Episode 33 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 33 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

سبھی چاہتیں میرے نام کر
”مر جاؤ اللہ کرکے تم سب۔“ اس کی برداشت کی انتہا بالآخر ختم ہو ہی گئی وہ تن فن کرتی باہر نکلی اور ان کے سروں پر پہنچ کے غرائی۔
”اگر ہم سب مر گئے تو تم بھلا کیا کرو گی؟“ رافع جھٹ سے بولا۔
”چین کی بانسری بجاؤں گی۔“ وہ تپ ہی تو گئی۔
لیکن Basic point یہ ہے ڈیئر میرب! کہ تمہیں تو سادہ بانسری نہیں بجانی آتی تو چین کی بانسری کیسے بجاؤ گی؟ عذیر نے جیسے اہم نکتہ اٹھایا تھا۔
وہ سب کھی کھی کرنے لگے۔
”تمہیں اس فکر میں دبلا ہونے کی ضرورت نہیں تم سے Training لینے بہرحال نہیں آؤں گی۔“ اس نے دانت پیس کر کہا۔
”تم نہ ہی آنا تو بہتر ہے کیونکہ میں اپرے غیرے کو لفٹ نہیں کرواتا۔“ جواباً اس نے بھی رکھائی کے اعلیٰ ریکارڈ توڑ ڈالے تھے۔

(جاری ہے)

”تم…“ میرب نے غصے سے دانت کچکچاتے پھر دائیں بائیں دیکھا۔ بائیں طرف رکھے میز پر پلیٹ میں مونگ پھلی کے چھلکے پڑے تھے غالباً ابھی ابھی وہ سب یہی کھا رہے تھے۔
میرب نے برق رفتاری سے پلیٹ اٹھائی اور آناً فاناً عذیر کے سر پر الٹ دی۔
”میرب کی بچی“ وہ اس جوابی حملے کیلئے تیار نہیں تھا چلا اٹھا۔
”چلانا بند کرو ڈیئر عذیر!! ورنہ آس پڑوس کے لوگ اکٹھے ہو کر آ جائیں گے۔“ اب چڑانے کی باری میرب کی تھی۔ اسی لئے پچکار کے بولی۔
”بھوت دیکھنے کیلئے۔“ رباحہ نے ٹکڑا لگایا۔ تو ان سب کے قہقہے چھت پھاڑنے لگے۔
”ایسا کرتے ہیں عذیر بھائی کو یہیں لاکڈ کرکے باہر ٹکٹ رکھ دیتے ہیں اور جلی حروف میں ”بھوت بنگلہ“ لکھ دیتے ہیں خوب کمائی ہو گی۔“ مزنہ نے کار خیر میں حصہ لیا۔
”اور تمہارے منہ بھی چیری بلوسم مل کر ایک طرف کارنر میں بیٹھا دیں گے تاکہ لگے ہاتھوں ”بھوتنی“ کا بھی درشن کر لیں۔“ رافع نے اس کی سانوالی رنگت پر چوٹ کی جسے ہر معاملے میں گھسیٹنا وہ اپنا فرض عین سمجھتا تھا
”تمہارے گلے میں بھی رسی میں سیٹی ڈال کے لٹکا دیں گے اور ہاتھ میں ڈگڈگی تھما دیں گے تاکہ لوگ بندر کے تماشے سے بھی محروم نہ رہیں فیضیاب ہو کر ہی نکلیں۔
“ وہ کون سا پیچھے رہنے والی تھی۔
”کیا بات ہے کیوں پاگلوں کی طرح ہنسے جا رہے ہو۔“ ندرت اندر داخل ہوئیں تو وہ سب ہی فرمانبرداری کا بلند و بانگ مظاہرہ کرتے فوراً سے پیشتر خاموش ہو گئے۔
”ایں… ارے عذیر! یہ تمہیں کیا ہوا ہے۔“ اس کے بالوں میں کالر پر دامن میں اور اردگرد جابجا مونگ پھلی کے چھلکے پڑے تھے وہ حیرت سے دریافت کرنے لگیں۔
”وہ… ممانی جان! میں یہ چھلکوں کی پلیٹ ڈسٹ بن میں پھینکنے جا رہی تھی کہ پاؤں مڑ گیا اور پلیٹ عذیر کے سر پر الٹ گی۔“ میرب نے لہجے میں حد درجہ معصومیت اور لاچاری سمو کر کہا۔ اس کے سفید جھوٹ پر عذیر کی آنکھیں پھیل گئیں۔
”چلو کچھ نہیں ہوتا۔ تمہارے پاؤں میں زیادہ چوٹ تو نہیں آئی۔“ وہ اب عذیر کو چھوڑ اس کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
فکر مندی سے پاؤں کی جانب دیکھنے لگیں۔
عذیر تلملا کے اٹھا اور فن فن کرتا باہر نکل گیا۔ میرب نے بمشکل اپنی مسکراہٹ کو کنٹرول کیا۔
”نہیں… میں ٹھیک ہوں۔“
”اور تمہارا پیر ٹھیک ہو گیا تھا۔“ وہ یاد آنے پر پوچھنے لگیں۔
”جی بالکل اے ون…!“
اور یہیں سے تو لڑائی شروع ہوئی تھی۔ اس کے تھرڈ ایئر کے ایگزامز ہو رہے تھے۔
آج آخری پیپر تھا۔ سو تھکاوٹ سے بھی برا حال تھا۔ ارادہ یہی تھا کہ گھر جاتے ہی لمبی تان کے سو جائے گی۔ وہ سونے کے ارادے سے ہی اپنے کمرے میں آئی تھی کہ ان چاروں نے دھاوا بول دیا۔ میرب نے جیسے تیسے کرکے نکالا انہیں کمرے سے تو انہو ں نے باہر بیٹھ کر وہ ہڑ بونگ مچائی کہ اپنے کانوں پہ تکیہ رکھنے کے باوجود اس کے کانوں کے پردے پھٹنے کے قریب ہو گئے۔
جب اس کی برداشت جواب دے گئی۔ تو وہ بھی مقابلے کے میدان میں اتر آئی۔
اور یہی تو وہ سب چاہ رہے تھے کہ اتنے دن کمرے میں بند رہ کے اس نے جو پڑھ پڑھ کے اپنا ستیاناس کر لیا ہے اب ہنس بول کے خود کو فریش کر لے۔ پھر میرب کے بغیر ان کی محفل بھی تو بے رنگ اور بے رونق ہونے لگتی تھی۔
###
منیب الحسن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ سب سے بڑے بیٹے فاروق پھر نعیم اور پھر حسنہ تھیں۔
حسنہ سب سے چھوٹی اور گھر بھر کی لاڈلی تھیں۔ فاروق کی ہم سفر عائشہ تھیں۔ ان کے چار بچے عالیہ ،عنبر ،نبیل اور رافع تھے۔ عالیہ اور عنبر شادی شدہ تھیں۔ نعیم اور ندرت کے تین بچے عذیر ،رباحہ اور مزنہ تھے۔ حسنہ ان سب کی لاڈلی پھپھو تھیں۔ لیکن قسمت نے ان کا کوئی لاڈ نہیں اٹھایا تھا۔ شادی کے فقط چار سال بعد ہی وہ بیوہ ہو گئیں تو اپنی اکلوتی لخت جگر میرب کو لے کر بھائیوں کے پاس آ گئیں۔
حسنہ ابھی جوان تھیں۔ پڑھی لکھی اور خوبصورت تھیں۔ کئی گھرانے ابھی بھی ان کے امیدوار تھے بھائیوں نے بھی اصرار کیا کہ وہ دوسری شادی کر لیں لیکن ان کا دل تو اس طرح اجڑا تھا کہ اب کسی اور کیلئے گنجائش ہی نہیں تھی۔
وقت آگے سے آگے سرکتا رہا۔ لیکن اب سب کی آپس میں محبت مثالی تھی۔ آج کے دور میں بھی وہ سب جوائنٹ فیملی سسٹم کا حصہ تھے۔
حالانکہ بچے بڑے ہو گئے تھے۔ پھر بھی ان کی محبت لازوال تھی۔ عالیہ آپی تو شادی کے بعد ٹورنٹو چلی گئی تھیں جبکہ عنبر آپی ٹیکسلا میں تھیں۔ عذیر اور رافع تو جی بھر کے ہڈحرام تھے جبکہ نبیل پھر بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھتا تھا۔ رباحہ اپنے ماں باپ کی لاکھ کوششوں کے باوجود MBBS نہیں کر پائی تھی اور مزنہ بی بی تو ویسے ہی پڑھائی کے نام پر ہی بدکتی تھی۔
رباحہ تو پھر بھی مارے باندھے M.sc تک پہنچ ہی گئی تھی جبکہ مزنہ سے تو لاسٹ تھری ایئر سے سمپل B.A ہی کلیئر نہ ہو پایا تھا۔ البتہ میرب پڑھائی میں بہت تیز تھی۔ حال ہی میں B.BA کے ایگزمیز دیئے تھے۔
میرب اپنے ننھیال میں بہت خوش اور مطمئن تھی۔ اس کے دونوں ماموں اسے بے تحاشہ پیار کرتے تھے۔ سب کزنز بھی بہن بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔ باپ کی کمی اگرچہ اسے محسوس تو ہوتی تھی تاہم وہ اسے رب کی رضا جان کر خاموش تھی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum