Episode 18 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 18 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

آرزو ارمان چاہت مدعا کچھ بھی نہیں
تھا بہت کچھ پاس لیکن اب رہا کچھ بھی نہیں
کیسی کیسی قیمتی چیزوں سے اٹھا ہے حجاب
دوستی دلجوئی ہمدردی وفا کچھ بھی نہیں
زندگی کے کینوس پر مناظر اتنی تیزی تیزی سے بدلے تھے کہ وہ خود چکرا کے رہ گئی تھی ،رابعہ بھابھی نے ان کی توقع سے بھی زیادہ جلدی اپنے رنگ ڈھنگ بدلے تھے ،شیراز بھائی کو جس طرح اپنے قابو میں کیا تھا انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا تھا۔
ابتداء میں تو ان کا زیادہ وقت اپنے میکہ میں گزرتا تھا ایک مرتبہ ندرت نے ڈھکے چھپے الفاظ میں کہا تھا کہ۔
”بیٹیاں تو اپنے گھروں میں اچھی لگتی ہیں شادی کے بعد والدین پر بوجھ نہیں بننا چاہئے۔“ بس ان کا اتنا کہنا ہی عذاب ہو گیا تھا ،رابعہ نے تو رو رو کر آنکھیں سجا لی تھیں اور نجانے شیراز کو کیا کچھ کہا تھا کہ وہ اس دن سے ندرت سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا تھا۔

(جاری ہے)

اور رابعہ نے جب سے ان کی ضد میں آکر گھر رہنا اور گھر کے معاملات میں دلچسپی لینا شروع کی تھی ،تو ندرت اس وقت کو پچھتانے لگیں ،جب ان کی زبان سے یہ کلمہ نکلا تھا ،رابعہ کو ہر ہر بات پہ اعتراض تھا ،کچن کو ہر وقت وہ اپنی نگرانی میں رکھتی تھی ،گھر کا خرچ اس نے لے لیا تھا اور ہر چیز وہ ناپ تول کر دیتی تھی۔
”یہ کون سا وقت ہے تمہارا ناشتے کا ،ابھی کل تو میں نے شیراز سے بریڈ اور انڈے منگوائے ہیں اور آج سارا فریج خالی پڑا ہے۔
“ علیشا نے آج کالج سے چھٹی کی تھی اسی لئے دیر سے اٹھنے کے باعث اب ناشتہ کرنے کچن میں آئی تھی ،ابھی اس نے چائے کا ایک گھونٹ ہی بھرا تھا جب وہ اس کے سر پہ آن پہنچی تھی۔
”آپ خود ہی تو کہتی ہیں کہ ایک بجے سے پہلے ناشتہ نہیں ہوتا جبکہ میں تو ابھی دس بجے ہی اٹھ آئی ہوں۔“ علیشا کو اپنے پہلے دن والی تذلیل ہرگز نہیں بھولی تھی اور بات منہ پہ مارنے کا شاید اس سے بہتر موقع اس کو دوبارہ نہ ملتا ،وہ ہر وقت کی اس روک ٹوک سے عاجز آ چکی تھی۔
”میرے شوہرکی کمائی کھاتی ہو اور مجھ پر ہی بولتی ہو۔“ وہ تنفر سے آنکھیں سکیڑتے ہوئے چنگھاڑی تھی۔
”وہ صرف آپ کے شوہر نہیں میرے بھائی بھی ہیں۔“ وہ بھی خاموش نہیں رہی تھی ،آج اس نے بھی حساب بے باق کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔
”اونہہ… بھائی! یہ میرا گھر ہے اس گھر میں رہنا ہے تو میری مان کے چلنا پڑے گا۔“ وہ طنزیہ انداز میں کہتی اسے بہت کچھ باور کروا گئی تھی۔
”یہ آپ کا نہیں میرے باپ کا گھر ہے۔“ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بولی تھی ،وہ بھی علیشا فرحان تھی کسی سے نہ دبنے والی۔
”باپ کا گھر ہے تو اپنی مرضی کرکے دکھاؤ۔“ علیشا کے ہاتھ سے چائے کا مگ چھینتے ہوئے اسے سنک کی طرف اچھال دیا تھا۔
ٹھاہ کی آواز آئی تھی اور قیمتی مگ کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا ،علیشا کو اس ردعمل کی توقع نہیں تھی وہ ہکا بکا انہیں دیکھے گئی۔
”کیا ہو رہا ہے بھئی ،کس چیز کا شور ہے۔“ شارق جو علیشا کو ہی تلاش کر رہا تھا شور کی آوازیں سن کر اسی طرف آ گیا۔
”کیسے ہو شارق! بڑے دونوں بعد آئے ہو ،آؤ بیٹھو ناں۔“ شارق کو دیکھتے ہی فوراً اس کی زبان شیرینی ٹپکانے لگی تھی۔
”میں تو ٹھیک ہوں لیکن یہ کیا ہوا ہے؟“ اس نے متعجب ہو کر سنک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تھا ،جہاں جابجا مگ کی ٹوٹی کرچیاں بکھری پڑی تھیں اور چائے فرش پر پھیل رہی تھی۔
”آں… کچھ نہیں… علیشا کو شاید چائے پسند نہیں آئی بچی ہے ناں ابھی ،کوئی بات نہیں ،تم بیٹھو ناں۔“ شرمسار لہجے میں کہتی وہ گویا اپنی شرمندگی پر قابو پانے کی سی کوشش کو ظاہر کر رہی تھی۔
رابعہ نے اس عیاری و مکاری سے پینترا بدلا تھا کہ وہ اپنی جگہ حق دق رہ گئی تھی ،حیرت نے اسے اس قدر ششدر کر دیا تھا کہ ذہن سے سارے الفاظ نکل کر گویا ہوا میں تحلیل ہو گئے تھے وہ اس کی بات کی تردید میں ایک لفظ بھی نہ بول پائی۔
”بہت بری بات ہے علیشا! یو آر ناٹ آ چائلڈ ناؤ۔“ وہ ملامتی نظروں سے اسے دیکھتا بڑے متاسف لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”ارے بھئی ہمارے ہی گھر میں کھڑے ہو کر ہماری ہی بیٹی کو ڈانٹ رہے ہو ،مانا کہ حق رکھتے ہو مگر یہ حق اپنے گھر جا کر استعمال کرنا۔“ اس نے بڑی لگاوٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھابھی ہونے کا ثبوت دیا تھا اور ساتھ ہی چیئر گھسیٹ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ بھی کیا تھا۔
”لیکن بھابھی“ اس نے کچھ کہنا تھا کہ رابعہ نے اس کی بات قطع کر دی تھی۔
”لیکن ویکن کچھ نہیں ،میں دوبارہ ناشتہ بنا دیتی ہوں اور تم بھی اس کے ساتھ شریک ہو جاؤ ،کیا یاد کرو گے کہ بھابھی نے کتنا اچھا موقع فراہم کر دیا ہے۔“ اپنائیت بھری مسکان لبوں پہ سجاتے ہوئے اس کی پھرتیاں قابل دید تھیں۔
علیشا کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا رابعہ سے زیادہ اسے شارق کے رویے نے صدمہ پہنچایا تھا ،وہ سامنے بیٹھی تھی لیکن اسے نظر نہیں آ رہی تھی اور ایسا واقعہ اس کی زندگی میں پہلی دفعہ رونما ہوا تھا۔
رابعہ نے چند منٹ لگائے تھے اور الیکٹرک کیٹل سے چائے اور سینڈوچ میکر سے سینڈوچ تیار کرکے ناشتہ ٹیبل پہ لگا دیا تھا۔
”یہ لو گڑیا! ناشتہ کرو تم بھی لوناں شارق۔“ اس کے لہجے میں اتنی مٹھاس تھی کہ شارق متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ،اتنی تصنع اور بناوٹ؟ اس قدر عیاری اور منافقت؟
علیشا کو لگا تھا اگر وہ ایک سیکنڈ بھی مزید رکی تو اس کا دماغ پھٹ جائے اور اس نے چیئر کو زور سے پیچھا دھکیلا اور بھاگتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی اسے اس بات کا بھی احساس نہیں ہوا کہ اس کا یہ عمل رابعہ کیلئے مزید راہ ہموار کرے گا ،لاشعوری طور پر وہ شارق کی منتظر تھی کہ وہ بھی اس کے پیچھے بھاگا آئے گا‘ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تھا ،جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا اس کا دل ڈوبتا جا رہا تھا ،تقریباً آدھے گھنٹے بعد اس نے بے تاب ہو کر کھڑکی سے جھانکا تھا ،جہاں پورچ سے نظر آتے منظر نے اسے ساکت و جامد کر دیا تھا۔
شارق اور رابعہ کسی بات پر ہنس رہے تھے ،یونہی ہنستے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھ گیا تھا اور چند لمحوں بعد اس کی گاڑی پورچ سے نکلتی چلی گئی تھی۔
”شارق مجھ سے ملے بغیر ہی چلا گیا؟“ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا ،دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھامتے ہوئے وہ اپنے بیڈ پہ ڈھے گئی تھی۔
اور بات اگر یہیں تک ہوتی تو شاید وہ برداشت کر جاتی لیکن رابعہ پورے لائحہ عمل کے ساتھ میدان میں اتری تھی ،نجانے اس نے شیراز بھائی کو کیا غلط سلط پٹی پڑھائی تھی کہ رات کو جب وہ ماما اور ہادی کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھی تھی تو شیراز بھائی آگ بگولہ ہوتے اندر داخل ہوئے تھے۔
”علیشا! آج تم نے بدتمیزی کی ہے اپنے بھابھی کے ساتھ اور وہ بھی شارق کی موجودگی میں؟“ ان کی آواز اس قدر بلند تھی کہ تینوں چونک کر ان کی جانب متوجہ ہو گئے تھے۔
”میں نے؟“ ابھی تو پہلے حادثے سے سنبھل نہیں پائی تھی کہ ایک نیا الزام اس کے سر دھر دیا گیا تھا۔
”ماما! دیکھ رہی ہیں آپ اپنی لاڈلی کو ،اسی لئے تمہارے ناز نخرے برداشت کرتا رہا ہوں کہ تم میری بیوی کے ساتھ بدتمیزیاں کرتی پھرو۔
“ وہ شیراز بھائی جنہوں نے کبھی پھولوں کی چھڑی سے بھی کسی دوسرے کو اسے چھونے نہیں دیا تھا آج خود اس پر برس رہے تھے۔
”لیکن بیٹا ہواکیا ہے؟ تمہیں شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے شارق تو آج آیا ہی نہیں۔“ ندرت ساری صورتحال سے بے خبر تھیں۔
وہ اپنی جگہ سچی تھیں ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں تھا کہ شارق آئے اور ان سے ملے بغیر ہی چلا جائے ،بلکہ اگر وہ گھر نہ ہوتیں تو وہ ان کے انتظار میں بیٹھ جایا کرتا تھا اب ان کو کیا معلوم کہ رابعہ نے ان کے گھر نہ ہونے کا جھوٹ تراش کر اسے ملنے سے روک دیا تھا۔
”دیکھا شیراز! میں نہ کہتی تھی کہ آپ کے گھر والوں نے مجھے ہی جھوٹا قرار دینا ہے ،اگر میری بات پر یقین نہیں ہے تو فون کرکے پوچھ لیں ،علیشا نے اس کے سامنے چائے کا کپ میرے منہ پر دے مارا تھا ،میں نے برا منائے بغیر اس کو دوبارہ ناشتہ بنا کردیا لیکن اس نے تو شارق کا بھی لحاظ نہ کیا ناشتہ وہیں پھینک کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔“ ندرت کی بات سن کر رابعہ تیر کی مانند اپنے کمرے سے نکلی تھی اور بلند آواز سے چلانے لگی تھیں۔
”غلط کہہ رہی ہیں آپ ،علیشا لاکھ نخریلی سہی لیکن وہ بڑوں کے ساتھ ایسی بدتمیزی نہیں کر سکتی۔“ ہادی کے تو میٹر گھوم گیا تھا۔
اگرچہ وہ آج کے واقعے سے لاعلم تھا لیکن اتنے عرصے میں وہ رابعہ کی فطرت کو تو سمجھ گیا تھا ،یقیناوہ کوئی نئی گیم کھیلنا چاہ رہی تھی۔
”دیکھ لیا ،دیکھ لیا آپ نے یہی عزت ہے میری اس گھر میں ،جس کا دل چاہے اٹھ کر مجھے ذلیل کر دے۔
“ وہ نہایت شاطر عورت تھی اس موقع کو کیوں ہاتھ سے جانے دیتی ،لہجے میں زمانے بھر کی مظلومیت سموتے ہوئے اس نے کہا تھا اور اگلے ہی لمحے بلند آواز سے روتی ہوئی اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی ،کیونکہ اس کا مقصد پورا ہو چکا تھا۔
”دیکھ رہی ہیں آپ اپنی اولاد کو۔“ شیراز غصے سے بھڑکتے ہوئے ندرت کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔
”آئندہ اگر تم دونوں میں سے کسی نے اس کے ساتھ بدتمیزی کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔“ لال انگارہ آنکھوں سے دونوں کو گھورتے ہوئے وہ تن فن کرتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے ،بے یقینی سے تمام نفوس اپنی جگہ منجمند ہو گئے تھے۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum