Episode 13 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 13 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

ماشاء اللہ! آج تو مجھے اپنی بیٹی کی نظر اتار لینی چاہئے۔“ وہ نور کے ہمراہ تیار ہو کے نیچے اتری تو تہمینہ آنٹی نے بے ساختہ اس کی پیشانی چوم کر کہا تھا۔
اسے اچھی خاصی شرم محسوس ہوئی تھی ،نور نے اس کے لاکھ نہ نہ کرنے کے باوجود نہ صرف اسے اتنا ہیوی ڈریس پہنایا تھا بلکہ میچنگ جیولری کے ساتھ میک اپ بھی کر دیا تھا۔
آج کچھ اس کا اپنا موڈ بھی خوشگوار تھا کیونکہ آج صبح ہی ماما اور ہادی دونوں کے ساتھ بات ہوئی تھی ،ہادی کی جاب فائنل ہو گئی تھی اور اچھی سیلری کے ساتھ رہائش اور کھانے کا بندوبست بھی ہو گیا تھا اور اس نے علیشا سے کہا تھا۔
”اللہ نے بہت مہربانی کی ہے علیشا! اب ہماری آزمائش کے دن ختم ہو گئے ہیں ،میں جلد ہی تمہاری اور ماما کی الگ رہائش کا ارینج کر دوں گا ،جہاں تمہاری اپنی مرضی کی لائف ہو گی۔

(جاری ہے)

“ ہادی کا لہجہ دلی خوشی اور اطمینان کا غماز تھا۔

اور علیشا کو بھی یوں لگا تھا کہ آج اس نے بہت صدیوں بعد کوئی خوشی کی خبر سنی ہو ،ایک بوجھ تھا جو اسے اپنے وجود سے سرکتا ہوا محسوس ہوا تھا اور بہت عرصے بعد اس نے کسی حد تک خود کو ہلکا پھلکا محسوس کیا تھا۔
نور اس کے اندر مثبت تبدیلی دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی اور اسی خوشی میں اس نے دھونس بھرے انداز میں اسے تیار کر ڈالا تھا۔
”ماما! یہ سارا کریڈٹ آپ کی دختر نیک اختر نور النساء کو جاتا ہے۔“ نور نے فخریہ انداز میں گردن اکڑاتے ہوئے کہا تھا۔
”بالکل بھئی اس میں تو کوئی شک نہیں ہے۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے تائید کی تھی۔
”چلیں ماما! دیر کس بات کی ہے۔
“ نور نے وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”ہاں بیٹا! رواحہ آتا ہی ہوگا تم دونوں اس کے ساتھ چلی جاؤ ،تمہارے پاپا ذرا لیٹ آئیں گے ،ہم پھر بعد میں آ جائیں گے۔“ انہوں نے آگاہ کیا۔
”اور یہ رواحہ صاحب کب تک تشریف لائیں گے۔“ اس نے آنکھیں سیکڑتے ہوئے ایک مرتبہ پھر وال کلاک کی جانب دیکھا۔
”یہ لو… وہ آ ہی گیا۔“ تہمینہ آنٹی نے داخلی دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں سے وہ اندر داخل ہو رہا تھا۔
”شیطان کا نام لیا شیطان حاضر۔“ وہ علیشا کی طرف متوجہ ہو کے بولی ،اس کے انداز پہ علیشا زیر لب مسکرائی تھی۔
دائیں ہاتھ میں بریف کیس اور بائیں بازو پہ کوٹ ڈالے اندر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اس نے جونہی نگاہیں اوپر اٹھائیں ،ٹھٹک کر وہیں مبہوت ہو گیا۔
ٹی پنک اور کاپر امتزاج کا وہ ڈریس واقعی اس پہ بہت جچ رہا تھا ،میچنگ جھمکے سے لٹکتے موتی اس کے گردن کو خم دینے پر بار بار اس کے صبیح رخسار کو چھو رہے تھے ،لبوں پہ مدھم مسکان لئے وہ واقعی نظر لگ جانے کی حد تک حسین دکھائی دے رہی تھی اور رواحہ کو یوں لگ رہا تھا گویا کائنات کی گردش بھی اس کے دل کی دھڑکن کے ساتھ ہی چند ثانیے کیلئے تھم گئی ہو۔
”رواحہ! چلو بیٹا جلدی کر لو بارات پہنچنے والی ہو گی۔“ تہمینہ کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں کھینچ لائی تھی۔
”جی بڑی ماما!“ وہ اپنی بے خودی پر خجل سا ہو گیا۔
”میرا خیال ہے کہ یہ میری زندگی کا پہلا واقعہ ہے جب لڑکیاں تیار کھڑی ہیں اور مرد حضرات ابھی ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے ہیں۔“ نور ناک چڑھا کے کہتے ہوئے سامنے صوفے پہ جا کے بیٹھ گئی تھی۔
لیکن اس کی حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب رواحہ اسے منہ توڑ جواب دینے کی بجائے چپ چاپ سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔
”ہائیں… یہ رواحہ کو کیا ہوا؟“ وہ متعجب ہو کر سوچنے لگی اور پھر ہی راستے میں بھی وہ اسے کھویا کھویا سا گیا تھا۔
”تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے رواحہ!“ وہ تشویش زدہ لہجے میں استفسار کر رہی تھی۔
”آں… ہاں… ٹھیک ہوں… کیا ہوا ہے مجھے۔
“ وہ چونکا اور الٹا اسی سے پوچھنے لگا۔
”مجھے تو تمہارا دماغ بالکل سیٹ نہیں لگ رہا بلکہ مجھے تو ڈر ہے تم گاڑی کہیں کسی ٹرک سے نہ مار بیٹھو۔“ اس نے متوقع خدشے کا اظہار کیا اور ساتھ ہی خوف سے جھر جھری بھی لے لی۔
”فکر نہ کرو اب ایسا بھی غائب دماغ نہیں ہوں۔“ وہ اس کے انداز پہ مسکرایا۔
علیشا پچھلی سیٹ پہ بیٹھی خاموشی سے دونوں کی باتیں سن رہی تھیں ،نجانے کیوں آج اسے رواحہ کا انداز کچھ بدلا بدلا محسوس ہو رہا تھا ،پتہ نہیں وہ پہلے سے ہی ایسا تھا یہ آج وہ ہی اپنے خول سے باہر نکلی تھی تو اپنے علاوہ کسی اور کی ذات کا نوٹس لیا تھا۔
لیکن اسے شک سا گزرا تھا رواحہ کی آنکھوں میں بھی وہی رنگ اترے تھے جو کبھی شارق کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر اترا کرتے تھے ،جسے وہ اپنا وہم سمجھ کر بار بار جھٹلانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اپنی سوچوں میں غلطاں سفر کب تمام ہوا اور وہ مطلوبہ منزل پہ پہنچ گئے اسے خبر تک نہ ہوئی ،نور کی غالباً کوئی اپنی جاننے والی نظر آ گئی تھی جو وہ گاڑی سے اترتے ہی اس کی طرف لپک گئی تھی ،اسے لامحالہ رواحہ کا انتظار کرنا پڑا ،جو گاڑی پارک کرکے اسے لاک کر رہا تھا۔
وہ چونکہ یہاں نووارد تھی کسی سے جان پہچان بھی نہیں تھی ،منہ اٹھا کر اکیلی تو اندر جا نہیں سکتی تھی اسی لئے اس کے انتظار میں رک گئی۔
”چلیں۔“ وہ گاڑی پارک کرکے سیدھا اس کی طرف آیا تھا۔
”جی!“ وہ اس کے ساتھ چل پڑی ،اس کے ہمراہ قدم ملا کے چلنا رواحہ کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔
ریسپشن پہ ان کی ملاقات ایک سو برسی خاتون سے ہوئی تھی جنہوں نے ان دونوں کو دیکھ کر چہرے پہ نہایت خیر مقدمی مسکراہٹ سجا لی تھی۔
”کیسے ہو رواحہ! اور یہ اتنی پیاری سویٹی کون ہے کہیں چپ چاپ شادی تو نہیں کروا لی۔“ علیشا کو گلے لگاتے ہوئے انہوں نے ہنستے ہوئے رواحہ کو چھیڑا تھا۔
”فکر نہ کریں آنٹی! ولیمہ دھوم دھام سے کروں گا۔“ اس نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا۔
”ناٹی بوائے ابھی تو کل مجھے ندرت بتا رہی تھی کہ رواحہ شادی کیلئے نہیں مان رہا ورنہ میں تو آج ہی اس کی شادی کر دوں۔
“ وہ کافی سے زیادہ باتونی لگ رہی تھی۔
شکر تھا کہ اتنی دیر میں اور لوگ آ گئے تو وہ ان سے ملنے لگ گئیں ،اندر تو رنگ و بو کا ایک سیلاب امڈا آ رہا تھا ،ہر طرف رنگین آنچل لہرا رہے تھے ،قہقہے بلند ہو رہے تھے ،کہیں سے دھیمی ہنسی کی آوازیں ابھر رہی تھیں تو کہیں چوڑیوں کی کھنک سنائی دے رہی تھی ،اس نے متلاشی نظروں سے نور کو تلاشنا چاہا ،اس کو یہاں لاکر وہ خود پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئی تھی۔
”آپ اگر نور کو تلاش کر رہی ہیں تو ایسا کرنا بے کار ہے وہ اب اتنی جلدی ملنے والی نہیں ہے۔“ رواحہ اس کی متلاشی نظروں کا مقصد جان گیا تھا ،اسی لئے آگاہ کرنا ضروری سمجھا ،اس کی بات سن کر اس کا موڈ آف ہو گیا تھا۔
”اس بدتمیز کو تو میں گھر جا کر پوچھوں گی میں یہاں لوگوں کو دیکھنے اور دیواروں سے باتیں کرنے تو نہیں آئی ،محترمہ گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہیں۔
“ اس نے دل ہی دل میں نور کو ڈپٹ کے اپنا غصہ کم کرنا چاہا۔
”بٹ آپ پریشان مت ہوں ،میں آپ کو کمپنی دوں گی ،آیئے وہاں چل کر بیٹھتے ہیں۔“ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے وہ اس کی اندرونی کیفیت کا اندازہ لگا سکتا تھا ،اسی لئے بڑی اپنائیت سے کہتے ہوئے اس نے سامنے رکھی چیئرز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”تھینک یو۔“ وہ جب اس سے اتنے اخلاق سے پیش آ رہا تھا تو اتنی مروت نبھانا بھی اس کا بھی حق بنتا تھا ،اس نے رش سے قدرے الگ چیئرز اور ٹیبل کا انتخاب کیا تھا۔
”آئی تھنک کافی عرصے بعد آپ کسی فنکشن کو اٹینڈ کر رہی ہیں۔“ اس کے سامنے چیئر سنبھالتے ہوئے اس نے گفتگو کا آغاز کیا تھا۔
”ہاں واقعی بہت عرصے بعد۔“ وہ دل میں حساب لگاتے ہوئے بولی۔
دھیان ایک دفعہ پھر پیچھے کی طرف گیا تھا لیکن رواحہ کی آواز نے اسے خیالات کی دنیا میں پہنچنے نہیں دیا تھا۔
”مصروفیت اور حالات اپنی جگہ لیکن کبھی کبھار ماحول بدل لینے سے کوئی حرج نہیں ہوتا بلکہ صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
“ وہ شاید اس کی اور نور کی بحث سن چکا تھا جو یہاں آنے کے متعلق ہو رہی تھی اسی لئے اپنے خیال کا اظہار کر رہا تھا۔
”شاید آپ کی بات ٹھیک ہی ہو۔“ وہ مبہم سے انداز میں بولی۔
”شاید نہیں یقینا۔“ وہ نہایت وثوق سے بولا تھا۔
”مجھے دیکھئے میری لائف کتنی بزی ہے لیکن پھر بھی میں فنکشن وغیرہ ضرور اٹینڈ کرتا ہوں۔“ وہ ہلکی پھلکی باتوں سے اسے ترغیب دلا رہا تھا۔
”بس میری دلچسپی نہیں رہی۔“ وہ یاسیت سے بولی ،آنکھوں میں نمی سی اتر آئی تھی۔
”تو دلچسپی پیدا کریں ناں ،نور کو دیکھئے تقریباً آپ کی ہم عمر ہے بلکہ دو تین سال بڑی ہو گی لیکن ابھی تک بچوں جیسی حرکتیں کرتی ہے اور آپ نے اتنی سی عمر میں خود پر بڑھاپے کو طاری کر لیا ہے دس از ناٹ فیئر علیشا! زندگی کو ایسے نہیں جیا جاتا۔“ آخری جملہ وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا تھا ،علیشا نگاہیں چرا گئی۔
”پتہ نہیں لیکن اب تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے زندگی مجھے گزار رہی ہے۔“ وہ نگاہیں جھکائے مدھم لہجے میں گویا ہوئی۔
”آپ کو پتہ ہے آپ کی سب سے بڑی غلطی کیا ہے؟“ وہ ہنوز نگاہیں اس پہ مرکوز کئے ہوئے تھا ،جس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کسی گہرے زخم کی عکاسی کر رہے تھے۔
”کیا؟“ سوالیہ نگاہیں بے ساختہ اس کی طرف اٹھی تھیں۔
”آپ کی بزدلی۔“ وہ یقین سے بھرپور انداز میں بولا تھا۔
”میری بزدلی۔“ اس کی آنکھوں میں حیرت و استعجاب کا دریا امڈ آیا تھا جس کے بہت پیچھے کہیں دکھ کے سائے لہرا رہے تھے۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum