Episode 32 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 32 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

مجبوری 
مجبور ہونا کوئی بُری بات نہیں اور سچ پوچھو تو مجبور ہونا کوئی اچھی بات بھی نہیں۔ مجبور ہونا صرف سچّی بات ہے۔ اِنسان مجبور ہے۔ اِنسان مجبوری توڑنا چاہتا ہے اور فطرت اِسے مجبور رکھنا چاہتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے راستوں پر مجبور ہیں۔ 
صرف اِنسان ہی نہیں‘کائنات کا ذرّہ ذرّہ اپنے اپنے حصار میں مجبور ہے۔ ستارے اپنے اپنے مدار میں مجبور ہیں۔
سورج طلوع و غروب کے مُسلسل عمل میں مجبور کر دِیا گیا ہے۔ ہر شے اپنے اپنے دائرے میں گویا رہن رکھ دی گئی ہے۔ دریا کی رَوانی اُس کی مجبوری ہے۔ پرندوں کی پرواز، مچھلی کا تیرنا، ہواؤں کا چلنا، بارش کا برسنا، پہاڑوں کا اپنی جگہ پر میخوں کی طرح گڑا رہنا ‘مجبوری ہی مجبوری ہے۔ آسمان بُلند ہے، زمین ہموار ہے‘ پست۔

(جاری ہے)

غرضیکہ ہر ذات اپنی صفات کے بندھن میں ہے۔

اپنی عادت اور فطرت کے مطابق اپنے مجبور سفر پر گامزن ہے۔ 
کوئی شے ‘کوئی ذات اپنی تشکیل سے باہر عمل نہیں کر سکتی۔ یہی مجبوری ہے، یہی پہچان ہے اور یہی اُس ذات کی خودی ہے۔ گوشت کھانے والا مر جائے گا‘ لیکن گھاس نہیں کھائے گا۔ شاہین مُردار نہیں کھاتا، گِدھ مُردار ہی کھائے گا۔ مجبور ہیں دونوں۔ 
ایک اِنسان کا عمل ‘دُوسرے اِنسان کے عمل سے مختلف نظر آتا ہے۔
ایک کا پیشہ‘ دُوسرے کے پیشے سے الگ ہے۔ ایک کی زندگی‘ دُوسرے کی زندگی کے علاوہ ہے۔ ایک کا حاصل‘ دُوسرے کے حاصل سے جدا ہے۔ ایک کی صفات ‘دُوسرے کی صفات سے علیحدہ ہیں۔ ایک کا انداز ‘دوسرے کا انداز نہیں۔ محنت کرنے والا‘ نِکمّے سے مختلف تو ہو گا۔ سونے والے اور جاگنے والے برابر کیسے ہو سکتے ہیں۔ کامیابی اور نا کامی الگ الگ نتیجے ہیں۔
جہاں ایک اِنسان مجبور نظر آتا ہے ‘وہاں دُوسرا اِنسان اُس مجبوری کو توڑتا ہُوا دِکھائی دیتا ہے۔ اِنسان جو چاہے کر سکتا ہے۔ اُس نے آج تک جو چاہا کیا‘ لیکن اِسی آزادی میں ہی تو اُس کی مجبوری کی داستان پِنہاں ہے۔ 
اِنسان‘ آسمان کی وُسعتوں میں چلا جائے، وہ آسمان کے دَروازے کھٹکھٹائے، کائنات کے اَسرار دریافت کرے‘ آزاد ہے۔ لیکن اِس آزادی میں ایک ایسا وقت آتا ہے ‘جب اُس کی آزادی اور آزاد رَوی اُس کے لیے مجبوری کا پیغام لاتی ہے اور آسمانوں پر بھی اُڑنے والا آزاد اِنسان‘ مجبور ہو کر زمین پر آتا ہے اور پھر زمین میں سما جاتا ہے۔
اِبتدا مجبور ہے، اِنتہا مجبور ہے۔ درمیان میں آزادی ہے۔ کتنی آزادی ہو گی؟ 
اِنسان اپنے لیے مکان بناتا ہے۔ وہ آزاد ہے۔ جیسے چاہے مکان بنائے‘ لیکن ایک قِسم کا مکان بنانے کے بعد وہ اپنے مکان کو زیادہ تبدیل نہیں کر سکتا۔ آزادی سے حاصل ہونے والی شے‘ اپنے مالک کو مجبور کر دیتی ہے۔ شادی کرنے تک اِنسان خود کو آزاد سمجھتا ہے۔ جس سے چاہے شادی کر لے‘ لیکن شادی کے بعد مجبوری کا اِحساس ہوتا ہے۔
اُس کے لیے آزادی سے حاصل ہونے والی بیوی‘ دَراصل اُس کی مجبوری تھی۔ آزاد نظر آنے والی طرزِ حیات‘ دَرحقیقت ایک مجبور طرزِ حیات ہے۔ اِنسان سفر کرنے کے بعد سمجھتا ہے کہ اُس کے لیے وہی سفر مقرر تھا‘ جو اُس نے کِیا۔ باقی سارے آزاد نظر آنے والے راستے صرف اِمکانات تھے۔ حقیقت صرف ایک راستہ ہے ‘جس پر چلنا اِنسان کی مجبوری ہے۔ اُسے وہ آزادی سمجھے‘ تب بھی مجبوری ہے اور مجبوری سمجھے‘ تو بھی مجبوری ہی ہے۔
 
ہر اِنسان اپنے مزاج میں مجبور کر دیا گیا ہے۔ بخیل‘ بخیل رہے گا۔ سخی‘ سخی۔ ماننے والے‘ ماننے پر مجبور ہیں اور اِنکار کرنے والے ‘اِنکار پر۔ دُنیا میں رونقیں‘ مجبوریوں کے ابواب ہیں۔ مجبوری کے دَم سے یہ معمورہ آباد ہے۔ 
ایک گھر میں پیدا ہونے والے، ایک دستر خوان پر پرورش پانے والے ‘ایک جیسا ذائقہ، ایک جیسی فطرت نہیں رکھتے۔
ہر اِنسان ایک الگ فطرت پر پیدا ہُوا۔ ایک الگ تجربہ، ایک علیحدہ نصیب۔ غرضیکہ ہر اِنسان اپنے مزاج میں رہن رکھ دیا گیا۔ ہر اِنسان اپنی تشکیل کے مطابق عمل پر مجبور ہے۔ اِنسان کی صفات اُس کو آزادی کی منزل دِکھاتی ہیں‘ لیکن یہ صفات اپنی ذات میں محدود و مجبور ہیں۔ اِنسان کی بینائی لا محدود وُسعتوں کو دیکھنے کی خواہش مند رہتی ہے‘ لیکن بینائی محدود ہے۔
دُور سے نظر آنے والے مناظر قریب سے ویسے نہیں دِکھائی دیتے۔ چاند‘ دُور سے کچھ اور ہے اور قریب سے کچھ اور۔ ہماری بینائی محدود تو ہے ہی سہی‘ کچھ عرصہ کے بعد کمزور بھی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بینائی پر ہی کیا موقوف‘ ہمارے اعضامضمحل ہو جاتے ہیں۔ ہم صحت کا خیال رکھتے رکھتے‘ صحت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ زِندگی کی حفاظت کرتے کرتے ہم غیر محفوظ ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ہمارے اثاثے ‘ہمارے اختیارات کی طرح ہم سے چھِننے شروع ہو جاتے ہیں۔ ہماری بینائی کمزور ہو جائے تو چہروں کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ ہم بیرونی خطرات سے محفوظ بھی ہوں تو بھی خطرات ہمارے اندر گھنٹیاں بجاتے ہیں۔ اندیشے ‘ گمنام اور بے نام اندیشے‘ ہمارے یقین کو گھُن کی طرح کھا جاتے ہیں۔ 
ہم آزاد تو ہیں‘ لیکن یہ آزادی ایک محدود دائرے میں ہے۔
ہم اُس کے مُحیط سے باہر نہیں جا سکتے۔ جس طرح ہم زمین و آسمان کے حصار میں ہیں، اُسی طرح ہم اپنے حالات و خیالات کے حصار میں ہیں۔ ہم اپنے آپ سے باہر نہیں نکل سکتے۔ اپنے قد اور اپنی حد سے باہر نہیں جا سکتے۔ سُود و زیاں کی سرحد ‘ہمارے اعمال کی حد ہے۔ ہم اپنوں سے بیگانہ نہیں ہو سکتے اور بیگانوں کو اپنا نہیں سکتے۔ ہمارا حاصل محدود ہے اور ہماری تمنائیں لا محدود۔
ہم داستانِ ہستی مکمل نہیں کر سکتے۔ کسی کا آغاز رہ گیا‘ کسی کا انجام۔ ہم جس راستے پر ہیں‘ اُسی راہ میں لُٹ جاتے ہیں۔ ہمارا ہونا‘ نہ ہونا ہو جاتا ہے اور ہم ‘ہم نہیں رہتے۔ آزادیاں‘ واہمہ نظر آتی ہیں، لیکن ہمیں حُکم دِیا گیا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اپنے اعمال کی وجہ سے جواب دہ ہوں گے۔ اِنسان اُتنا ہی ہے‘ جتنی وہ کوشش کرتا ہے۔ یہی اَمر تو قابلِ غور ہے۔
مجبوریوں کے حصار میں رکھے ہوئے اِنسان کو آزادی کا پیغام ہے۔ عجب مقام ہے۔ 
اِنسان کو جتنی آزادی دی گئی ہے‘ اُتنا ہی اُسے جواب دہ بنایا گیا ہے۔ زِندگی کے محدود ایّام میں ہمارا عمل‘ اپنے نتیجے اور اپنی نیّت کے حوالے سے جواب دہ ہے۔ کھانا‘ کھانا تو فرض ہے یعنی مجبوری ہے‘ لیکن حلال حرام کی تمیز میں اِنسان آزاد ہے۔ کھانا تو کھائے گا اِنسان۔
لیکن کیسے؟ حلال یا حرام۔ رِزق کے اِنتخاب میں ہم جواب دہ ہیں۔ اِنسانوں سے سلوک میں ہم جواب دہ ہیں۔ عبادات کے سلسلے میں ہم جواب دہ ہیں۔ اِنسان میں جتنی صلاحیت ہے‘ اُتنا ہی وہ جواب دہ ہے۔ اندھا آدمی ‘بینائی کے حوالے سے جواب دہ نہیں۔ ہمیں جو ملا‘ اُس کے اِستعمال میں ہم جواب دہ ہیں۔ ہمارا فطری حاصل‘ مجبوری ہے اور اِس حاصل کے اِستعمال میں ہم آزاد ہیں، جواب دہ ہیں۔
 
آزادی یہ ہے کہ ہم مجبوریوں کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے بینائی سے کیا دیکھا۔ نیک مقامات کی زیارت یا نفس کے عشرت کدے۔ ہم نے محدود زندگی کو کیسے استعمال کیا۔ گِلہ شِکوہ، شکایت ، مایوسی، بغاوت ‘یا اُسے شُکر، اُمید، اِطاعت اور عبادت میں صَرف کِیا۔ پانے والے رازِ حیات پا گئے اور کھونے والے اپنا آپ برباد کر کے رُخصت ہُوئے۔
ویرانیاں چھوڑ گئے۔ ایک اِنسان نے کہا کہ جب مَر ہی جانا ہے‘ تو عمل کیا ہے۔ دُوسرے نے کہا ‘چو نکہ مَر جانا ہے‘ اِسی لیے تو عمل ضروری ہے۔ کچھ لوگ اِسی مجبور زِندگی میں بے بسی محسوس کرتے ہیں اور مایوسی سے نکل نہیں سکتے۔ کچھ لوگ اِسی مجبور زِندگی میں اُمید کے چراغ روشن رکھتے ہیں، عمل میں سَرگرم رہتے ہیں اور اِس زِندگی اور آنے والی زِندگی کو کامیاب بنا لیتے ہیں۔
مجبوری اور آزادی‘ اِنسان کے اپنے اندازِ فِکر کے نام ہیں۔ خالق کے باغی آزادیاں چاہتے ہیں۔ اُنہیں قدم قدم پر مجبوری روک لیتی ہے۔ تسلیم کرنے والے مجبوریوں میں مطمئن ہیں۔ اُنہیں قدم قدم پر نئی آزادیوں سے تعارف ہوتا ہے۔ 
اِنسان کا عجب حال ہے۔ زندگی غیر مستقل ہے اور اِس میں مستقل رہنے کی آرزو انسان میں پکتی رہتی ہے۔ اِنسان ریٹائر ہونے سے پہلے مستقل ہونا چاہتا ہے۔
اِس زندگی کا مزاج ہی بے ثباتی ہے۔ اِس میں کسی کو ہمیشہ قیام نصیب نہیں ہُوا۔ آنے والا‘ ضرور جائے گا اور پیدا ہونے والا‘ ضرور مرے گا۔ لیکن اِسی مجبور سَر زمینِ حیات میں آزادی کے گلاب کھِلتے رہتے ہیں۔ بات اِحساس کی ہے‘انداز کی ہے۔ زندگی کے نصیب میں مجبوری ہے اور اِس کے مزاج میں آزادی ہے۔ ہم نہ ہمیشہ سو سکتے ہیں‘ نہ ہمیشہ جاگ سکتے ہیں۔
زندگی کے ابدی نظام کو خوشی سے قبول کرنے والا ہی راحت حاصل کرتا ہے۔ زندگی کی گھُٹن اور مجبوری کو اہلِ دل حضرات، اہلِ عشق، اہلِ محبت حضرات نے آزادی کا نغمہ بنا کر دِکھایا ہے۔ فنا کی بستی میں بقا کے مسافر‘ مجبوریوں سے آزاد کر دیئے جاتے ہیں۔ وہ اپنے وجود سے نکلیں‘ تو چاہنے والوں کے دِل میں یاد بن کر ہمیشہ کے لیے موجود رہتے ہیں۔ محبت ‘مجبور کو مختار بنا دیتی ہے۔ عشق ‘مجبوریوں کے حصار سے آزاد ہو جاتا ہے۔ بندہٴ آزاد‘ بندہ ٴمحبت ہے۔شِکم پرست ‘ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجبور۔ 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif