Episode 14 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 14 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

رِفعت ِ خیال
رِفعت ِخیال ‘ پستی ٴ حیات میں پیدا نہیں ہوسکتی۔ پاکیزگی ٴ افکار کے لیے پاکیزگی ٴ کردار کا ہونا لازمی ہے ۔ حسنِ خیال کسی کوشش کا نام نہیں ، کسی جستجو کا مقام نہیں ، محض تمنّائے تخیّل یا حصولِ تخّیل کا ذریعہ نہیں ۔ اَرفع خیال عنایت ہے ،عطا ہے، فضل ہے اور یہ عطا گنہگار اور خطا کار کے لیے قطعاََ نہیں … لطافت ِخیال کو اگر جبریل  کہہ دیا جائے تو نزولِ افکارِ عالیہ یا نزولِ جبریل  کسی کافر یا گمراہ کے لیے نہیں ۔
جبریل ‘ ماننے والوں اور مقدّس نفوس کو دولت ِاَفکار کے خزانے مہیا کرتا ہے۔ ناپاک زندگی ‘ پاکیزہ خیال سے محروم رہتی ہے۔ رِفعت ِخیال کو جاننے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ پستی ٴ حیات کیا ہے؟ وہ کونسا اندازِ حیات ہے ‘جس کے نصیب میں تخیّل کی بلندی یا رِفعت ِخیال نہیں ہے۔

(جاری ہے)

لالچ یا لوبھ اِنسان کی زندگی کوپَست کر دیتا ہے ۔ اشیا کا حصول ، مال کی تمنّا، مرتبوں کی حسرت ‘ اِنسان کو اور اِنسان کے باطن کو صحرا کی ویرانیاں عطا کرتے ہیں ۔
لالچ زدہ دِل ‘ہمیشہ خوف زدہ رہے گا۔ خوف کبھی بلند پرواز نہیں ہو سکتا۔ لالچ ‘ظاہر کی زندگی پر زور دیتا ہے اور خیال ‘باطن کا عروج ہے۔ لالچی انسان کے نصیب میں باطن آشنائی نہیں ہوتی۔ اشیا کا حصول ،اشیا کی محبت ،اشیا کی نمائش ،اشیا کا غرور‘ فنا کے دیس کی باتیں ہیں‘ اور بلند افکار یا بلندیٴ نگاہ ‘بقا کی بستی کے نشانات ہیں ۔ فنا ‘ فنا ہے، بقا ‘ بقا…یعنی خیال کی بلندی ‘بقا کی دنیا ہے اور بقا کا سفر اُس وقت تک نا ممکن ہے ‘ جب تک فنا اور فنا کی محبت سے نجات نہ حاصل کر لی جائے۔
 
جب اِنسانوں کا گھر سامان سے بھرا ہوا ہو، دِل تمناؤں سے بھرا ہوا ہو ، پیٹ خوراک سے بھرا ہوا ہو‘ تو ایسی حالت میں ذہن کا خالی ہونا لازمی ہے ۔ پیسہ گننے والا خیال کی بلندیوں کو کیا جانے ۔ بلند خیال اِنسان ‘ اشیاء کے حصول اور اپنے حصول پر غرور سے آزاد ہوتا ہے ۔ وہ جانتا ہے اگر مکان اپنے مکینوں کی پہچان ہے ‘تو مکین مر چکے ہیں۔ اُن کا ہونا ‘نہ ہونے کے برابر ہے ۔
اُن کا اپنا مکان اُن کے اپنے آپ سے زیادہ اہم ہے۔ اُن کا حاصل اُن کی اپنی زندگی سے زیادہ ضروری ہے۔ بس یہی رکاوٹ ہے بلند خیالی میں … بلند خیال انسان‘ اپنے مکان کی خود پہچان ہے۔ وہ جہاں بھی رہے ‘ وہ جگہ اُس کے دم سے پہچانی جائے گی۔ بلند خیال مکین ‘اپنے مکان کی خود ہی زینت ہے ۔ اُسے کسی اور شے کی ضرورت نہیں‘ جس سے مکان کو سجایا جائے۔
اُس نے اپنے مکان کو اپنی ذات سے عزت بخشی اور اپنے آپ کو بلند خیالی سے معزز کیا ۔ وہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے کسی اور دُنیا میں رہتاہے ۔ پست خیال اِنسان اپنے وجود کو پا لتا ہے اور بلند خیال اِنسان اپنے وجود کو اُجالتاہے ۔ وہ خود سوزِ دوام کے سفر پر رہتا ہے۔
پست خیال اِنسان ‘آکاس بیل کی طرح خود پھیلتا ہے اور دُوسروں کو پھیلنے سے روکتا ہے۔
وہ دُوسروں کو اُن کے حقوق سے محروم کر کے اپنے نفس کی تسکین چاہتاہے ۔ بلند خیال اِنسان شمع کی طرح جلتا ہے اور روشنی دیتا ہے۔ جلتا ہے ، روشن رہتا ہے۔ بلند خیالی روشنی ہے ۔ وہ روشن رہتا ہے ، روشن کرتا ہے اور پھر اپنے اصل کی طرف یعنی نور کی طرف رجوع کر جاتا ہے۔ اُس کی زندگی دُوسروں کے لیے اور دُوسروں کے دُکھ اپنے لیے۔ وہ بلند خیال ہے ۔
پست خیال کو ہم خیال بنانا اُس کا دِین ہے ، اُس کا مذہب ہے ، اُس کا منصب ہے۔
ہر پست خیال ‘خود غرض ہوتا ہے اور ہر بلند خیال ‘بے غرض ۔بہر حال حصول اور وصول کی تمنّا اِنسان کو پستی میں جکڑ دیتی ہے ۔ پست اِنسان سے اگر اللہ پوچھیں کہ تم کو بہشت میں بھیجوں یا دوزخ میں تو فوراََ کہہ اُٹھے گا …”جناب !جہاں دو پیسے کا فائدہ ہو ‘ وہیں بھیج دو“… ”فائدہ“ پست اِنسان کا پسندیدہ شغل ہے۔
وہ ہر بات میں فائدہ تلاش کرتا ہے۔ ہر کام میں فائدہ۔ وہ فائدے حاصل کرتارہتا ہے اور زندگی ضائع۔ فوری فائدہ اُس کواصل فائدے سے متعارف ہی نہیں ہونے دیتا۔اصل فائدہ … زندگی آسان ہو ،سادہ ہو، پُرسکون ہو،اندیشوں سے آزاد ہو، دشمنوں سے نجات ہو،زندگی بھی آسان ہو اور موت بھی آسان ‘یہ زندگی بھی آسان اور وہ زندگی بھی آسان۔ پستی ٴ افکار‘مابعد کو فراموش کر دیتی ہے۔
انسان اپنا مستقبل محفوظ کرنا چاہتا ہے لیکن مستقبل قریب یعنی اپنے ہونے تک کا مستقبل… حالانکہ اُس کا مستقبل ،اُس کا قریب کا مستقبل ،اُس کا مابعد،قریب کا مابعد‘ اُس کی اولاد بھی ہے۔
اولاد بھی اِنسان کا مابعد ہے ‘قریب کا مابعد۔ بلند خیال اِنسان اپنے اِس مابعد کو بھی توجہ دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بلند خیال یا بلندیٴ خیال یا رفعت ِخیال وراثت نہیں چھوڑتا ‘ لیکن بلند فکری کا اصل نقطہ اصلاحِ فکر ہے۔
صاحبِ خیال اپنی اولاد سے مقابلہ نہیں کرتا ‘حصولِ اشیاء کا مقابلہ۔ وہ اپنی اولاد کو دعوتِ نگاہ دیتا ہے۔ دعوتِ خیال دیتا ہے۔ اولاد کو اُس کی فطری صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر بیٹا ‘باپ کی فکر، باپ کے تخیّل اور باپ کے حُسنِ خیال کا شاہد نہ ہو‘تو دونوں کا مابعد خطرے میں ہے‘ لیکن ایک استثناء کے ساتھ، اگر باپ نوح ہو‘ تو بیٹا … باپ کے حسنِ خیال سے محروم بیٹا…طوفان کی نذر ہو گا۔
باپ کی دُعا اُسے بچا نہیں سکتی۔ اگر بیٹا ابراہیم  ہو تو اپنے حسنِ خیال کے وثوق سے باپ کو دعوت دے اور اِنکار کی صورت میں صنم خانہٴ آذری تباہ و برباد ہو جائے۔
بہر حال حسنِ خیال ‘دعوتِ خیال ہے اور یہ دعوت ‘محبت اور ہمدردی سے دی جاتی ہے۔ لوگوں کو آنے والے زمانوں کی طرف اِشارے کیے جاتے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانے دُہرا کر سنائے جاتے ہیں ۔
لوگوں کو ہوس پرستی اور ذات پرستی یعنی خود پرستی کے خوف ناک نتائج سے آگاہ کرنا ‘ بلند نظری کا مطمحِ نظر ہوتا ہے۔ غیروں کو محبت سے دعوت دی جاتی ہے۔ اپنوں کو صرف اطلاع ہی کافی ہے…اور اگر اپنے قبول نہ کریں تو اپنے …کیسے اپنے! جدا کر دےئے جاتے ہیں!! بہر حال بلند خیالی کی بات ہو رہی ہے۔ بلند خیالی کی وضاحت کیا ہے؟ وہ کیا شے ہے ‘جسے بلند خیالی کہا جا سکتا ہے؟
کیا بلند خیالی یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر آسمان کی باتیں سوچی جائیں ؟ نہیں قطعاََ نہیں ۔
بلکہ اِس کے برعکس ‘ بلند خیالی یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر یہ نہ بھولنا کہ ہم زمین پر بیٹھے ہیں اور زمین پر بیٹھنے والے‘ خواہ کتنا ہی اکڑ اکڑ کر چلیں ‘ آخر زمین کے اندر سماجاتے ہیں۔ مطلب یہ نہیں کہ ہم زمین پر چلنا چھوڑ دیں ‘ اِس لیے کہ اِس کے اندر سما جانا ہے‘ نہیں قطعاََ نہیں ۔ صاحبانِ خیال اپنے اعمال کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ اُتنا بوجھ اٹھاتے ہیں ‘ جس سے سفر آسان رہے۔
ہر شے ہر وقت حاصل کرنے کی تمنا‘ لاحاصل ہے۔رفعت ِخیال ‘ایثار میں پلتی ہے۔ ایثار‘ دراصل فروغِ خیال کا واحد ذریعہ ہے… مجبوری ہے۔
مجبوری یہ ہے کہ رفعت ِخیال ‘ خوش خیالی یا خوش فہمی نہیں ۔رفعت ِخیال اظہار میں ضرور آتی ہے اور اِس اظہار سے لوگوں کے لیے منفعت ہے ۔ صاحبِ خیال کے لیے خیال صرف سوز ہے، وجدان ہے۔ خیال‘ خیال نہیں ہے ‘جذبہ ہے ۔
سورج کے پاس دُنیا کے لیے روشنی ہے ، اپنے لیے آگ… آگ … الاؤ …تپش … سوز … جلنا اور مسلسل جلنا! …تو مجبوری یہ ہے کہ اگر اِنسان بخیل ہو تو اُسے رفعت ِخیال کیسے مل سکتی ہے۔اُسے سورج کون بنائے گا ‘ جو روشنی دینے سے اِنکار کرے ۔ مزاج میں سخاوت اور ایثار نہ ہو‘ تو کبھی رفعت ِخیال نہیں مل سکتی… رفعت ِخیال اپنے پاس رہے ‘تو خیال نہیں رہتا۔
اپنا خیال‘ دینے سے اپنا کہلاتا ہے۔ 
مجبوری یہ ہے کہ زندگی کے تمام اثاثوں میں ،تمام خوبیوں میں ،تمام حاصل میں سب سے قیمتی ،سب سے اعلیٰ شے ،حسنِ خیال ہے۔ جو شخص کسی کو اپنامال ‘ جو خیال کے مقابلے میں کم تر اَثاثہ ہے ‘ نہیں دے سکتا ‘ وہ کسی کو بلند خیالی کیسے دے گا؟… اور بلندی خیال نہ دینے والا‘بلندیٴ خیال رکھ نہیں سکتا‘ یعنی جس کے مزاج میں دینا نہیں ہے ‘ اُس کے نصیب میں بلند خیالی نہیں ۔
تم مال تقسیم نہیں کرتے ‘خیال کیسے بانٹو گے؟…یہی مجبوری ہے اور اِس کا علاج یہ ہے کہ اپنے حاصل کو تقسیم کرو ، اپنے حال میں شریک کرو، اپنے آپ کو دُوسروں کے لیے سمجھو… یعنی جو تم نے دیا‘ وہ تمہاری بلندی ہے۔ جو تم لیتے ہو ، جمع کرتے ہو،جس کا اپنی ذات تک استعمال رکھتے ہو ، جس پر مغرور ہو،جس حاصل سے لوگوں کو افسردہ کرتے ہو،جس مرتبے سے اُنہیں ڈراتے ہو، جس علم کے ذریعے لوگوں کو پریشان کرتے ہو ‘ سب خود غرضی ہے ‘ سب پست خیالی ہے … کیونکہ بلند خیالی ایثار ہے۔
روشنی دینا ‘اور آگ میں جلنا … بلند خیال لوگ‘ فطرت کے انوکھے شاہکار ہیں ۔ اُن کو الگ رازِ ہستی ملا۔ اُن کو نئے معنی ملے زندگی کے۔ اُن کو حاصل اور محرومی کے نئے رُخ سے آشنائی ہوئی۔ بلند خیال‘ کامیابی اور ناکامی کے مفہوم‘ حقیقی مفہوم سے آشنا ہوتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کسی مقصد میں کامیاب ہونا ‘ زندگی کی کامیابی تو نہیں۔ گناہ میں کامیابی ‘ زندگی میں ناکامی ہے۔
ایک سخی غریب ‘صاحبِ خیال ہو سکتا ہے اور ایک بخیل امیر‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محرومِ خیال…بہر حال رفعت ِخیال کی تمنا ہو تو مال اور مرتبے کی آرزو سے نجات ضروری ہے۔ لذّتِ وجود سے گریز کرنے والے رفعت ِخیال سے آشنا کرائے جاتے ہیں ۔ دُوسروں کے دَرد کو اپنا دَرد سمجھنے والوں کو بلند خیال عطا کیا جاتا ہے۔ خدمت ِ اِنسانیت کے مخلص جذبے کو فطرت خود خیال کے زیور سے آراستہ کرتی ہے۔
بلند خیالی اِنسان کا وہ حاصل ہے ‘ جو کوشش سے نہیں‘ نصیب سے ملتا ہے۔ بلند خیال اِنسان‘ خاک نشیں ہو‘ تب بھی عرش نشیں ہے۔رفعت ِخیال چونکہ عطا ہے‘ اِس لیے صاحب ِخیال ہمیشہ عطا ہی کرتا ہے۔اگر کمائی ہوتی ‘تو ہمیشہ سنبھال کر رکھی جاتی، اگر سامان ہوتا ‘توسجایا جاتا … اگر مرتبہ ہوتا ‘تو لوگوں کو ڈرایا جاتا… لیکن یہ تو عطا ہے… دینے والے کا عمل ، دینے والے نے دینے کے لیے دیا۔
پس دینے والوں کو اور ایثار کرنے والوں کو بلند خیالی اِس لیے ملی کہ وہ خود چراغ کی طرح جلیں اور روشنی بانٹیں ۔ بخیل ،مطلب پرست، طالب ِزر سوچتے جائیں کہ یہ سب کیا ہے؟ بس خیال ہی تو ہے، رفعت ِخیال ہو ‘تو کیا ہے؟ رفعت ِ خیال ‘نعمت ِپروردگار ہے ۔ زندگی میں حاصل ہونے والا اور زندگی کے بعد بھی رہنے والا سرمایہ‘ یہی رفعت ِ خیال ہی تو ہے۔

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif