Episode 21 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 21 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

بلا سبب
کچھ لوگوں کا خیا ل ہے کہ اِس دُنیا میں نہ کوئی انعام ہے نہ سزا ، یہاں صرف وجوہات ہیں اور نتائج ۔ اِنسان کا ہر عمل یا تو کسی سبب کا نتیجہ ہے یا کسی نتیجے کے لیے نیا سبب ہے ۔ اَسباب و نتائج کایہ سلسلہ زندگی کا مقدّر بن کے رہ گیا ہے۔ اِنسان جتنا عمل کرے گا ، اُتنا ہی حاصل کرے گا۔ محنت کرنے والا کامیاب ہو گا ۔ تلاش کرنے والا حاصل کرے گا ۔
مانگنے والے کو دیا جائے گا ۔ کھٹکھٹانے والے کے لیے دَروازہ کھولا جائے گا۔ بس عمل کرتے جاؤ، نتیجہ حاصل کرتے جاؤ۔ بُرے اعمال کو بُرا نتیجہ ملے گا ، اچھے اعمال کو اچھا۔
زِندگی کا یہ تصور اپنی جگہ درست ، لیکن زِندگی اپنے دامن میں اسباب و نتائج کے رِشتوں کے علاوہ بھی بہت کچھ رکھتی ہے۔ زندگی میں بے سبب نتائج اور بے نتیجہ اسباب کی اتنی کثرت ہے کہ اسباب و نتائج کا سلسلہ قائم رہنا مشکل ہے ۔

(جاری ہے)

یہ تو روز مرّہ کا مشاہدہ ہے کہ یکساں محنتیں یکساں نتیجہ پیدا نہیں کرتیں ۔ ایک مارکیٹ میں دوکاندار صبح سے شام تک یکساں محنت کرتے ہیں اور شام کونتیجہ یکساں نہیں ہوتا۔ ایک کو نقصان اور دوسرے کو نفع۔ اپنے گھر کو پُر سکون بنانے کے لیے سب کوشش کرتے ہیں ، لیکن سارے گھر پُر سکون نہیں ہوتے۔ محنت ہوتی ہے لیکن سکون نہیں ملتا۔
سکون یا اطمینان محنت کا نتیجہ نہیں ‘یہ نصیب کی عطا ہے۔
اگر اِنسان کی زِندگی میں نصیب ، مقدّر یا منشائے اِلٰہی کا دخل نہ ہوتا ‘تو اسباب و نتائج کا رشتہ سائنس کے اصول کی طرح ہمیشہ قائم رہتا ، لیکن ایسا نہیں ۔ اِس لیے کہ اِنسان کے عمل میں فطرت کا دخل ہے ، گردشِ روزگار کا دخل ہے، حالاتِ زمانہ کا دخل ہے۔کوششیں اپنی ذات تک تو نتیجہ دے سکتی ہیں ‘ لیکن جب اِنسان دُوسرے اِنسانوں سے متعلق ہوتا ہے تو کوشش کے باوجود متوقع نتائج برآمد نہیں ہوتے۔
اِنسان اپنے راستے پر صحیح سفر کر رہا ہو ‘ تو بھی اُسے کسی اور کی غلط رَوی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ حادثہ ‘سبب کو نتیجے سے محروم کرنے والے واقعہ کا نام ہے ‘ اور زِندگی حادثات کی زَد میں رہتی ہے۔ یہ چراغ ہمیشہ نامعلوم آندھیوں کی زد میں رہتا ہے۔اِسی طرح اگرنصیب ساتھ دے اور کوئی شعیب میسّر آئے تو شبانی کو کلیمی بنا دیتا ہے۔ اِس میں محنت کا اِستحقاق نہیں ۔
یہ اَزلی نصیب ہے۔ یہ قدرت کے اپنے جلوے ہیں ۔ فطرت کی اپنی عطا ہے۔ مالک کی اپنی منشا ہے۔ ہر محنت کرنے والا با مراد نہیں ہو سکتا ۔
 دنیا میں بے شمار محنتیں رائیگاں ہو کر رہ گئیں۔ بے شمار مسافر منزلوں سے محروم رہے۔ بے حساب اسباب اپنے نتائج نہ دیکھ سکے۔ کم و بیش ہر اِنسان زندہ رہنے کے لیے کوشش کرتا ہے اور زندہ رہنے کی کوشش نے ہی اِنسان کو موت تک لانا ہے۔
یہ ایسا نتیجہ ہے ‘جو اپنے سبب کے بالکل برعکس ہے۔ زندگی پیدا کرنے والے کا یہ اِرشاد ہے کہ وہ جسے چاہے عزت دے ، جسے چاہے ذِلّت دے۔ وہ جسے چاہے ملک عطا کرے اور جسے چاہے معزول کر دے ۔ وہ جسے چاہے بے حساب رزق دے ، جسے چاہے اُس کے گناہ معاف فرما دے اور اُس کی سابقہ برائیوں کو اچھائیوں میں بدل دے۔ جسے چاہے ‘جب چاہے پیدا فرما دے اور جب چاہے‘ اُسے واپس بلا لے۔
 
خالق کا عمل‘ اِنسانی زِندگی میں شامل رہتا ہے اور خالق کا عمل کسی سبب کامحتاج نہیں ۔ وہ خود مسبّب ہے اور قادرِ مطلق ہے۔ اِسی لیے اِنسانی زِندگی اسباب و نتائج کے فارمولے میں قائم نہیں رہتی۔ دو کسان اپنے اپنے کھیت میں ہل چلاتے ہیں ، بیج بوتے ہیں، بارش کا انتظار کرتے ہیں ، بادل برستے ہیں‘ایک کھیت سیراب ہو جاتا ہے اور دُوسرا خشک رہتا ہے۔
یہ عمل ہر سطح پر ہے۔ زندگی میں ایسے واقعات بھی دیکھے گئے ہیں کہ ایک سبب کبھی ایک نتیجہ پیدا کرتا ہے اور کبھی دوسرا نتیجہ…پہلے سے بالکل مختلف اور برعکس ! 
زِندگی کو سائنس بنانے والے، زِندگی کو فارمولا بنانے والے ، زِندگی کو ریاضی کے اصول بنانے والے لوگ ‘زِندگی کی نغمگی ، زِندگی کے حسن‘ زندگی کے لطف اور زِندگی کے باطن کی جلوہ گری سے اکثر محروم رہتے ہیں۔
زِندگی صرف اصول ہی نہیں ‘ حسن بھی ہے، محبت بھی ہے، جلوہ بھی ہے ۔ ہمارے اعمال کیا اور ہمارے نتیجے کیا! اُس کا فضل نہ ہو تو انسان اپنے عمل کے زُعم میں ہی تباہ ہو جائے۔ کیا گمراہ ہونے والا راستہ طے نہیں کرتا؟ کیا گنہگار محنت نہیں کرتا ؟ کیا غلطی عمل نہیں ہے؟ کیا ملاوٹ کرنے والا محنت نہیں کرتا؟ کیا ساری سیاسی جماعتیں محنت نہیں کرتیں ؟ کیا کچھ محنتیں رائیگاں نہیں جاتیں ؟ کیا ہر سبب نتیجہ دے سکتا ہے؟ کیا ہر بیج اُگتا ہے؟ کیا ہر عالم دانا ہوتا ہے؟ کیا ہر سفر آسودہٴ منزل ہوتا ہے؟ کیا مخلص دوستوں کا میسّرآنا کسی سبب کا نتیجہ ہے؟ کیا حالاتِ زمانہ کا سازگار ہونا ہمارے عمل کا نتیجہ ہے؟ کیا خوبصورت چہرہ اِنسان کا اپنا عمل ہے؟ کیا مکھی نے محنت کر کے شہد بنانے کا فارمولا حاصل کیا ہے؟ کیا سیّارے اور ستارے سفر کرتے کرتے تھک تو نہیں گئے؟ کیا چاند اور سورج کسی اور سبب کے نتائج ہیں یا کسی اور نتیجے کے اسباب؟ کیا بنانے والے نے زندگی میں دخل دینا چھوڑ دیا ہے؟ کیا علاج نے بیماری کو مسخّر کر لیا ہے؟ کیا دوا سائنس بن گئی ہے؟ کیا دُعا کی ضرورت ختم ہو گئی ہے؟ کیا اِنسان بھول گیا ہے کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے اُس کا ذکر تک نہیں تھااور آج سے کچھ عرصہ بعد پھر اُس کا ذکر تک نہ ہو گا؟ کیا اِنسان سبب اور نتیجے کے حوالے سے فطرت اور فاطر سے باغی تو نہیں ہو رہا؟ کیا غرورِ نفس ‘اِنسان کو اُس مقام تک لے آیا ہے جہاں وہ اپنے بازوؤں کو قادر سمجھ رہا ہو؟ اپنی قوت کو اپنا مقدر سمجھ رہا ہو؟ کیا وہ جانتا نہیں کہ پسند کی جانے والی ہر چیز اُس کے لیے مفید نہیں اور ناپسند ہونے والی ہر چیز اُس کے لیے مضر نہیں؟کیااِنسان کویادنہیں کہ فرعون کے تمام”اسباب“، اُس کی تمام تر کوشش اُس کے لیے وہ نتیجہ مرتب نہ کر سکی‘ جس کی اُسے ضرورت تھی؟
یہی عجیب بات ہے کہ سبب فرعون ہو‘ تو نتیجہ موسیٰ  نکلتا ہے اور یہی بات اہلِ ظاہر کی سمجھ میں نہیں آتی ۔
جہاں سبب اور نتیجہ کی سائنس ختم ہوتی ہے، وہاں سے رضا اور نصیب کی حد شروع ہوتی ہے …اور رضا ‘ رضا ہے ، چاہے تو محنت کو مراد دے اور چاہے تو محنت کے بغیر با مراد کر دے۔
بے عقیدہ اِنسان صرف سبب کو مانتا ہے اور صاحبِ عقیدہ اِنسان مسبّب پر ایمان رکھتا ہے۔ بے عقیدہ اِنسان عوام سے قوت مانگتا ہے ۔ صاحبِ ایمان جانتا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ اور قوت کا مرکز اللہ کے علاوہ کوئی نہیں۔ اَسباب و نتائج کا کھیل رضا اور قضا کی زد میں رہتا ہے۔ اپنے اعمال کو دُعا کے سہارے سے محروم نہ ہونے دیا جائے۔ دریا عبور کرنے کے لیے کشتی ضرور سبب ہے ‘لیکن گرداب سے نکلنے کے لیے دُعا کا سفینہ چاہیے۔

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif