Episode 26 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 26 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

عذاب 
عذاب اور عبرت کے الفاظ سننے میں بھی سخت ہیں اور سمجھنے میں بھی۔ عذاب کسے کہتے ہیں… عذاب اُس وقت کا نام ہے‘ جب اِنسان اَپنے اَعمال کا نتیجہ اَپنے سامنے دیکھے۔ اِنسان کی بداعمالیاں جب ایک خوفناک نتیجہ بن کر اُس کی راہ میں آموجود ہوں‘ عذاب کا لمحہ ہے۔ 
فطرت‘ اِنسان کی لغزشوں اور بد اعمالیوں کو اکثر معاف کرتی ہے۔ اِنسان اپنے اعتقادات کا مذاق اُڑاتا ہے۔
وہ سرکشی کرتا ہے، وہ لاف زنی کرتا ہے۔ وہ خود کو خود ساختہ مالک و مختار سمجھتا ہے، وہ اطاعت سے رُوگردانی کرتا ہے اور اگر اطاعت کرے بھی تو اُس کا معاوضہ اِس شکل میں وصول کرتا ہے کہ لوگ اُس کی اطاعت کریں…فطرت خاموش رہتی ہے… سرکشی جاری رہتی ہے‘ اور پھر ایک ایسا لمحہ آتا ہے کہ ظالم کا ہاتھ معصوم کی طرف اُٹھتا ہے… مجبور پر اُٹھتا ہے… مظلوم کی فریاد‘ فطرت کو اِنصاف کے لیے پکارتی ہے۔

(جاری ہے)

بس فطرت جب اِنصاف کرنے پر آجائے تو سمجھ لیجیے کہ عذاب کا وقت آگیا… کسی اِنسان کے کون سے اَعمال کسی اِنصاف کے کیسے منتظر ہو سکتے ہیں… انصاف‘ بس قیامت ہے‘ عدالت رحم نہیں کرتی۔ جب رحم نہ رہے تو اَعمال کا نتیجہ سوائے عذاب کے اور کیا ہو سکتا ہے!
عذاب کے لمحات‘ محاسبے کے لمحات ہیں، عبرت کی گھڑیاں ہیں… قیامت کا منظر ہے۔ 
عذاب کا وقت وہ وقت ہے‘ جب اِنسان سے دُعائیں چھِن جائیں… جب اِنسان گُتھیوں کو اپنی عقل سے سلجھانا چاہے اور عقل سے وہ گُتھیا ں مزید اُلجھ جائیں‘ تو سمجھ لیجیے کہ عذاب قریب ہے۔
عقل اور صرف عقل ‘ طاقت اور صرف طاقت‘ مسائل کا حل نہیں دے سکتے۔ جب تک اُس کا فضل حاصل نہ ہو‘ ہمارے تمام کام اور ہمارا تمام حاصل‘ ہمارے لیے عذاب لکھ رہے ہیں… ہم خوداپنے لیے اپنے ہاتھوں سے عذاب لکھتے ہیں۔ 
یتیم کا مال کھانے والا کتنی خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ اُسے کوئی روک نہیں سکتا… مال کا مالک یتیم ہے، محروم ہے اور غاصب اپنی قوت میں ہے۔
وہ یتیم کا مال ہڑپ کر جاتا ہے‘ بس یہاں سے ہی عذاب کی اِبتداء ہوتی ہے۔ یتیم کا مال، یتیم کا حق، یتیم کا حصہ پیٹ میں جائے ‘تو ایسے ہے جیسے پیٹ میں آگ… اور عذاب کسے کہتے ہیں… جب اِنسان کا لالچ، اُس کی عقل‘ اُسے آگ نگلنے پر مجبور کر دے۔ عذاب کو ہم خود ہی دعوت دیتے ہیں۔ ہوس ِزَر پرستی‘ اِبتدائے عذاب ہے۔ 
جب اِنسان کے دِل سے اِنسانوں کا اِحترام اُٹھ جائے تو سمجھ لیجیے کہ عذاب کا دَور آ گیا۔
عذاب کے زمانے ‘بد اعتمادی اور بد نظمی کے زمانے ہیں۔ جب اِنسان دوستی‘ اِنسان دشمنی میں تبدیل ہو جائے تو آغازِ عذاب ہے۔ اِنسان جب اِنسانوں کو خوفزدہ کرے یا اُن سے خوفزدہ رہے‘ تو اور عذاب کیا ہے! تعجب تو یہ ہے کہ ہر اِنسان ہر دوسرے اِنسان کو بُری نگاہ سے دیکھے اور افسوس تو یہ ہے کہ کوئی کسی کاپُرسانِ حال نہ ہو… ہر طرف قیل و قال ہو اور حال یہ ہو کہ بس بُرا حال ہو… ہر طرف مسیحاؤں کا ہجوم ہو اور مریض دَم توڑ رہا ہو… خدا خوفی نہ رہے‘ تو مخلوق خوفی کی وَبا پھیل جاتی ہے… اور عذاب کی اِنتہائی صورت یہ ہے کہ عذاب نازل ہو رہا ہو اور لوگ بدمستیوں اور رنگ رَلیوں میں محوہوں…پانی سر تک آنے والا ہو اور اِنسان ٹس سے مَس نہ ہو۔
 
عذاب کے زمانے ہر دَور میں مختلف انداز سے آتے ہیں۔ جب اَولاد ‘ماں باپ سے باغی ہو اور ماں باپ ‘اولاد سے بے خبر ہوں تو کسی مزید عذاب کا کیا تذکرہ؟ 
آج کے اِنسان کے لیے آج کا عذاب ہے… آج کی بداعمالیاں آج کی سزا کی منتظر ہیں… جب اِنسان کے پاس آسائشیں ہوں اور سکون نہ ہو‘ تو عذاب ہے… جب محافظ موجود ہوں اور حفاظت عنقا ہو‘ تو عذاب ہے… جب نیکی‘ بدی نظر آئے اور بدی‘ محترم مانی جائے ‘تو عذاب ہے۔
عذاب کا وقت خدا کسی پر نہ لائے… وہ وقت کہ جب مسلسل سفر ہو رہا ہو اور فاصلے نہ کٹتے ہوں‘ تو عذاب قریب ہوتا ہے۔ ایسا وقت کہ اِنسان پر بغیر قصور اور بغیر کسی جرم کے مصیبتیں نازل ہوں اور وہ فریاد تک نہ کر سکے‘ عذاب کا وقت ہے۔ عذاب اُس وقت کو بھی کہتے ہیں کہ مبلّغ‘ تبلیغ کرے اور سامعین مذاق اُڑائیں ۔ جب محسن کُشی وبا کی شکل اختیار کر لے‘ عذاب ہے۔
 
عذاب کا لمحہ‘ وہ لمحہ ہے جب کرنیں اپنے سورج کو چاٹنے لگ جائیں، جب شاخیں اپنے درخت کو کھا جائیں، جب اعضا اپنے وجود سے کٹ جانا چاہیں، جب اجزا اَپنے کُل سے منحرف ہوں، جب اپنی صورت اپنی صورت نہ رہے، جب نہ ہونا‘ ہونے سے بہتر ہو، جب آدھا راستہ طے کرنے کے بعد مسافر سوچنے لگ جائیں کہ یہ سفر بے کار ہے… عذاب ہی عذاب ہے… اُس مسافر کے لیے جس کے لیے اپنے سفر میں کوئی دلچسپی باقی نہ رہے، آگے جانے کی خواہش نہ رہے اورلَوٹ جانا ناممکن ہو۔
جب اِنسان اپنے ماضی سے کٹ جائے اور مستقبل واضح نہ ہو‘ قافلے منتشر ہو جاتے ہیں اور رہنماؤں کی کثرت ہوتی ہے۔ عذاب ہے ایسی مسافرت‘ جس میں سفر کا انجام بھی سفر ہو… جس میں ہم سفر صرف اندیشہ ہو… ایسا سفر جیسے صحرا میں رات کی تنہائی میں ایک مسافر‘ جسے اپنی آواز سے ڈر لگتا ہے… ہولناک سنّاٹے میں چیخ کی آواز‘ عذاب کا اعلان ہے۔ 
جب اِنسان اپنے دیس میں خود کو پردیسی محسوس کرے‘ تو عذاب ہے۔
جب اپنے گھر میں اِنسان خود کو مہمان محسوس کرے‘ تو عذاب سے کم نہیں۔ جب آوازوں کا اِتنا شور ہو کہ اِنسان کی گویائی آواز کے سمندر میں ڈُوب جائے ‘تو دُکھ کا زمانہ ہے۔ جب سورج روشنی دینا بند کر دے‘ تو عذاب ہے۔ جب زمانہ اَمن کا ہو اور حالات جنگ سے ہوں‘ تو عذاب ہے۔ 
طُرفہ عذاب تو یہ ہے کہ دِلوں سے مروّت نکل جائے، اِحساس ختم ہو جائے، ہمدردی کے جذبات سرد پڑ جائیں اور اِنسان کھوکھلی آنکھوں سے جلتے ہوئے گھر اور ڈُوبتے ہوئے سہارے دیکھ رہا ہو… جب فریاد زبان پر آنے سے پہلے زبان کٹ جائے … جب اِنسان کے پاس راز ہو اور اُس کا کوئی محرمِ راز نہ ہو… جب آنکھوں میں آنسو ہوں اور اُس کے گِرد جشن منانے والے درندے ہوں… جب وحشت رقص کرے اور معصومیّت کے جنازے اُٹھ رہے ہوں… عذاب ہے۔
میرا رُوئے سخن خدانخواستہ کراچی کی طرف نہیں… قطعاً نہیں‘ کیونکہ کراچی جس عذاب سے گزرا ہے‘ اُس کے لیے کوئی بیان ممکن نہیں۔ وہاں جو ہُوا‘ نا قابل ِ بیان ہے۔ وہ عذاب تھا، عتاب تھا، قیامت تھی کہ کیا تھا۔ اِتنے مہذب زمانے میں، اِتنے بڑے شہر میں‘ اِتنے غیر مہذب واقعات ۔ جس نے سنا‘ اُسے اپنی سماعت عذاب لگی، جس نے دیکھا‘ اُسے اپنی بصارت عذاب نظر آئی۔
ایسے واقعات سننے سے بہتر تھا کہ ہم بہرے ہو جاتے، ایسے واقعات دیکھنے سے بہتر تھا کہ ہم اندھے ہو جاتے۔ اشرف المخلوقات میں درندگی‘ عذاب کی نوید ہے۔کِس کِس نے کیسے کیسے یہ سانحہ لکھا‘ اِس سے بحث ہمارا کام نہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری تاریخ کا تازہ زخم کراچی کا سانحہ ہے۔ اِس سانحہ سے ہزاروں سانحے یاد آسکتے ہیں۔ یہ زخم پُرانے زخموں کو ہرا کر سکتا ہے۔
معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی‘ اُن تمام درندگیوں کی اِنتہا ہے جنہیں خاک و خون کے واقعات کہا گیا۔ عذاب یہ نہیں کہ کیا ہوا‘ عذاب تو یہ ہے کہ اِس واقعے کے پیچھے کیا ہے اور اِس سے آگے کیا ہو گا۔ طوفان گُزر جائے تو بھلا‘ اگر طوفان رُک جائے تو خطرہ موجود ہے۔ آگ بجھ جائے تو اچھا‘ ورنہ دبی ہوئی آگ زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔ کہیں نہ کہیں‘ کچھ نہ کچھ ہے۔
ہم پہلے بھی حادثے سے گُزر رہے ہیں۔ بازو کٹ چکا۔ اب حادثے کیا چاہتے ہیں ہم سے… کیا ہمیں مایوسی کے حوالے کیا جا چکا ہے کہ ہم پر وبائیں نازل ہیں۔ کیا ہم پر توبہ کے دروازے بند ہو چکے ہیں کہ ہم سے دعائیں چھِن چکی ہیں۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ہمارے دَروازوں پر بیرونی خطرات بھی دستک دے رہے ہیں۔ کیا اندرُونی اِنتشار بھی بیرونی خطرے کا شاخسانہ ہے۔
کیا کشتی اور کنارے میں ہمیشہ کے لیے جدائی ہو چکی ہے۔ کیا ہم ایک ظالم قوم ہیں۔ کیا ہم بے حس ہیں۔ کیا ہم بے بس ہیں۔ کیا ہماری آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ کیا ہم آنے والی نسلوں کو جوابدہ نہیں ہوں گے۔ کیا ہم پر کوئی اور یومِ حساب نہ آئے گا۔ کیا ہمارا حساب ‘ عذاب کے علاوہ کچھ نہیں۔ کیا ہم نشے میں ہیں؟ غفلت کا نشہ ، بے حسی کا نشہ، اپنی خود غرضی کا نشہ۔
کیا ہم سے ہمارا مستقبل ناراض ہے۔ کیا ہم سے ہمارا ماضی کٹ چکا ہے۔ کیا ہم نا قابلِ اصلاح ہو چکے ہیں۔ کیا اُس کی رحمت نے ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ ہم کیوں عذاب میں ہیں!! اے مالک !ہمیں ہمارے اَعمال کی زَد سے بچا۔ ہمیں ایک دُوسرے کے حوالے نہ کر، ہمیں اپنی رحمت اور اپنے فضل کے حوالے رکھ۔ کیا یہ مُمکن نہیں کہ جس قوم سے خطا ہو جائے‘ اُس پر بھی تیری عطا ہو جائے… ہو تو سکتا ہے۔تُو اگر چاہے تو رات سے دن پیدا ہو،مُردہ سے زندہ پیدا ہو، خزاؤں سے بہار پیدا ہو۔ نفرت سے محبت پیدا ہو۔تُو چاہے تو مدّھم رَوشن ہو جائے۔ ہمارے مالک !ہم پر اپنی رحمت کے دروازے کھول، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمیں عذاب سے بچا…!! 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif