Episode 15 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 15 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

بارِ تسلیم 
ایک محدود اور مختصر زندگی میں اِنسان کس کس کی لاج نبھائے۔ سب واجبُ الاحترام ہیں۔ سب لائقِ تعظیم ہیں۔ سب صاحب ِارشاد ہیں۔ سب قابلِ تقلید ہیں‘ لیکن مجبوری تو یہ ہے کہ عرصہٴ حیات ہی قلیل ہے۔ اِس میں اِتنی تسلیمات اور اِتنی اطاعتوں کا پورا ہونا ممکن ہی نہیں۔ ہم پر کثرت ِقائدین کا خوفناک تسلّط ہے۔ کثیر المقصدیّت کا شدید دباؤ ہے۔
ہم پر اعصاب شکنی کی وبا نازل ہو چکی ہے۔ مجبوریوں کے حِصار میں جکڑے ہوئے اِنسان پراطاعتوں کی یلغار ہے۔ اِنسان جائے تو کہاں جائے! 
اللہ کے احکامات ہی لیجیے۔ اللہ کے احکام تو بس اللہ کے احکام ہیں۔ اِرشادات ِباری تعالیٰ ایک زندگی کے لیے بس کافی ہیں۔اوامرو نواہی کا سلسلہ‘سلسلہ ہائے روزو شب سے زیادہ ہے اور زندگی ہے کہ گردشِ روزگار کی چَکّی میں ہے۔

(جاری ہے)

 
آج کے دَور میں ایک اِنسان بے شمار طاقتوں کے سامنے جوابدہ ہے۔ وہ کرے تو کیا کرے۔ اپنی اِصلاح کی طرف توجہ کرے، اپنے باطن کی سیاہیوں کو دُور کرے ،اپنے پیٹ کی آگ کو بجھائے، اپنی پیشانی کو سجدوں سے سَرفراز کرے، اپنی راتوں کو قیام و رکوع و سجود کی دولت سے مالا مال کرے… اگر کسی طریقے سے ایسا کر ہی لے تو اُسے رَمُوزِ مُملکت سے آشنائی کیسے ہو۔
”درویش“ سر براہ‘ بالعموم مخلوق کو خالق کے حوالے کر کے اپنی عاقبت کو روشن کرتے رہتے ہیں۔ ”اللہ والے“ اکثر مخلوق سے ایسے بے نیاز سے ہو جاتے ہیں جیسے خدا نہ کرے وہ مخلوق کے خالق ہوں۔ بے نیازی خالق ہی کو زیب دیتی ہے‘ کیونکہ وہ کسی کے آگے جوابدہ نہیں ۔سر براہ بے نیاز ہو جائیں تو اُنہیں غافل سربراہ کہا جاتا ہے ،اور غافل سُلطان ‘رعایا پر ایک آزمائش کی گھڑی ہوتا ہے۔
 
مشکل تو یہ ہے کہ خدا کو راضی کرنا الگ بات ہے اور مخلوق کو راضی کرنا اور شے ہے۔ دونوں کو بیک وقت راضی رکھنا بہت مشکل ہے۔ جب تک حالات یکساں نہ ہوں‘تسلیم یکساں نہیں ہو سکتی۔ تسلیم یکساں نہ ہو‘تو سلوک یکساں نہ ہو گا اور سلوک یکساں نہ ہو‘تو سب کا راضی ہونا نا ممکن ہے۔ نیک سربراہوں کا پریشان ہونا فطری بات ہے۔ اللہ کے احکام کی اطاعت میں پورا اُترنے کے لیے پوری زندگی بھی کافی نہیں۔
 
اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اللہ کے حبیب ﷺ کی اطاعت بھی لازمی ہے۔ آپ ﷺکا ہر عمل سُنت ہے اور اُس کی پیروی لازم ہے۔ ہم آپ ﷺکے اقوال و احادیث یاد کر کے اطاعت کا فرض ادا کرتے ہیں۔ اور آپ ﷺکا عمل… اگر ہم آپ ﷺ کے اعمال کی اطاعت کریں تو کوئی اِنسان پیوند والے لباس سے زیادہ بہتر لباس زیب ِتن نہ کرے۔ آپ ﷺسُلطانُ السّلاطین ہیں اور آپ ﷺکی زندگی معمولی اِنسان سے بھی زیادہ معمولی۔
اللہ اور اللہ کے فرشتے آپ ﷺپر دُرُود بھیجتے ہیں اور آپ ﷺ فاقے سے گُزر رہے ہوتے ہیں۔ آپ ﷺنے تمام زندگی کسی اِنسان سے ذاتی اِنتقام نہیں لیا۔ 
ہم آپ ﷺکی اطاعت کو جزوِ ایمان سمجھتے ہیں اور ہم آپ ﷺکی اطاعت کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ ہماری مختصر زندگی میں آپ ﷺکی سیرت ِطیّبہ کا علم حاصل کرنا بھی آسان نہیں۔ آپ ﷺکی احادیثِ مُبارکہ کا علم حاصل کرنا ہمارا ایمان ہے‘ لیکن ہمارے لیے آسان نہیں۔
ہمیں اور بھی غم ہیں۔ ہم تسلیم کا بار کیسے اٹھائیں گے۔ 
اگر اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺکی اطاعت تک بات ہوتی تو خیریت تھی… ہمارے لیے اور بھی فرائضِ تسلیم ہیں۔ قرآن کا علم، قرآن فہمی، قرآن دانی‘ جبکہ ہم عربی زبان سے اِتنے آشنا بھی نہیں۔ مختصر زندگی میں قرآنِ کریم کا علم حاصل کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔ اپنی زندگی کو منشائے قرآن کے مطابق بسر کرنا فرض ہے، سعادت ہے‘ لیکن ”ایں سعادت بزورِ بازونیست“۔
ہماری زندگی…اگر اِسے ساٹھ سال ہی مان لیا جائے‘ تو اِس زندگی میں بیس سال سے زیادہ نیند کا عالم ہے۔ اِس زندگی میں سے کچھ سال بِک جاتے ہیں۔ ہم زندگی بیچ کر زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ زندگی کا پریشر‘بس پریشر کُکر ہی ہے۔ اِنسان پِستا جا رہا ہے۔ ہم لوگ پُوری محنت کرنے کے بعد بھی زندگی کی ضروریات پُوری کر سکنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ضرورت کے پاؤں‘ حاصل کی چادر سے باہر ہی رہتے ہیں۔
 
ہم لوگ ملازمتوں سے ریٹائر ہو کر اُنہی مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں‘جن کے علاج کے لیے ملازمت کی تھی اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پھر کسی ملازمت کی تلاش ہوتی ہے ۔ پھر کسی کرائے کے مکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے۔ حالات کا حکم نافذ رہتا ہے اور ہم اطاعت میں مصروف ہوتے ہیں۔ کِس کِس کا حُکم مانا جائے۔
ضرورت کا حُکم ،بیماریوں کا حُکم ،سماج کا حُکم اور پھر مذہب کا حُکم ،اس پرمُستزاد حکومت کے اَحکام!
بات یہاں تک ختم ہو جاتی ‘تو گُزر مُمکن ہونے کی صورت رہ جاتی… ہم پر اور بھی اطاعتیں واجبُ الادا ہیں۔ صحابہ کرام کے اِرشادات ہمارے لیے مینارہٴ نور ہیں۔ ہم جان پر کھیل کر بھی اُن کی اطاعت کریں گے۔ آئمہ کرام کی اطاعت، فقہ کی اطاعت، اور پھر اولیائے کرام، علمائے حق کے ارشادات ہمارے لیے جادہٴ حق کے رَوشن سنگِ مِیل ہیں۔
ہم اطاعت پر مجبور ہیں اور اِس مجبوری پر مسرور ہیں۔ اِتنی مجبوریوں میں اور بھی آوازیں شامل ہو جاتی ہیں۔ اِقبال کے اِرشادات‘کبھی اپنے من میں ڈوب جانے کا حُکم ، کبھی زمان ومکاں توڑ کر نکل جانے کا حُکم !اقبال کی اطاعت ہم فرزند ِاقبال سے زیادہ تو نہیں کر سکتے۔ الحمدُللہ بچت کی راہ ابھی باقی ہے۔ ورنہ اقبال آشنائی کے فرض سے کوتاہی کے اِحساس سے شرمندگی میں ڈوب کر مر جانے کا مقام پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔
ہمیں اقبال سے محبت ہے، ضرور ہے‘ لیکن اِتنی محبت تو ،مُمکن ہی نہیں جتنی اولاد کو باپ سے ہو سکتی ہے۔ ہم عظیم اِنسان کے نام لیوا ہیں۔ اُس کے وارث تو نہیں۔ تسلیم کا بوجھ اُتنا اُٹھائیں گے ‘جتنا ہمارے حِصّہ میں آیا!
ہم پر قائداعظم کے اِرشادات کی تسلیم کا حق ادا کرنے کا فریضہ عائد ہوتا ہے۔ قائداعظم کا ہر قول ہمارے لیے قولِ سدید ہے۔
قائداعظم کی زندگی بھی ہمارے لیے ایک عملی نمونہ ہے۔ اُس کا اِسلامی تشخّص بھی ہمارے لیے نمونہ ہے۔ جتنا اِسلامی عمل قائداعظم اور اقبال کے پاس تھا‘ بس اُتنا ہی اِسلامی عمل ہمیں منظور ہے ‘ لیکن ہمارے عُلما اُتنے عمل سے راضی نہیں ہوتے۔ 
سوال یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ ایک زندگی میں ہم کِس کِس کی زِندگی کو نمونہ مانیں اور ایک دماغ سے کِس کِس کی بات کو قولِ فیصل مانیں اور ایک دِل سے کِس کِس سے محبت کریں۔
ہمارے لیے تسلیم کا بار‘ بارِگراں ہے۔ 
اگر ہم اللہ کے محبوب ﷺکی اطاعت ہی اپنے لیے فرض سمجھ لیں تو بھی کسی اور کا کچھ بھی فرمایا ہوا ہمارے لیے قابلِ تقلید کیوں ہو… ہُوا کرے کوئی‘ جو بھی ہو… اِبنِ مریم ہی سہی۔ ہم ٹھہرے ‘غلامانِ رسول ﷺ۔ ہم پر کوئی اور اطاعت مسلط ہو‘ تو کیوں ہو۔ ہمارا یہ سوال ہے مفکرینِ اِسلام کی خدمت میں…!! 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif