا۔

”جب پاؤں کے نیچے زمین اور سر کے اوپر آسمان نہ ہو ناں تو انسان ہمت ہار ہی جاتا ہے۔“ اس کی آنکھوں میں بے بسی ہلکورے لے رہی تھی۔
”یہی تو آزمائش کا وقت ہوتا ہے اگر آپ پہلے قدم پہ ہی ڈھے جائیں گے تو باقی کا سفر کیسے طے کریں گے۔

(جاری ہے)

“ وہ بڑی خوبصورتی سے اسے سمجھا رہا تھا۔

”آپ ٹھیک کہتے ہیں شاید ،میں واقعی بزدل ہوں۔“ وہ ہار مان کے بولی تھی ،رواحہ اس کے معصومیت بھرے انداز پہ بے ساختہ مسکرا اٹھا ،اس سمے اسے ٹوٹ کر پیار آیا تھا اس پر۔
”چلیں شکر ہے آپ نے کچھ تو تسلیم کیا۔“ مسکراہٹ لبوں میں دباتے ہوئے وہ ماحول پر چھائی سنجیدگی کو یکدم ختم کر چکا تھا۔
”ویسے آپ ایک بات تو بتائیں ،یہ ہر بات میں آپ ضد کیوں کرتی ہیں۔“ بظاہر تو اس نے اپنا لہجہ بہت سنجیدہ بنایا ہوا تھا لیکن آنکھوں سے واضح شرارت ٹپک رہی تھی۔
”کیا مطلب؟“ اس نے متعجب ہو کر دریافت کیا ،وہ واقعی اس کی بات نہیں سمجھی تھی۔
”بھئی سیدھا سا مطلب ہے ،پہلے یہاں آنے پہ ضد ،پھر شاپنگ پر ضد ،پھر ڈریسز پر ضد اور یہ بات بھی میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اتنا تیار ہونے پر بھی آپ نے خوب ضد کی ہو گی۔“ اس کے لہجے میں واقعی یقین بول رہا تھا۔
اس کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ وہ بے ساختہ دھیمے سروں میں مسکرا اٹھی اور رواحہ کے دل نے بھی بے اختیار کئی بیٹس ایک ساتھ مس کی تھیں۔
”مسکراتی رہا کریں ،مسکراہٹ زندگی کی علامت ہوا کرتی ہے اور زندگی تو زندہ دلی کا نام ہے وہ کیا کہا ہے کسی شاعر نے کہہ۔“
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
”جی ضرور۔“ اس نے آہستگی سے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
اس نے محسوس کیا واقعی اسے خود پر چھائی کثافت چھٹتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
”ڈیٹس گڈ۔
“ وہ سراہے بغیر نہ رہ سکا۔
”ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ نور بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی۔“ اس نے سرسری سا لہجہ اپناتے ہوئے کہا تھا۔
”کیا؟“ علیشا نے بڑی دلچسپی سے پوچھا تھا۔
”یہی کہ یہ ڈریس آپ پہ بہت سوٹ کرے گا واقعی آج آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں۔“ دل میں مچلتی بات کو بالآخر وہ زبان تک لے ہی آیا تھا ،علیشا شرم سے گڑبڑا کر نگاہیں جھکا گئی تھی۔
”یہ نور پتہ نہیں کہاں نکل گئی ہے۔“ اس کی مسلسل نظروں سے گھبرا کر وہ جزبز ہو کے ادھر ادھر نگاہیں دوڑا کے نور کو کھوجنے لگی تھی ،رواحہ کے لبوں پہ بڑی محفوظ سی مسکان نمودار ہوئی تھی۔
وہ جو نور کی تلاش میں نگاہیں دوڑا رہی تھی ،یکدم اس کی نظر سامنے سے آتے ایک جوڑے پہ پڑی تھی اور پل بھر میں ہی اس کا چہرہ فق ہو گیا ،پوری شدت سے اس کا جی چاہا تھا کہ ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر وہ یہاں سے بھاگ جائے مقابل کی نظروں سے غائب ہو جائے لیکن لاکھ کوشش اور چاہنے کے باوجود بھی وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہل سکی تھی۔
اسی اثناء میں مقابل کی نظر بھی اس پہ پڑ چکی تھی ،اس کی آنکھوں میں پہلے استعجاب اور پھر تمسخر کا رنگ اترا تھا ،وہ بے ساختہ اس کی طرف بڑھا ،ساتھ کھڑی لڑکی نے اس کا بازو کھینچ کر اس کی توجہ کسی جانب مبذول کرنا چاہی تھی ،لیکن اس کے مسلسل آگے بڑھنے پر وہ بھی اس کی نگاہوں کے تعاقب میں اسے دیکھ چکی تھی۔
”اوہ۔“ اس نے بڑے طنزیہ انداز میں ہونٹوں کو سکیڑا تھا۔
”علیشا! کیا ہوا؟ آر یو اوکے؟“ رواحہ اس کی پل پل متغیر ہوتی رنگت کو دیکھ کر ایکدم پریشان ہو اٹھا۔
اس نے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیر کر کچھ کہنے کی کوشش میں بولنا چاہا تھا ،لیکن لگ رہا تھا کہ زبان تالو سے جا چمٹی ہے اور حلق میں لاکھوں ببول کے کانٹے اگ آئے ہوں۔
”اوہ… تو تم یہاں ہو۔“ تب تک وہ اس کی ٹیبل کے پاس پہنچ چکا تھا۔
رواحہ نے عقب سے آتی آواز پہ چونک کر پیچھے دیکھا تو سامنے ایک خوشکل نوجوان کھڑا تھا ،جس کی نگاہیں علیشا پر جمی تھیں ،اس کے بازو میں بازو ڈالے ساتھ ایک لڑکی بھی چپکی کھڑی تھی ،جو انتہائی ماڈرن اور بے باک ڈریس پہنے ہوئے تھے۔
”میں بھی کہوں علیشا بی بی کدھر غائب ہو گئی ہیں ،اب پتہ چلا تم تو یہاں چھپی بیٹھی ہو۔“ اس کا لہجہ انتہائی تمسخر اڑاتا ہوا تھا۔
”ایسی لڑکیوں کا کیا بھروسہ ،جہاں چاہا منہ مار لیا۔“ ساتھ کھڑی لڑکی نگاہوں میں حقارت و تذلیل لئے ناک سکوڑ کر طنز سے بولی تھی۔
”ایکسکیوزمی ،کنٹرول یور لینگویج۔“ رواحہ کی قوت برداشت جواب دے گئی ،وہ زور سے کرسی پیچھے دھکیل کے کھڑا ہوا تھا۔
وہ دونوں شاید اس کی موجودگی سے بے خبر تھے یا اس پر دھیان نہیں دے پائے تھے ،چونک کر اسے دیکھنے لگے۔
”اوہ تو آپ ہیں اس کے ساتھ۔“ لڑکی نے سرے سے پاؤں تک اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا۔
”جی!“ وہ غصہ دباتے ہوئے دانت پیس کر بولا تھا۔
”اس دفعہ تو لگتا ہے اونچا ہی ہاتھ مارا ہے علیشا بی بی نے۔“ رواحہ کی پرسنالٹی سے متاثر ہونے کے باوجود وہ طنز کرنا نہیں بھولی تھی۔
”میں آپ سے پہلے بھی کہ چکا ہوں کنٹرول یور لینگویج ،میں صرف فی میل ہونے کی وجہ سے آپ کا احترام کر رہا ہوں ،لیکن آئی تھنک آپ کو عزت راس نہیں ہے۔
“ اس نے بات ہی ایسی کی تھی کہ اس کا شعلوں میں گھرنا لازمی تھا۔
”دیکھ رہے ہو تم ،کیسی بھری محفل میں یہ میری انسلٹ کر رہا ہے۔“ احساس توہین سے اس کا چہرہ تمتما اٹھا تھا ،وہ غصے سے اپنا بازو اس سے چھڑواتے ہوئے اسی پر چڑھ دوڑی۔
”چھوڑو میری جان ،اس عورت کا جادو ہی ایسا ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے ،میں بھی ایسے ہی ساری زندگی اس کیلئے پاگل ہوتا رہا ،لیکن اس عورت کے پاس سوائے حسن کے اور کچھ نہیں حتیٰ کہ کردار بھی نہیں کیونکہ…“ اس کی باقی بات منہ کے اندر ہی رہ گئی تھی۔
”کیونکہ رواحہ نے پوری قوت سے اس کے جبڑے پہ گھونسہ مارا تھا ،وہ اس اچانک حملے کیلئے تیار نہیں تھا ،الٹ کر پیچھے گرا ،پیچھے ٹیبل پر پڑا تھا ،جس سے اس کا سر ٹکرایا خون کی پتلی سی لکیر اس کی ناک سے نکل کر بہنے لگی تھی ،سر میں بھی کافی چوٹ آئی تھی۔
لیکن رواحہ نے اسی پہ اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ اپنے بھاری بوٹوں سے اس کی اچھی خاصی دھلائی کر ڈالی تھی ،اس کے ساتھ کھڑی لڑکی نے چیخ چیخ کر لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا تھا۔
نور کے کانوں میں بھی شور شرابے کی آواز پڑی تھی ،وہ بھی سب کے ساتھ بھاگم بھاگ جائے وقوعہ پہ پہنچی تھی ،لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر اسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا تھا ،وہ فوراً رواحہ کی جانب لپکی تھی ،لیکن اس سے پہلے ہی دوسرے حضرات نے اسے زبردستی پیچھے کھینچ لیا تھا۔
رواحہ کو خود اپنی کیفیت سمجھ نہیں آ رہی تھی ،اس کے سر پہ تو بس خون سوار تھا ،تہمینہ اور قاسم ابھی کچھ دیر قبل ہی پہنچے تھے وہ بھی افتاں و خیزاں یہاں تک پہنچے تھے۔
قاسم صاحب نے بمشکل اسے بٹھا کر پانی کا گلاس پلایا تھا ،وہ خود اس قدر متحیر تھے کہ ہر حالت میں پرسکون رہنے والے رواحہ کو آخر کیا ہو گیا کہ نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔
”ماما… پاپا… علیشا کو دیکھیں۔“ نور کی چیخ نما آواز پہ تہمینہ نے بے ساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھا تھا اور فوراً نور کے پیچھے لپکی تھیں ،علیشا چیئر سے نیچے گری بے ہوش پڑی تھی ،شادی کا اچھا خاصا بارونق فنکشن یکدم بدمزگی کا شکار ہو گیا تھا ،قاسم صاحب نے فوراً گاڑی نکالی تھی اور علیشا کو لے کر ہسپتال پہنچ گئے تھے۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum