Episode 6 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 6 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

تقرّبِ الٰہی (۲)
عجب بات تو یہ ہے کہ اللہ کے مُقرّب ‘اِنسانوں کے قریب رہتے ہیں۔ کہیں اِنسان کا قُرب ہی اللہ کا قُرب نہ ہو! وہ جو صرف اللہ کے قریب تھا اور انسان کے قریب ہونے سے منکر ہُوا‘ اُس کا حشر تو سب کو معلوم ہی ہے۔ 
اللہ سے پیار کرنے والے‘ اللہ کے کام سے پیار کرتے ہیں۔ خالق کی عزّت کرنے والے ،خالق کا ادب کرنے والے ‘خالق کے عمل کا احترام کرتے ہیں اور خالق کا عمل مخلوق کو پیدا فرمانا ہے۔
اللہ کریم نے بڑے وثوق سے اِنسان کو تخلیق فرمایا۔ اِنسان کو” احسنِ تقویم“ کہا گیا۔ اللہ جب کسی کو اپنی بارگاہ میں مقبول فرماتا ہے تو اُسے مخلوق کی خدمت اور مخلوق سے محبت کا راستہ عنایت فرماتا ہے۔ 
اللہ نے اپنے سب سے پیارے اِنسان ﷺ‘ اپنے محبوب اِنسان ﷺکو سب جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔

(جاری ہے)

اللہ اور اُس کے فرشتے نبی ﷺ پر دُرُود بھیجتے ہیں اور حضور ﷺاللہ سے محبت فرماتے ہیں اور آپ مخلوق کے لیے باعثِ رحمت ہیں۔

اللہ کے تقرّب کی راہ ‘ مخلوق کی خدمت اور محبت کی راہ ہے۔ مخلوق کو نا پسند کرنے والا کبھی خالق کا مُقرّب نہیں ہو سکتا۔ مخلوق کو ڈرانے والے، مخلوق پر حکومت کرنے کی تمنّا کرنے والے‘ خالق کے باغی ہیں۔ مخلوق کے لیے رحمتِ مجسّم‘ خالق کے لیے، خالق کی نگاہ میں خیر البشر ﷺ ہیں۔ اللہ کے تقرّب کا ثبوت مخلوق سے محبت میں پنہاں ہے۔ حضور ﷺکی تمام زندگی مخلوق سے محبت کی زندگی ہے۔
آپ ﷺنے جانوروں سے ،پرندوں سے، انسانوں سے‘ غرض کہ اللہ کریم کی پیدا کی ہوئی ہر ذی جان و بے جان شے سے محبت فرمائی۔ آپ ﷺکا دِل یادِ الٰہی سے معمور ہے اور آپ ﷺکا عمل خدمت ِخلق کا دستور ہے۔ فنکار سے محبت دراصل اُس کے فن سے محبت ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ اللہ سے محبت کرنے والا‘ اللہ کی مخلوق سے محبت نہ کرے۔ دراصل محبت کرنے والا ہی خدمت کرنے والا ہے۔
 
خالق نے اپنی ذات کو مخفی رکھا ہے اور صفات کو آشکار فرمایا ہے۔ ذات سے محبت ہو تو صفات کا احترام لازم ہے۔مُقرّبینِ حق ہمیشہ اِنسانوں کی خدمت کرتے رہے، اُنہیں صداقت کی راہ دکھاتے رہے، اُن کی مشکلات کو آسان فرماتے رہے اور اُن کے ظاہر و باطن کی خدمت کرتے رہے۔ خدمت …مخلوق کی اور تقرّب… خالق کا۔ یہ راز ہر مُقرّب پر عیاں ہوا۔ عبادت بھی تقرّبِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔
اگر عبادت ہی تقرّب کا ذریعہ ہوتی تو اِنسان پر زندگی کے دیگر فرائض نہ عائد کیے جاتے۔ 
قرآن کریم میں اللہ نے اپنے تقرّب کی جتنی راہیں دکھائی ہیں‘ اُن میں سجدے کے علاوہ سب راہیں مخلوق سے محبت کی راہیں ہیں۔ 
اولاد کے لیے ماں باپ کا ادب‘ اللہ کے قُرب کا ذریعہ ہے۔ یعنی ماں باپ کی خدمت کرنے والا اللہ کا مُقرّب ہوتا ہے۔ ہمیشہ سچ بولنے والا یعنی لوگوں سے صداقت کی بات کہنے والا مُقرّب ہے۔
اِنسانوں پر ظلم نہ کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔ غصّہ نہ کرنے والا، لوگوں کو معاف کر دینے والا، لوگوں پر احسان کرنے والا‘ اللہ کو محبوب ہے۔ 
زمین پر اِترا کر نہ چلنے والا اِنسان اللہ کو پسند ہے۔ وہ اِنسان جس کا دِل محبت سے سرشار ہے‘ اللہ کے قریب ہے۔ اللہ سے محبت ہی اِنسانوں سے محبت ہے۔ اللہ کے مُقرّب کسی کے لیے بد دُعا نہیں کرتے، کسی پر ظلم نہیں کرتے، ظالم ہونے پر مظلوم ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اللہ کے مُقرّب دُنیا کے عبرت کدے میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اِنسانوں کی دُنیا میں‘ اِنسانوں سے حُسنِ سلوک ہی راہِ حق ہے۔ 
اللہ کے نام پر خیرات اِنسانوں کو دی جاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اِنسانوں کی خدمت کے لیے خرچ کرنا ہے۔ یتیم کی خدمت کسی اِنسان کی خدمت ہے، غریب کی مدد کسی اِنسان کی مدد ہے۔ بیمار پُرسی کسی اِنسان کے لیے ہے۔
ماں باپ اِنسان ہیں۔ اللہ کی اطاعت‘ پیغمبر کی اطاعت سے مشروط ہے اور پیغمبر ﷺاِنسانوں کی طرح اِنسان ہیں۔ اُن پر وحی کا نزول ہوتا ہے اور وحی کی تعلیمات اِنسان کو رحمتِ عالم ﷺ بنانے کا علم ہے … گویا کہ اِنسان ‘اِنسانوں کے قریب ہو جائے تو اللہ کے قریب ہو جاتا ہے۔ ایک اندھا آدمی اگر توجہ سے محروم ہو جائے تو آسمانوں سے فرشتہ وحی لے کر آتا ہے کہ اے حبیب ﷺ! اُس اندھے کی طرف توجہ نہ کر کے اللہ کو بہت خوش تو نہیں کیا! 
اللہ نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے ‘اِنسانوں کی دنیا میں۔
اگر اپنے پاس ہی رکھنا ہوتا تو اللہ اپنے پاس ہی رہنے دیتا۔ اِس دُنیا میں آنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اِس دُنیا کی رونقوں میں رہ کر اللہ کو یاد رکھا جائے، اللہ کا تقرّب تلاش کیا جائے۔ 
اللہ کی تلاش اِنسان کو کسی اِنسان ہی کے پاس تو لے جاتی ہے۔ اللہ کا راستہ تنہائی میں دریافت ہوتا ہے اور یہ راستہ اِنسانوں میں رہ کر طے کیا جاتا ہے۔ اگر اِنسان کے لیے صرف یادِ حق ہی سب کچھ ہوتی‘ تو مُقرّب ﷺکی ذات غارِ ِحرا سے باہر نہ آتی۔
جو اِنسان اللہ کے جتنا قریب ہو گا‘ اُتنا ہی مخلوق کے قریب ہو گا۔ اللہ کے قریب رہنے والے پیغمبروں کو مخلوق کے قریب ہی دیکھا گیا۔ اللہ کا قُرب یقینا مخلوق کا قُرب ہے لیکن مخلوق کا قُرب ضروری نہیں کہ اللہ کا قُرب ہو۔ یہ راز جاننا ضروری ہے۔ 
اِنسان اگر مخلوق کی خدمت، مخلوق سے محبت ‘ اپنے کسی مقصد کے حصول کے لیے کرتا ہے تو یہ عمل اللہ کے تقرّب کا باعث نہیں۔
اگر مخلوق کی خدمت اللہ کی رضا کے لیے ہو‘ تو یہ عمل باعثِ قُربِ حق ہے۔ نہیں تو نہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے جدا ہو رہے ہیں۔ ایک دُوسرے سے نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ وجہ یہ بیان ہوتی ہے کہ ہم یہ برداشت نہیں کرتے کہ لوگ ہمارے عقیدے کے علاوہ عقیدہ رکھیں وغیرہ وغیرہ! 
اگر ہم ٹھنڈے دِل سے غور کریں تو بات سمجھ میں آسکتی ہے۔
ہم جسے برداشت نہیں کرتے ‘اُسی کو تو اللہ نے پیدا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کائنات میں اپنے نہ ماننے والوں کو خود پیدا فرما کر بڑے راز عیاں فرمائے ہیں۔ اللہ اپنے نہ ماننے والوں کو صرف پیدا ہی نہیں فرماتا‘ اُنہیں رِزق عطا فرماتا ہے۔ اُن کی دنیاوی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے۔ اُنہیں پالتا ہے۔ اُن کی حفاظت کرتا ہے۔ اللہ چاہے تو اُنہیں پیدا ہی نہ فرمائے۔
اُنہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست ونابود کر دے۔ وہ خالق ہے۔ اُس نے ہر طرح کی مخلوق پیدا فرمائی ہے۔ اللہ نے اعمال کے نتیجے کے لیے ایک دِن مقرر فرما رکھا ہے۔ اللہ کے باغی ایک آنے والے دِن کو اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھیں گے۔ دیکھیں گے اور افسوس کریں گے۔ افسوس کریں گے اور کہیں گے ”کاش ! ہم مٹی ہی ہوتے۔“ وہ دِن ‘اُس دِن سے پہلے کیسے آئے! 
اللہ کے مُقرّب اِس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ کافر کو دینِ حق کی دعوت اِس لیے دی جائے کہ اللہ کی رضا ہے ‘بس اِسی حد تک۔
تبلیغ کو اپنی ذاتی اَنا کا مسئلہ نہ بننے دیا جائے۔ اللہ کے نام کی دعوت بھی دو اور اللہ کی منشا کے مطابق اُسے زندہ رہنے کا حق بھی دو۔ 
تقرّبِ حق کی منزل بڑی کٹھن ہے۔ اللہ کی رضا پر اپنی رضا کو نثار کر دینا قرُبِ حق ہے۔ اللہ کی مخلوق کو اللہ کی مخلوق سمجھنا قرُبِ حق ہے۔ یہ جان لینا کہ یہ سب مخلوق، یہ سب تخلیق‘ عین حق ہے۔ یہ سب باطل نہیں۔
اللہ کی کائنات میں کچھ بھی تو باطل نہیں۔ خیر ہو یاشر‘اُس کی تخلیق کے رنگ ہیں۔ اللہ کی دُنیاپر ‘یعنی خیر کی دُنیا پر… ”شر“ کسی اور جہان سے حملہ آور نہیں ہوتا۔ یہ اِسی دُنیا کا حِصّہ ہے ،اُسی خالق کی تخلیق۔ ابلیس ‘اللہ کے مقابلے میں ایک اور مساوی اور مخالف طاقت نہیں۔ ابلیس‘ اللہ کی مخلوق میں ایک باغی اور منکر طاقت ہے، اللہ ہی کی مخلوق، اللہ کے قبضہٴ قدرت میں، اپنی بغاوت اور سر کشی کی میعاد میں مہلت مانگنے والا، اپنی آخری سزا کا منتظر، اللہ کی رحمت سے مایوس، اپنی نا مرادی اور عبرت سے آشنا‘ اللہ کا باغی تو ہے‘ اُس کا مقابل نہیں۔
ابلیس مخلوق ہے، اللہ خالق ہے۔ برابری کیسے؟ 
اللہ کے مُقرّب جانتے ہیں کہ اللہ کا ہر عمل درست ، اُس کا ہر فعل مبارک۔ مُقرّب ‘گِلہ اور شکوہ نہیں کرتا۔ تقرّبِ حق کی منزل جھگڑے اور فساد کی منزل نہیں۔ یہ تسلیم و رضا کی منزل ہے، محبت و ایثار کی منزل ہے، یقین وایمان کی منزل ہے، عقل و آگہی کی منزل ہے، سوزو عشق کی منزل ہے، یقینِ بے گماں اور سرُورِ جاوداں کی منزل ہے، کائنات کو جلوہ ٴ حق سمجھنے کی منزل ہے، اِنسانوں سے پیار کی منزل ہے، خالق سے مخلوق اور مخلوق سے خالق شناسی کی منزل ہے، وحدت سے کثرت اور کثرت سے وحدت کے جلوے تلاش کرنے کی منزل ہے، یہ بے تاب دِل اور مُتحیّر دماغ کی منزل ہے۔
تقرّبِ الٰہی کی منزل‘ عرفانِ مخلوق سے عرفانِ خالق تک کا سفر ہے۔ مخلوق کی خدمت ‘خالق کی خدمت ہے… مخلوق سے محبت ‘ خالق سے محبت ہے اور مخلوق کو نا پسند کرنا ‘خالق کی محبت سے محروم ہونے کی دلیل ہے۔ جس نے خالق کا تقرّب حاصل کر لیا‘ اُس پر مخلوق کا راز مُنکشف ہو گیا۔ مخلوق کا راز تقرّبِ حق کے اَسرار میں سب سے بڑا راز ہے۔ جس پر یہ راز آشکار ہو گیا‘ اُس کے دل سے محبتِ الٰہی کے چشمے پھوٹ نکلے۔ اُس کا مخلوق کے لیے سراپا رحمت بن جانا ہی اُس کے تقرّبِ حق کی سب سے بڑی اور سب سے قوی دلیل ہے۔ سلام ہو اُس مُقرّب ِحق کی خدمت میں‘ جس کا لقب ہی رحمتہ اللعالمین ﷺہے! 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif