Episode 20 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 20 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

اور پھر اس دن کے بعد سے وہ سرتاپا بدل گئی تھی ،اس نے اپنے دکھ درد کو اندر ہی کہیں سینے میں دفن کر لیا تھا ،شیراز بھائی سے کوئی شکایت ،کوئی فرمائش کرنا ،رابعہ بھابھی کو پلٹ کے جواب دینا ،عاتکہ کی آمد پر ناک بھوں چڑھانا ،وہ ہر چیز بھول گئی تھی یا تو زیادہ تر اپنی پڑھائی میں مصروف رہتی یا ماما اور ہادی سے بات چیت کر لیتی بس ،اس کے علاوہ اس کی زندگی میں کوئی تیسرا کام نہیں تھا ،ماما اس کی حالت دیکھ دیکھ کر کڑھتی رہتی۔

علیشا کا بی سی ایس اور ہادی کا ایم بی اے کمپلیٹ ہوا تو شیراز بھائی نے مزید ان کا پڑھائی کا خرچ اٹھانے سے انکار کر دیا ،ان کا کہنا تھا کہ۔
”میں نے یہاں تک تم دونوں کو پڑھا کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے ،اب آگے ہادی کی ذمہ داری ہے کل کو میرا اپنا بچہ بھی آنے والا ہے ،مجھے اب اپنی اولاد کی فکر کرنی ہے۔

(جاری ہے)

رابعہ بھابھی آج کل امید سے تھیں اسی لئے اس کے نخرے آسمان کو چھو رہے تھے۔
ندرت جو ابھی تک علیشا کے غم کو لے کر بیٹھی ہوئی تھیں ،اس نئی افتادہ پر وہ بے پناہ پریشان ہو گئی تھیں‘ شیراز کے انداز سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ علیشا کی شادی کے معاملے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اور ہادی کو تو بزنس میں انوالو ہونے سے اس نے صاف لفظوں میں منع کر دیا تھا ،یہ کہہ کر کہ۔
”یہ میری ذاتی کمائی اور محنت ہے اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں۔
”آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں ماما! میں ہوں ناں ابھی ،آپ بس ہمارے لئے دعا کریں۔“ ہادی فقط انہیں تسلیاں ہی نہیں دیتا تھا بلکہ آج کل وہ خوب تگ و دو کر رہا تھا اور بالآخر ایک دن اس کی جہد مسلسل رنگ لے ہی آئی تھی۔
اسے یو کے سے ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے اپائٹمنٹ لیٹر آیا تھا ،فی الحال ٹرائل بیسز پہ معاہدہ ہوا تھا لیکن اچھی پراگریس کی صورت میں مستقل جاب کے امکان روشن تھے اور وہ پیکیج بھی بہت اچھا دے رہے تھے ،ہادی بہت خوش تھا۔
ماما اور علیشا خوش ہونے کے ساتھ ساتھ اداس بھی تھیں ،ہادی کی وجہ سے دونوں خواتین کو بہت ڈھارس رہتی تھی ،اس کے جانے کے بعد وہ بہت اکیلی ہو جائیں گی۔
ہادی ان کی کیفیات بھانپ گیا تھا جبھی بہت پیار سے انہیں سمجھایا تھا۔
”یہ پریشانی اور اداسی صرف وقتی ہے میں ساری زندگی آپ دونوں کو یہاں گھٹ گھٹ کر مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتا ،جلد ہی میں آپ کیلئے الگ گھر کا ارینج کر دوں گا۔
“ وہ بالکل سنجیدہ تھا پھر علیشا کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔
”اور تم اپنی پڑھائی اسٹارٹ کرو ،اخراجات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔“
”میں پڑھائی نہیں جاب کروں گی۔“ نگاہیں جھکا کر لب کچلتے ہوئے اس نے اس کی تردید کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا مدعا بھی بیان کر دیا تھا۔
ماما نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا ،اک ٹیس سی اٹھی تھی ان کے دل میں ،کتنی زندہ دل تھی ان کی بیٹی ،حالات کی چکی میں پس کر کیسی مرجھاگئی تھی وہ۔
”ضرور کرنا جاب لیکن پہلے اپنی اسٹڈی کمپلیٹ کرو ،تمہاری کولیفیکشن اتنی ضرور ہو کہ تمہیں کوئی باعزت پوسٹ مل سکے۔“ وہ جانتا تھا سیدھے لفظوں سے وہ کبھی نہیں مانے گی۔
شیراز بھائی کے بدلتے روپ نے اسے ہادی کی طرف سے بھی محتاط کر دیا تھا ،وہ سب سمجھتا تھا لیکن فی الحال وہ اس کے خدشات دور نہیں کر سکتا تھا ،مگر وہ پرامید تھا اسے امید تھی اب روشنی کا سفر شروع ہونے والا تھا وہ دوبارہ جلد ہی ایک ایسا گھر بنانے والا تھا جیسا کہ پہلے تھا۔
علیشا کی شرارتیں ،ماما کی پیار بھری ڈانٹ ،مسکراتے دن ،جگمگاتی راتیں ،ان دونوں کو امید کے دیئے تھما کر وہ چلا گیا تھا ،شیراز بھائی اور رابعہ بھابھی نے کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا ،ان دونوں نے کم از کم اس بات کا خدا کا شکریہ ادا کیا تھا کہ کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔
###
”آہم… اگر میں غلطی پر نہیں تو آپ ہی علیشا ہیں ناں۔
“ گلہ کھنکھارتے ہوئے کسی اجنبی مرد کی پرتجسس آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں مستغرق تھی ہڑبڑا کے اٹھی ،متعجب اور سوالیہ نظروں میں ناگواری کا تاثر خاصا واضح تھا ،جس کا مقابل پر قطعاً اثر نہیں ہوا تھا۔
”آپ کون ہیں مسٹر! اور یہاں کیا کر رہے ہیں؟“ وہ بولی تو لہجے میں تلخی اور کڑواہٹ گھلی ہوئی تھی۔
وہ بھی تو اپنی عمر کا لحاظ کئے بغیر دیدے پھاڑے اسے گھورے جا رہا تھا ،گویا نظروں سے ہی سالم نگل جائے گا اور مسکراہٹ تو باچھوں تک چری جا رہی تھی ،ایسے میں اس کا تلخ ہونا کوئی غیر فطری نہیں تھا ،مستزاد یہ کہ وہ تھا بھی انجان۔
”ناچیز کو نصیر میمن کہتے ہیں اور رہا یہ سوال کہ یہاں کیا کر رہا ہوں تو آپ کے دیدار کے شوق میں حاضری ہوئی ہے۔“ وہ یونہی پرشوق نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
”کیا… آ… آ…“ وہ اچھل ہی تو پڑی۔
”شرم آنی چاہئے آپ کو ،اپنی عمر دیکھیں اور حرکتیں دیکھیں۔“ غصے سے اس کی حالت بری ہو گئی ،جبھی آواز ضرورت سے زیادہ بلند ہو گئی تھی۔
”کیا ہوا؟ کیوں چلا رہی ہو؟“ رابعہ اس کی آواز سن کے اپنے بے ڈول ہوتے وجود کے ساتھ بمشکل لاؤنج تک آئی تھی۔
”ارے بھائی جان! آپ… کب آئے آپ۔“ نصیر میمن کو دیکھ کر وہ خوشی سے چلا اٹھی۔
”یہ کارٹون اسی کے خاندان کا ہو سکتا ہے۔“ وہ بددلی سے اٹھ کر اندر چلی گئی۔
”کیسی لگی؟“ رابعہ نے بڑے غور سے اس کا انہماک دیکھا تھا جس کی نظروں نے آخری سرے تک علیشا کا پیچھا کیا تھا اور علیشا کے کمرے میں غائب ہو جانے کے بعد بھی اس کی آنکھوں میں اس کا عکس نظر آ رہا تھا ،لیکن پھر بھی اپنی اہمیت جتانے کیلئے اس نے یہ سوال کیا تھا۔
”کیا بتاؤں رابعہ! چالیس سالوں میں ایسا سوگوار حسن پہلی دفعہ دیکھا ہے ،بس اب تم جلدی سے اگلے معاملات طے کرو اور مجھے بتاؤ کہ کب سر پہ سہرا سجا کے اس پری وش کو لینے آؤں۔“ اس کے لہجے میں نو عمر لڑکوں کی بے تابی چھلک رہی تھی۔
”ارے… ارے بھائی جان! چھری تلے دم تو لیں ،آپ تو ایک ہی چھلانگ میں عشق کے سارے دریا پھلانگ لینا چاہتے ہیں۔
“ رابعہ کی مکار آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔
نصیر میمن اس کا تایاز زاد بھائی تھا ،کروڑوں کی جائیداد اور بزنس کا مالک ،دو شادیاں بھگتا چکا تھا اور تیسری کی تلاش میں تھا۔
رابعہ اس کی فطرت سے خوب واقف تھی ،علیشا کے ذریعے اس نے ایک تیر سے دو شکار کئے تھے ،ایک تو شارق کو عاتکہ کے ساتھ ایڈجسٹ کیا تھا ،دوسرا نصیر میمن کی شادی علیشا سے کروا کر اس نے نصیر میمن سے لاکھوں بٹورنے تھے ،وہ ایسا ہی شاہ خرچ تھا ،جو چیز پسند آ جاتی اسے حاصل کرنے کیلئے وہ بے دریغ پیسہ بہا دیتا تھا۔
اور یہاں تو معاملہ پھر کسی چیز کا نہیں بلکہ ایک عدد حسینہ کا تھا ،جو کہ اس کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔
”تم نے چیز ہی ایسی دکھائی ہے رابعہ کہ کسی حالت میں صبر ہو ہی نہیں سکتا۔“ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے ہوس ٹپک رہی تھی۔
”بس آپ پھر تیاری کریں میں آج ہی شیراز سے بات کرتی ہوں اور ہاں تگڑا سا نیگ لوں گی آپ سے جڑاؤ کنگن اور نقدی اس کے علاوہ۔
“ اس نے یقین دلانے کے ساتھ ہی اٹھلائے ہوئے اپنی فرمائش بھی بیان کر دی تھی۔
”ارے… اس کی تو تم فکر ہی نہ کرو تم بس میری شادی کروا دو ،تمہیں منہ مانگا انعام دوں گا۔“ وہ شاید کچھ زیادہ ہی بے قرار ہو رہا تھا۔
رابعہ کا دل بلیوں اچھلنے لگا ،نصیر میمن کو مزید خوشنما خواب دکھا کر اسے رخصت کرنے کے بعد وہ شیراز سے بات کرنے کا پلان ترتیب دینے لگی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum