Episode 39 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 39 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

لب پہ آسکتا نہیں 
آنکھ سے گزرنے والا ہر جلوہ بیان میں نہیں آسکتا۔ جب آنکھ محوِ نظارہ ہو‘تو بیان ممکن ہی نہیں ہوتا اور جب نظارہ رُخصت ہو جائے تو صحت ِبیان مشکوک سی ہو جاتی ہے اور بیان اپنی صداقت کے باوجود یقین اور بداعتمادی کے مِلے جُلے جذبات پیدا کرتا ہے۔ ویسے بھی دیکھے ہوئے اور سُنے ہوئے منظر میں فرق رہتا ہے۔ 
آنکھ اگر آنے والے دَور کو دیکھے تو اُس کا بیان سامعین کے لیے اُلجھاؤ کا باعث ہو سکتا ہے۔
آنے والے زمانے کو کس نے دیکھا؟ سچ ہے۔ آنے والا توغائب ہے اور غائب اگر نظر میں ہو‘ تب بھی محلِ نظر ہے۔ 
آنے والے ایّام آخر جانے والے ایّام سے ہی تو جنم لیتے ہیں۔ اگر حال کو غور سے دیکھا جائے ‘تو اِستقبال کو قبل اَزوقت دیکھا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

 

اگر کوئی بوڑھا شخص‘ بیمار رہنے لگ جائے‘ تو مستقبل اِتنا غائب بھی نہیں رہتا کہ اُسے دیکھا نہ جا سکے۔
 
اگر خرچ آمدن سے بڑھتا جائے‘ تو مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔ اگر جوانوں میں ہیروئن کا شوق اور عادت پیدا ہو جائے‘ تو قوم مستقبل صاف ظاہر ہے۔ 
اگر طالبِ علم‘ علم کا طالب نہ رہے‘ تو نتیجہ واضح ہے۔ 
اگر قافلہ کسی کو سالار ہی نہ مانے‘ تو سفر گمُراہی کی دلیل ہے۔ قافلے کی منزل وقت سے پہلے عیاں ہے۔ 
اگر میاں بیوی کے درمیان اَنا کے مقابلے اور مناظرے شروع ہو جائیں تو اُس گھر اور گھر کے افراد کا حشرغائب کا علم نہیں کہلاتا۔
 
اگر خوراک میں ملاوٹ شروع ہو جائے‘ تو صحت کے بارے میں سیمینار منعقد کرنا بے کار ہے۔ صحت کا علم وقت سے پہلے معلوم ہو سکتا ہے۔ 
اگر رشوت لینے والے محفوظ مرتبوں پر فائز ہوں‘ تو مستقبل… کیا مستقبل؟ 
اگر چوکیدار ہی چوری کرنے لگ جائیں، اگر باڑ ہی کھیت کو کھانے لگ جائے، اگر امپائر ہی غیر جانبدار نہ رہیں‘ تو مستقبل عیاں ہوتا ہے۔
 
اگر کسی کو کسی پر اعتماد نہ ہو، اگر کوئی کسی کے لیے بے ضرر نہ ہو، اگر ہر شخص کو ہر دوسرے شخص پر‘اُس کی نیّت پر شُبہ ہو، اگر اِنسان اپنے آپ سے بیزار ہو، اگر الفاظ اپنے معنی سے جدا ہو جائیں‘ تو مستقبل کے بارے میں جاننا غیب کی بات نہیں‘ ظاہر کا علم ہے۔ اگر سیاست اختلاف برائے اختلاف پر مبنی ہو‘ تو سیاسی استحکام کا مستقبل آشکار سا ہو جاتا ہے۔
یہ سب باتیں اور اِسی طرح کی کئی باتیں‘ظاہر ہے ہر ذی شعور کے لیے ‘اپنے اندر آنے والے زمانوں کی خبر رکھتی ہیں۔
کبھی کبھی حالات ِحاضرہ کے مشاہدے کے بغیر بھی مستقبل اپنے آنے کی قبل اَز وقت اطلا ع دیتا ہے۔ اِقبال# نے اگر کہا کہ ”محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی“ تو اس خبر کا تعلق حال سے قطعاً نہیں۔ یہ الگ اِطلاع ہے۔
اِس کا تعلق نظر سے ہے۔ 
مقامِ خبر اور مقامِ نظر کا فرق تو صرف اہلِ باطن ہی معلوم کر سکتے ہیں۔ اہلِ باطن کی نظر میں اپنے زمانے کے علاوہ بھی زمانے ہوتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وجوہات اور نتائج کے رِشتے اِنسانی رِشتوں کی طرح ہمیشہ قائم نہیں رہتے۔ بعض اوقات وجہ کچھ اور ہوتی ہے اور نتیجہ کچھ اور! 
بے سبب نتائج کی خبر ہی نظر کہلاتی ہے۔
صاحبِ نظر‘ نقیبِ فطرت ہوتا ہے۔ فطرت اُسے جو کچھ دکھاتی ہے ‘وہ اُسے بیان کرتا ہے۔ وہ صاف صاف بیان کرتا ہے‘ لیکن سُننے والے سمجھ نہیں سکتے۔ سامعین حیران ہوتے ہیں کہ اُس نے کون سا اخبار پڑھ لیا ہے۔ یہ شخص بہک تو نہیں گیا۔ لیکن نہیں۔ وہ بہکتا نہیں۔ فطرت بہکنے والوں کے ذریعہ سے کوئی پیغام نہیں بھیجتی۔ یوں بھی جاننے والوں اور نہ جاننے والوں میں فرق رہتا ہے۔
اُسی طرح جس طرح جاگنے والوں اور سونے والوں میں فرق ہے۔ 
ہر دَور میں جاننے والوں نے نہ جاننے والوں کو اپنے علم سے متعارف کرایا ہے۔ سُننے والوں کو یقین آئے نہ آئے ‘یہ الگ بات ہے۔ 
فی الحال اِس سے بحث نہیں۔ یقین اگر اہلِ نظر کی بات کی تصدیق سے پہلے آئے تو بہتر‘ ورنہ بے کار۔ اگر حادثہ گزر جائے تو یقین کا فائدہ ہی کیا؟ مثلاً اگر کوئی بتانے والا یہ بتائے کہ سانپ آرہا ہے تو اِس سے پہلے کہ بتانے والے کی تحقیق کی جائے‘ بہتر یہی ہے کہ سانپ کا تدارک کر لیا جائے، پھر دیکھا جائے کہ خبر صحیح تھی یا غلط…دونوں حالتوں میں ہم محفوظ رہتے ہیں۔
 
اگر ہم مسلمانانِ پاکستان اپنی حالت کا مسلمانانِ عالم کے پس منظر میں جائزہ لیں تو بات سمجھ میں آسکتی ہے۔ آئیے غور کریں کہ دُنیا کے مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے۔ 
ہندوستان کے مسلمان کس حال میں ہیں؟ وطن میں غریب ُالوطن! 
ایران کس حال سے گُزر گیا۔ عراق کس حال میں ہے اور ہمارا پڑوسی مسلمان(مُلک) افغانستان کس صُورتِ حال سے دوچار ہے؟ لبنان، فلسطینی مسلمان، افریقہ کے مسلمان‘ سب پر کیا مُسلّط ہے۔
 
ہمیں اپنی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ہم ایک خطہٴ امن بنے ہوئے ہیں…ہم گوشہٴ عافیّت میں ہیں… سوال یہ ہے کہ کیوں اور کب تک؟ 
ہم میں کیا خصوصیت ہے؟ کیا ہم بہت ہی لاڈلے ہیں؟ ہماری حالت باقی مسلمانوں کی حالت سے مختلف کیوں ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری باری آنے والی ہو اور ہم بے خبر اپنے حال میں مگن ہوں…بس یہی ہے وہ خبر‘ جسے نظر کہا جاسکتا ہے!! 
اب ہمارا عمل بدلنا چاہیے ‘ ورنہ ہم بھی کسی ناخوشگوار واقعہ کی نذر ہو سکتے ہیں۔
دُنیا میں زلزلے آرہے ہیں اور ہم بھی دنیا میں رہتے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو‘ لیکن ایسے ہو تو سکتا ہے۔ 
خدانخواستہ کسی ڈیم کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو معلوم ہو جائے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں… خدا نہ کرے ایسا ہو…لیکن ایسے ہو تو سکتا ہے۔ 
خدا نہ کرے کہ کوئی جنگ ہو۔ لیکن ہر روز کی خبریں‘بار بار جنگ کے اِمکانات کا ذِکر… جھوٹ ہو‘ اللہ کرے …لیکن اگر سچ ہو تو؟ اندرونی خلفشار طاقت نے دبا رکھا ہے۔
اگر خدا نہ کرے ‘کوئی لاوا ابُل پڑے… تو…کیا ہو گا؟ 
ہماری سرحدوں کی حالت تشویشناک نہیں‘ لیکن تسلّی بخش بھی تو نہیں۔ ایسی حالت میں کچھ بھی کسی وقت ہو سکتا ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو‘ لیکن ہو تو سکتا ہے! 
اِسلام کے حوالے سے اَفغانستان ہم سے کم مسلمان نہیں اور طاقت کے لحاظ سے ہم کسی دشمن سے زیادہ نہیں۔ نتیجہ کچھ بھی تو ہو سکتا ہے! 
آنے والا زمانہ‘ جانے والے زمانے سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔
غور کیا جائے … اگر ہمارے ساتھ خدانخواستہ ایسا ویسا واقعہ یا حادثہ ہو گیا‘ تو ہمارے لیے جائے مفر نہیں۔ ہم ہر طرف سے محصُور ہیں۔ 
ہمیں اپنے دامن میں کوئی ایسا کام بھی تو نظر نہیں آتا‘جس سے ہم کسی ناگہانی سے محفوظ رہنے کا حق حاصل کریں۔ ہمیں اللہ پر بھروسہ ہے اور اللہ سب مسلمانوں کا بھی تو اللہ ہے۔ اب مستقبل کا دار و مدار صرف اَخُوّت پر ہی ہو سکتا ہے اور شومئی قسمت کہ ہم میں اَخُوّت ہی تو نہیں۔
 
ہمیں صرف گفتگو، لائحہ عمل، صرف بیانات سے آگے نکلنا چاہیے۔ ہمیں علم سے نکل کر عمل کے میدان میں اُترنا چاہیے۔ وحدتِ عمل، وحدتِ کردار…یہی اور صرف یہی ہمارے لیے راہ ِنجات ہے۔ 
شاعرِمِلّتِ اِسلامیہ اقبال# نے جب یہ کہا کہ 
# وطن کی فکر کر‘نا داں مصیبت آنے والی ہے
تو اُس کا مخاطب کوئی بھی زمانہ ہو سکتا ہے ‘اور ہو سکتا ہے کہ ہمارا ہی زمانہ ہو۔
اہلِ نظر شاعر کی نگاہ سے زمان و مکاں کے حجابات اُٹھ چکے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے زمانے سے کسی بھی زمانے کو کوئی سا پیغام دے سکتا ہے۔ اقبال# دیکھ رہا تھا‘ آنے والوں کو …جانے والوں کو… اقبال# کی زبان سے بولنے والی کوئی بھی ذات ہو سکتی ہے۔ اقبال# خود کہتا ہے: 
 ع نکلی تو لب ِاقبال# سے ہے نہ جانیے ہے یہ کس کی صدا 
تو…غور کا مقام ہے …بڑے غور کا مقام ہے۔
 
ہمارے اندیشے اتنے بے سبب بھی نہیں۔ آنے والا دَور اِتنا خوشگوار بھی نہیں کہ ہم غفلت میں ہی اُس کا اِنتظار کریں۔ 
ہو سکتا ہے… اور بہت کچھ ہو سکتا ہے!!! 
اگر اینٹوں میں وحدت نہ رہے‘ تو دیوار اپنے بوجھ سے گِر بھی سکتی ہے۔ 
تقریریں‘ مذہبی اور سیاسی ‘صرف تقریریں، صرف خطابات، بیانات اور صرف الفاظ سے قوم کی تاریخ مستحکم نہیں ہُواکرتی۔
قومیں عملِ پہیم سے بنتی ہیں۔ہماراقومی عمل کیا ہے؟ ہم جس درخت کے سائے میں بیٹھے ہیں‘ جس کا پھل کھا رہے ہیں‘ اُسی درخت کی قدر نہیں کرتے۔ اُس کی حفاظت کے لیے متحد نہیں ہوتے۔ ہم کیا کرتے ہیں؟ 
اگر سورج کی کرنیں سورج کو ہی چاٹ لیں تو کیا ہو گا؟ اگر الفاظ کی بے معنی کثرت الفاظ کی حُرمت ختم کر دے ‘تو کیا ہو گا؟ اگر مساجد کی تعداد بڑھ جائے اور نمازیوں کی تعداد کم ہو جائے تو کیا ہو گا؟ 
اگر قوم میں بازو بھی نہ ہو اور قوّتِ ایمان بھی نہ ہو‘ تو کیا ہو گا؟ 
اگر آدھا راستہ طے کرنے کے بعد مسافر بددل ہو جائیں تو کیا ہو گا؟… آگے جانے کا عزم نہ رہے اور پیچھے کو لوٹنا ممکن نہ ہو‘ تو کیا ہو گا؟ 
اگر زمین پر گناہوں کا بوجھ بڑھ جائے‘ اگر مکان اپنے مکینوں سے نالاں ہوں … اگر اِنسانوں کا اپنا باطن اُن کے اپنے ظاہر سے پریشان ہو… توکیا ہو گا؟
اگر ہمیں یہود سے توقع ہو کہ وہ ہنود کے مقابلے میں ہمیں ترجیح دیں گے‘ تو کیا ہو گا؟ اگر شاعر، ادیب، دانشور‘ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی نہ کر سکیں‘ تو مُلکی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کون کرے گا؟ 
اگر ہم آپس میں مہربان نہ ہوں‘ تو دُشمن کے مقابلے میں متحد کیسے ہوں گے؟ 
اگر بِلّی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر لے… تو کیا ہو گا؟ اگر سچّے دِین کی تبلیغ کرنے والے خود سچّے نہ ہوں‘ تو تبلیغ کی تاثیر کیا ہو گی؟
اگر غلاموں کے ساتھ بہتر سلوک کا ذکر کرنے والے اپنے نوکروں کے ساتھ بدسلوکی کریں…تو نتیجہ کیا ہو گا؟ 
اگر غفلت اور خوش فہمی اور خوش اعتمادی کی وجہ سے ایک دفعہ ملک ٹُوٹ چکا ہو اور قوم کے مزاج اور عمل میں فرق نہ آیا ہو… تو غور کا مقام ہے۔
 
اگر… اور یہ بہت بڑا اگر ہے …کہ 
اگر دِین ‘خوشنودیٴ رسول ﷺ اور خوشنودیٴ خدا کا نام ہو‘ اور خدا اور مصطفےٰ ﷺ ہم پر راضی نہ ہوں… تو… ہم کِدھر جائیں گے؟ 
اب اِس مقام پر کسی پیش گوئی اور کسی بحث کے تکلّف کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ اِبتلا کا وقت ہے۔ 
کیا ہم غور کرنے کی تکلیف گوارا کر سکتے ہیں؟ 
کیا ہم ماضی سے سبق حاصل کر سکتے ہیں؟ 
کیا ہم دوسرے مسلمان ممالک سے سبق حاصل کر سکتے ہیں؟ 
کیا ہم ایک دوسرے کو معاف کر سکتے ہیں؟ 
کیا ہم ایک دوسرے سے معافی مانگ سکتے ہیں؟
کیا ہم حق بات کہنے کی جرأت کر سکتے ہیں؟ 
کیا مشائخِ کرام واقعی متحد ہو سکتے ہیں؟ 
کیا علماء ایک مسلک پر متفق ہو سکتے ہیں؟ 
کیا سیاست دان سچ اور صرف سچ بول سکتے ہیں؟ 
کیا طاقت ‘خوف کے بجائے محبت پیدا کر سکتی ہے؟ 
کیا آج کے بچوں کو آنے والے زمانوں کے خوشگوار ہونے کی گارنٹی دی جا سکتی ہے؟ 
کیا آئندہ کسی ٹُوٹ پھُوٹ کے نہ ہونے کا یقین ہو سکتا ہے؟ 
کیا ہم پُرانے زخموں کے لیے مرہم تیار کر رہے ہیں یا کسی نئے زخم کا انتظار کر رہے ہیں؟ 
اِس سے پہلے کہ ہم پر رحمت اور توبہ کے دروازے بند ہوں‘کیا ہم اپنی فکر اور زندگی کو بدل سکتے ہیں؟ 
کیا ہم دُشمن کی چال سے بے خبر ہیں…؟دُشمن کی اصل قوّت ‘دوستوں کی جدائی میں ہے۔
کیا ہم اُتنا اِسلام بھی نہیں رکھتے ‘جتنا قائداعظم کے پاس تھا؟ اُس صاحبِ ایمان کے پاس صرف صداقت تھی، جذبہ تھا، دیانت تھی، خلوص تھا۔ بس یہی کچھ تو تھا۔ اُنہوں نے نہ کسی سے کلمہ سُنا، نہ کسی کو قرآن سُنایا۔ اُنہو ں نے صِرف مسلمانوں کے لیے، اُن کی فلاح کے لیے، اُن کی اپنی حکومت کے لیے ‘ایک مُملکت بنا کر دِکھا دی۔ اعجاز ہے … اور ہم اِس مُملکت میں کیا کیا کر چکے ہیں… کیا کیا کر رہے ہیں۔
ہم یقینا جواب دہ ہیں۔ شہدائے وطن کے سامنے، شہدائے مِلّت کے سامنے، خدا کے سامنے اور پھر حضور ﷺ کے سامنے! بات علم کی نہیں‘ عمل کی ہے… خالص عمل، اِسلامی عمل، صداقت و دیانت کا عمل، رحمت و محبت کا عمل ۔ہم سب ایک کشتی میں سوار ہیں، ایک اُمّت ہیں، بحث کی ضرورت نہیں…غور کا مقام ہے …دُعا کی گھڑی ہے …کہ خدا کرے وہ واقعہ ہی ٹل جائے … جس کا ذِکر نہیں کیا جا سکتا۔ وہ واقعہ ہی ایسا ہے کہ لب پہ آسکتا نہیں۔

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif