زِندگی
زندگی کسی میدانِ کارزار کا نام نہیں…یہ جلوہ گاہ ہے ‘حُسن کی جلوہ گاہ …یہ ایک بارونق بازار ہے…جس میں سے خریدار گزرتا ہے…وہ خریداری کرتا ہے اور اُس کا سرمایہ ختم ہو جاتا ہے اور پھر تعجب ہے کہ اُس کی خریداری بھی دھری کی دھری رہ جاتی ہے…وہ خالی ہاتھ واپس لوٹتا ہے … رونقِ بازار قائم رہتی ہے…اور خریدار ختم ہوتے رہتے ہیں…زندگی کسی اُلجھے ہوئے سوال کانام نہیں…یہ ایک پُر لطف منظر ہے۔
ایسا لطیف منظر کہ تبصرے اور تنقیدکے بوجھ کو بھی برداشت نہیں کرتا…یہ ایک دیکھنے والا منظر ہے…ایک سُننے والا نغمہ ہے…ایک سوچنے والا منصوبہ نہیں…ایک مشکل معمّہ نہیں…زندگی تو بس زندگی ہی ہے…کسی کا اِحسان ہے…کسی کی دین ہے …کسی اور کا عمل ہے۔
یہ سمندر کی طرح ہے۔
(جاری ہے)
وسیع و بے پایاں…جس کا صرف ایک ہی کنارہ ہے … ایک ساحل…جہاں رونقیں ہیں…میلے ہیں…چراغاں ہیں…ہجوم ہے … تنہائیاں اور اُداسیاں بھی ہیں…دوسرے کنارے کی کسی کو خبر نہیں…جو لوگ دوسرے کنارے کی خبر لینے گئے ہیں‘ابھی تک لوٹے نہیں…اِس طرف رنگ ہی رنگ ہیں … نیرنگ ہے اور دوسری طرف بے رنگ…صرف ایک ہی رنگ …کون جانے کہ اِس سمندر میں کیا ہے اور اِس کے پار کیا ہے…یہاں میلہ ہے اور پھر ہرانسان اکیلا ہے۔
زندگی کب سے ہے اور کب تک ہے…کون جانے…اَزل سے ابَد تک یا اَزل سے پہلے اور اَبد کے بعد بھی زندگی ہی ہے…تخلیق ہونے سے پہلے یہ خالق کے اِرادے میں زندہ تھی اور تکمیل کے بعد یہ خالق کے رُو برو حاضر کر دی جائے گی …زندگی بہرحال زندگی ہی رہے گی!
زندگی وقت کھاتی ہے…زمانے نگل جاتی ہے…کبھی کبھی صدیاں ہڑپ کر جاتی ہے اور ٹس سے مَس نہیں ہوتی اور کبھی کبھی ایک لمحے میں کئی انقلابات برپا کر دیتی ہے۔
بہر حال زندگی ‘زندگی کے درمیان ہی رہتی ہے‘ایسے جیسے یہ اپنے ہی سمندر کا خود ہی ایک جزیرہ ہو۔زندگی سے پہلے بھی زندگی تھی اور زندگی کے بعد بھی زندگی ہی ہو گی … زندگی مرتی نہیں…مر سکتی نہیں…نہ ہی یہ ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہے…زندگی ہمیشہ قائم بھی ہے اور ہمیشہ تبدیل بھی ہوتی رہتی ہے…
زندگی جہاں پھلنے پھولنے کا نام ہے وہاں اپنی آگ میں بھی جلنے کانام ہے … زندگی تخلیق کرتی ہے اور اپنی تخلیق کے مراحل میں تحلیل بھی ہوتی رہتی ہے۔
اِس طرح زندگی ہونے اور نہ ہونے کے درمیان ہی رہتی ہے…جلتی بجھتی زندگی بس اُمید و یاس میں رہتی ہے…یہ سفید و سیاہ دھاگے سے بُنا ہوا خوبصورت ملبوس ہے…اِس میں بہت کچھ ہے…اِس میں قہقہے بھی ہیں اور ہچکیاں اور سِسکیاں بھی …
زندگی غریبوں کے کچے گھروندوں میں بھی سرشار رہ سکتی ہے اور امیروں کے پکّے محلّات میں بیمار بھی رہ سکتی ہے۔
زندگی اگر چاہے تو گردشِ حالات سے منسوب ہو جاتی ہے اور اگر پسند فرمائے تو گردشِ زمان و مکاں سے بے نیاز ہو کر اپنے لیے نئے جہاں پیداکرتی رہتی ہے۔زندگی کسی فارمولے میں مقیّد نہیں ہو سکتی…اِسے کچھ کہہ لیجیے ‘یہ سُنتی ہے، مسکراتی ہے اور کچھ اور ہی رُوپ اختیار کر کے فارمولے سے باہر نکل آتی ہے۔
اگر زندگی کو مسلسل سفر کہا جائے تو مکمل قیام کیا ہے؟
اگر زندگی کو بیداری کہا جائے تو نیند اور غفلت کو کیا کہا جائے؟
اگر زندگی کو محبت کہہ لیا جائے تو نفرت بھی تو زندگی ہے ‘بلکہ نفرت زیادہ زندہ ہے … نفرت،غصّہ،حسد،انتقام ‘زِندگی کو زیادہ متحرک رکھ سکتے ہیں۔
بہر حال محبت اور نفرت زندگی ہی کے نام ہیں۔
اگر مذہب کو زِندگی مانا جائے تو لا مذہبیّت کیا ہے؟
اگر زِندگی زمین ہے تو آسمان کیا ہے؟
اگر مخلوق کو زندگی کہا جائے تو مخلوق پیداکرنے والی ذات کو کیا کہا جائے؟
زندگی کی تعریف کرنا بہت مشکل ہے…اِسے جاننا اور پہچاننا بھی مشکل ہے … یہ ایک راز ہے…ایسا راز کہ جس نے راز جان لیا‘ وہ مر گیا اور جو نہ جان سکا‘ وہ مارا گیا۔
زِندگی تلاش میں ہے…کس کی تلاش…زِندگی اُسے تلاش کرتی ہے جو زِندگی کو تلاش کرتا ہے…زِندگی موت کے تعاقب میں ہے اور موت‘ زِندگی کے پیچھے آرہی ہے …دونوں‘دونوں کی تلاش میں ہیں۔جب تک دونوں میں سے ایک ختم نہیں ہوتا یہ کھیل جاری رہتا ہے۔یعنی نُور اورظُلمات کا کھیل…ہونے اور نہ ہونے کا کھیل… ماننے اور نہ ماننے کا کھیل…دن اور رات کا کھیل…!
زندگی کے دامن میں بے پناہ اور بے شمار نعمتیں ہیں۔
اِس میں خواہشیں ہیں، حسرتیں ہیں…اُمّیدیں ہیں‘مایوسیاں ہیں…صداقتیں ہیں،دھوکے ہیں …میلے ہیں اور تنہائیاں ہیں۔
زِندگی سمندر ہے‘اپنے بادلوں کو نامعلوم سفر پر روانہ کرنے والا… اُنہیں الوِداع کہنے والا…اور پھر یہی سمندر اپنے مسافروں کو،اپنے دریاؤں کو خوش آمدید کہنے والا بھی ہے۔
زندگی سے زندگی نکل رہی ہے…زندگی میں زندگی شامل ہو رہی ہے … زندگی سے زندگی جُدا ہو رہی ہے،زندگی سے زندگی واصل ہو رہی ہے…!
دراصل زندگی تو زندگی ہے……فراق و وصال سے بہت بُلند۔
حاصل و محرومی سے بہت بے نیاز…اپنے اندر ہونے والی تبدیلیوں سے باخبر لیکن غیر متاثر …!
زندگی بہت پرانی ہے،بہت قدیم ہے،بہت بوڑھی ہے…لیکن یہی زندگی بہت نئی ہے،بہت جدید ہے اور بہت جوان…
ہر قدیم کبھی جدید تھا اور ہر جدید کبھی قدیم ہوگا۔
یوں یہ زندگی بیک وقت قدیم اور جدید ہے…پُرانے شہر اور نئے اِنسان … پُرانے اِنسان اور نئے شہر…آج کا اِنسان پرانے کھنڈرات میں خوش رہتا ہے۔
یہ دیکھنا چاہتاہے کہ وہ لوگ کون تھے‘ جو اِس کھنڈر میں کبھی آباد تھے …یہ کھنڈر کسی زمانے میں محلّات تھے…نیا انسان پرانی کائنات کو دریافت کرنے نکلا ہے…وہ اِسے ترقی کہتا ہے…یہ عجیب بات ہے کہ آج کا اِنسان‘ آج بھی پُرانی طرز پر پیدا ہوتاہے… پُرانے مصنّفین کوپڑھتا ہے اور نئے علم کا اظہار کرتا ہے۔نئی بات کیا ہے…پُرانے چہرے ہیں …پُرانی آنکھیں ہیں … پُرانے آنسو ہیں…وہی کچھ ہے ‘جو تھا…اور پھر نئے اِنسان کے لیے پُرانی منزل…پُرانے قبرستان…یہ سب باتیں سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔
یہ سب زندگی ہے …بارات بھی زندگی اور جنازہ بھی زندگی… سمجھنا مشکل ہے … یہ دُنیا بابل کا گھر…اور وہ دُنیا سُسرال…تعجب ہے…چار کہار ڈولی لے چلے … اور چار بھائی جنازہ لے چلے…ایک ہی ہے…سب ایک ہے… سب جلوے زندگی کے ہیں…یہ سب ابواب ‘کتابِ ہستی کے ہیں۔ابتدا اور انتہا سے بے نیاز۔ زندگی آغاز سے پہلے بھی تھی اور انجام کے بعد بھی ہو گی…زندگی تو بس زندگی ہے … اِس کا یومِ پیدائش اور اِس کا یومِ وصال کِسے معلوم؟
کون جانے کہ یہ لامحدود سفر کہاں سے شروع ہُوا اور انجام کار کہاں ختم ہو گا … بہر حال زندگی ہمہ حال رواں دواں ہے…دریا کی طرح جو چلتا رہتا ہے… مُسلسل …مستقل …نہ کٹتا ہے‘ نہ رُکتا ہے،نہ بے دم ہوتا ہے …پہاڑوں کا پیغام ہے‘ جو آبِ رواں کے ذریعے سمندر کے نام کیا گیا ہے…یہ پیغام‘زندگی ہے…اور اِسے لے جانے والا زندہ رہے گا…!
زِندگی اپنی عزّت خود ہے…خود ہی یہ اپنی آبرو خاک میں ملاتی ہے …یہ خود ہی محترم و معزّز ہے…کبھی سَرفراز ہے کبھی سرنگوں ہے…زِندگی سرد خانوں میں دہکتی ہوئی آگ ہے…نار ہے …اور یہی زندگی ‘اِسی نار میں چھپا ہُوا گلزار ہے…یہ معمولی سی بات ہے…زندگی دینے والے کے حوالے سے سمجھ آ سکتی ہے …اگر تخلیق خالق سے متعلق ہو تو سلامت ورنہ یہی ایک قیامت ہے!
زندگی اپنے ہی پردے میں چھپی ہوتی ہے اور اپنے ہی دروازے پر خود ہی دستک دیتی ہے۔
اور خود ہی اندر سے جواب دیتی ہے…یہاں کوئی نہیں …اور اگر کسی نظر کا فیض ہو جائے تو خود ہی خود کو آواز دیتی ہے…اندر آ جاؤ …ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں…بس زندگی اپنے رُوبرو ہونے کا نام ہے …اپنے قریب ہونے کا نام… اپنے سے قریب ہونے کا نام…اپنے سے آشنا ہونے کا نام ہے…اپنا ہی نام ہے … میں ہی زِندگی ہوں…لیکن اِس شرط کے ساتھ کہ میں تسلیم کروں کہ ”تُو“ بھی زِندگی ہے اور ”وہ“بھی زِندگی ہی ہے …سب کا احترام ہی اپنا احترام ہے…سب کی زِندگی ہی اپنی زِندگی ہے!!