Episode 5 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 5 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

تقرّبِ الٰہی (۱)
ہر مُقرب جانتا ہے کہ تقرّبِ الٰہی کی منزل ایک لا محدود سفر ہی کا نام ہے۔ اگر تقرّبِ اِلٰہی کسی مقام کا نام ہے ‘تویہ مقام بذاتِ خود سفر میں ہے۔ خالق کے ساتھ مخلوق کا قُرب کسی فارمولے کا محتاج نہیں۔ ویسے تو ہر مخلوق اپنے خالق سے متعلق رہتی ہے ‘لیکن مُقرّب کا درجہ اُس کے اپنے فضل ہی کا نام ہے۔ آج تک کوئی اِنسان یہ نہیں بتا سکا کہ وہ کون سی صفات یا کون سی صفت ہے جو انسان کو پیغمبر بنا دیتی ہے۔
ہر پیغمبر صاحبِ صفات ہے، معصوم عنِ الخطا ہے ‘لیکن اُس کا پیغمبر ہونا کسی صفت یا صفات کا نتیجہ نہیں بلکہ صفت یا صفات کا ہونا اُس کے پیغمبر ہونے کا نتیجہ ضرور ہو سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ مُقرّب ہونے کے لیے صفات کا ہونا لازمی تو ہے ‘ لیکن کافی نہیں۔

(جاری ہے)

 

کسی پیغمبر کے ماننے والے میں اُس پیغمبر کی صفات ہو سکتی ہیں‘ لیکن اُن صفات کے باوجود صاحبِ مرتبہ کبھی پیغمبر نہیں ہو سکتا۔
مُقرّب کا تقرر ‘ذاتِ حق کے اپنے فیصلے کا نام ہے۔ اِس سے قطعا ًیہ مراد نہیں کہ اللہ کریم کسی کا فریا باغی کو مُقرّب بناتا ہے …بالکل نہیں۔ اللہ کسی کافر کو اگرمُقرّببنانا چاہے ‘تو اُسے پہلے ایمان کی دولت عطا فرماتا ہے۔ یہی راز ہے کہ کسی کافر کے لیے تو دوزخ کا عذاب ہے، اللہ سے دُوری ہے اور کسی کافر کے لیے ایمان کا سرمایہ ہے، تقرّب کی منازل ہیں، سابقون کے درجے ہیں۔
اِسی طرح جو معاشرہ اِخلاقی طور پر اِنحطاط پذیر ہو، باغی ہو، اُسے بالعموم تباہ کر دیا جاتا ہے‘ لیکن اِسلام سے قبل عرب کا معاشرہ ہر برائی رکھتا تھا، تباہ ہونے کے قابل تھا‘ لیکن اللہ نے اپنے فضلِ بے پایاں سے اُسے اپنی رحمت عطا کر دی ‘بلکہ رحمتہ اللعالمینﷺ عطا فرما دیے۔ باغی معاشرے پر اللہ کی رحمتوں کی بارش ‘دُور رہنے والوں کو تقرّب کے مژدے، بد نصیبوں کو خوش نصیبی کی خِلعت‘ اُس کے کام وہی جانتا ہے۔
تقرّب حاصل کرنے کا عمل کوئی عمل نہیں‘یہ فضل کا مقام ہے، اُس کی رضا کی بات ہے اور اُس کی رضا کی بس کیا بات ہے … جو چاہے کرے، جیسے کرے ‘خالقِ مُطلق۔ وہ کسی کے آگے جواب دہ تو نہیں…! 
وہ چاہے تو کسی کو ظلمات سے نکال کر نور میں داخل کر دے، چاہے تو اُس کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے اور کبھی کبھی شانِ بے نیازی‘ کسی کے اعمال یکسر ضائع کر دے۔
اِبلیس حکم عدولی کرے تو اُسے ہمیشہ کے لیے لعین و رجیم قرار دیا جائے۔ آدم  کسی حکم کے پابند نہ رہ سکیں تو اُنہیں خلافتِ اَرضی کے سفر پر روانہ فرما دیا جائے۔تقرّب کی منزل عجب منزل ہے۔ تقرّبِ الٰہی کے جلو ے نارِ نمرود میں بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ مصر کے بازار میں بِکنے والے غلام کو ایسا مُقرّب بنا دیا جاتا ہے کہ اُس کا قِصّہ اَ حسنُ القَصَص بن کر رہ جاتا ہے۔
تقرّب کی داستان‘ کر بلاؤں کا سفر طے کر سکتی ہے۔تقرّب کا فارمولا شہید کے خون سے لکھا جاتا ہے۔ یتیم کے فاقوں سے تقرّب کے نسخے مرتب ہو سکتے ہیں۔ 
ہر ماننے والے مومن کے دِل میں تقرّبِ الٰہی کی خواہش موجود رہتی ہے۔ اِنسان عبادت کرتا ہے، اُس کے حکم کی اطاعت کرتا ہے، اُس کے قُرب کی آرزو کرتا ہے‘ لیکن ہر مومن یکساں طور پر مُقرّب نہیں ہوتا، نہ ہو سکتا ہے۔
کچھ لوگوں کو اللہ خود ہی اولیاء اللہ کے نام سے منسوب کرتا ہے۔ اُن کے لیے خوف اور حُزن کی سختیاں ختم کر دی جاتی ہیں۔ کچھ مومنوں پر گردشِ زمان و مکاں کی منزل مسلّط ہو جاتی ہے۔ وہ مومن ہیں لیکن مصائب وآلام میں گھِرے ہوئے۔ اُن کے دل میں ایمان کا چراغ روشن رہتا ہے ‘لیکن حالات کے تیز طوفان اُن پر حملہ آور رہتے ہیں۔ غریب کا یقین قائم رہے تو وہ مُقرّب ہو سکتا ہے‘ لیکن کبھی کبھی غریب اپنی غریبی سے اتنا مغلوب ُالحال ہو جاتا ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے بھی مایوس ہو جاتا ہے۔
غریبی اِنسان کو جہاں قریب کرتی ہے‘ وہاں اللہ سے دُور بھی کر دیتی ہے۔ 
ایک مُقرّب کا حال کسی دوسرے پر کم ہی عیاں ہوتا ہے۔ تقرّب ایک رمز کی طرح ہے جو محب اور محبوب میں ہوتی ہے۔ ایک مُقرّب کا مرتبہ دوسرے مُقرّب سے بھی پوشیدہ ہو سکتا ہے۔ کبھی کبھی مُقرّب اپنے تقرّب سے خود بھی نا آشنا ہو سکتا ہے۔ 
اِنسان جب تقرّبِ الٰہی کی منزل پر روانہ ہوتا ہے تو اُس کے لیے یہ بھی تقرّب کی دلیل ہے کہ وہ تقرّب کی تلاش میں نکلا ہے۔
تقرّب کا متلاشی اپنے آپ کا جائزہ لے تو اُسے معلوم ہو گا کہ اُس کے وجود کے کسی نہ کسی حِصّے میں تقرّب کی تڑپ موجود ہے۔وہ تڑپ ہی اُس کے لیے تقرّب کے راز فاش کرتی ہے۔ اگر اِنسان کی پیشانی میں تڑپ ہو ‘ تو اُسے اللہ کا قُرب سجدہٴ شوق میں میّسر آئے گا۔ جبینِ شوق جب سجدوں سے سر فراز ہوتی ہے ‘اِنسان تقرّب کی منزل طے کرتا ہے۔ ہر طالب کی جبینِ نیاز میں سجدوں کی تڑپ نہیں ہوتی۔
کچھ لوگ اپنے مالک کا قُرب اپنی مشتاق نگاہی سے تلاش کرتے ہیں۔ وہ کاسہٴ چشمِ تمنّا لے کر نکلتے ہیں اور نظاروں میں اپنے مالک کی جلوہ گری سے لُطف اندوز ہو کر تقرّب کے مدارج طے کرتے ہیں۔ حُسنِ حقیقی کی جلوہ گاہ میں محویت کے مقام سے اُن کا سفر اِلی اللہ شروع ہوتا ہے۔ دراصل سفر اِلی اللہ ہی سفر مع اللہ ہے۔ ایسے مُقرّبوں کے لیے محبوب کا چہرہ خانہٴ کعبہ سے کم نہیں۔
دیدار ِحُسنِ یار ہی اُن کے لیے تقرّب پرور دگار کا سا درجہ رکھتا ہے۔ عشقِ محبوب اگر اُن کی نماز کا امام نہ ہو‘تو وہ اپنی عبادت کو حجاب سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو یہاں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا۔ محرومِ دیدارِ حقیقت کو اندھا کہا گیا ہے۔ 
جس متلاشی کی سماعت بے تاب ہو‘اُسے جلوہ ٴحق کسی نغمے میں محسوس ہو گا۔ گوش ِمشتاق اُس نغمے سے بھی آشنا ہوتاہے جو ابھی ساز میں ہو…یہی وہ مُقرّب ہیں ‘جو ہر نغمے کو آواز ِدوست سمجھتے ہیں اور برحق سمجھتے ہیں۔
 
تقرّبِ الٰہی کو اپنی عقل سے تلاش کرنے والا ایک لمبے سفر کا مسافر ہوتا ہے۔ وہ سوال وجواب کی کٹھن راہوں سے مالک کا قُرب حاصل کرتا ہے۔ وہ وجوہات اور نتائج کی کڑیاں ملاتا ہوا سببِ اُولیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ دریافت کر لیتا ہے کہ یہ کائنات‘ وسیع و عریض کائنات‘ عبث نہیں بنائی گئی۔ اِس کا بنانے والا ضرور ہے اور وہی فاطرِ حقیقی ‘اُن کی تلاش کا مدعا ہوتا ہے۔
صاحبِ عقل پر جب اَسرار فاش ہوتے ہیں‘ تو وہ عالمِ تحیُّر میں پہنچ کر مُقرّب کا درجہ پا لیتا ہے۔ اُس کی عقل ‘عقلِ سلیم بن جاتی ہے۔ وہ آخری سوال کا آخری جواب دریافت کر لیتا ہے۔ یہی تقرّب کی منزل ہے۔ کٹھن ہے‘ لیکن ہے! تقرّبِ الٰہی کے مختلف ذرائع اپنی اپنی جگہ پر مستند و معتبر ہیں‘ لیکن تقرّبِ الٰہی کا آسان ترین راستہ کسی کے فیضِ نظر سے ملتا ہے۔
جلال الدین رومی کو مولانا روم بنانے والی نگاہ‘ تبریز کی نگاہ ہے۔ رہبرِ کامل اپنے مرید ِباصفا پر رازِ حقیقت آشکار کرتا ہے اور اُسے تقرّبِ الٰہی کی منزلیں عطا کر دیتا ہے۔ اِسی لیے پیرِ کامل کو کبھی کبھی صورتِ ظِلّ ِ اِلٰہ کہا جاتا ہے۔ اُس کی طرف چلنے والوں کو جب وسیلہ ملتا ہے ‘وہ آسودہ ٴمنزل ہو جاتے ہیں۔ رہبر‘ طالب کے دِل میں محبت کے چراغ روشن کر کے اُسے اطاعت اور عبادت کی اصلیت سے متعارف کراتا ہے اور یوں طالب‘ تقرّبِ الٰہی کی خلعت سے سر فراز ہوتا ہے۔
 
مُقرّبینِ حق کی شناخت کے لیے بھی کوئی فارمولا نہیں۔ وہ لوگ عام طالبین سے مختلف ضرور ہوتے ہیں۔ وہ عبادت تو خیر کرتے ہی ہیں‘ عبادت کے ساتھ محبت بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب آقا کے کسی فعل پر کوئی تنقید نہیں کرتے۔ اُنہیں مخلوق سے بھی کوئی گِلہ نہیں ہوتا۔ وہ حاصل کی بجائے ایثار کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ 
وہ محبوب کے ہر ستم کو کرم ہی سمجھتے ہیں۔
وہ جلووں کے متلاشی اور پیاسے ہوتے ہیں۔ وہ حیرت کی وادیوں میں سر گرداں رہتے ہیں۔ اُنہیں ہر طرف حُسن و جمال ہی نظر آتا ہے۔مُقرّبین ‘غصہ، حسد، کینہ، لالچ اور نفرت سے آزاد ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ کے لیے بے ضرر ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ سب کے لیے منفعت بخش ہوتے ہیں۔ وہ کسی کا دِل نہیں دُکھاتے۔ کسی کا حق نہیں رکھتے۔ کسی کو اپنے سے کم تر نہیں سمجھتے۔
وہ گناہ سے نفرت ضرور کرتے ہیں۔ لیکن گُناہ گار سے نہیں۔ کسی کی تباہی کی دعا نہیں مانگتے۔ وہ دُنیا کی محبت سے آزاد ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ شُہرت، مرتبے اور دولت کے حجابات سے نکل چکے ہوتے ہیں۔ وہ نیند پر بیداری کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُن کا سرمایہ‘ عشرتِ پرویز کی بجائے غمِ فرہاد ہے۔ وہ قطرے میں سمندر کی جلوہ گری دیکھتے ہیں۔ وہ ہر اِبتلا میں بھی ثنا کرتے ہیں۔
وہ صابر ہیں، شاکر ہیں۔ وہ احسان و عدل کے مقامات سے آشنا کر دیے جاتے ہیں۔ وہ ہجوم میں بھی ہوں تو اکیلے ہیں۔ تنہا بھی ہوں تو اُن کے پاس ہجومِ خیال کے میلے ہیں۔ مُقرّبین‘ بس مُقرّبین ہیں۔ اُن کی شناخت کا کوئی فارمولا نہیں۔ 
اللہ کی رحمت سب کے لیے ہے، سب کے انتظار میں ہے، کوئی طالب دستک تو دے‘ دروازہ ضرور کھُلے گا۔ بہر حال خالق کے تقرّب کی راہیں خالق کی ذات کی طرح لا محدود ہیں۔
تقرّب ِالٰہی کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ خدمتِ خَلق ہے۔ جب تک انسان مُقرّب نہ ہو‘ مخلوقِ خدا کے قریب نہیں جا سکتا۔ ہر مُقرّب ِالٰہی مخلوق کا خادم و محسن ہو گا۔ 
جو اِنسان سب سے زیادہ مُقرّبِ الٰہی ہے‘ وہی اِنسان تمام مخلوق کے لیے رحمتِ مجسّم ہے۔ رَبّ العالمین کے عظیم مُقرّب ‘رحمتہ اللعالمین ﷺہیں۔ آپ ﷺ ایک طرف تو اللہ کے انتہائی قریب ہیں اور دوسری طرف مخلوق کے لیے انتہائی شفیق ہیں۔
اللہ کریم نے خود حضور ِاکرم ﷺکے لیے رؤف اور رحیم کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ آپ ﷺکا تقرّب سب سے زیادہ… اِس حد تک کہ دُنیا کے تمام مُقرّبوں کو اِسی دَر سے تقرّبِ الٰہی کا شعور عطا ہوتا ہے۔ جس پر حضور ﷺمہربان ہوں ‘ اُسیتقرّبِ الٰہی کی منزلیں میّسر آتی ہیں اور جس پر اللہ مہربان ہو‘ اُسے عشقِ نبی ﷺکی دولت و سعادت عطا ہوتی ہے۔ تقرّبِ الٰہی ‘در اصل تقرّبِ محبوب خدا ﷺ ہے۔ جو شخص حضور ﷺکے قریب ہو‘ وہ اللہ کے قریب اور جو حضور ﷺ سے دُور‘ وہ تقرّبِ الٰہی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم۔ جس پر عشقِ مصطفٰے ﷺبند‘ اُس پر تقرّبِ خدا بند!! 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif