Episode 31 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 31 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

پریشانی 
اِنسان پریشانی سے دو چار نہ بھی ہو تو بھی وہ پریشانی سے آشنا ضرور ہوتا ہے۔ پریشانی‘ اِنسان کو زِندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ضرور مل جاتی ہے اور پھر اُس کے ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ اپنے حالات سے ہی پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ اِنسان اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے جب پریشان ہوتا ہے تو حالت بہتر بنانے کی صلاحیت سَلب ہو جاتی ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ اور ہر طبقہ پریشان ہے۔
امیر پریشان ہے کہ نہ جانے کب دَولت ہاتھ سے نِکل جائے۔ غریب پریشان ہے کہ نہ جانے اب زِندگی کیسے گزرے گی۔ نیک انسان اِس لیے پریشان ہے کہ اُسے بُرے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ نیک زندگی گُزارنے کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ نیک اِنسان رِشوت دینا نہیں چاہتا اور رِشوت بغیر اُس کے کام نہیں ہو سکتے۔

(جاری ہے)

بس پریشانی ہی پریشانی ہے۔ والدین‘ اولاد کے ہاتھوں پریشان ہیں اور اولاد‘ والدین سے نالاں ہے۔

بچے والدین کا کہنا نہیں مانتے اور والدین بچوں کا کہنا نہیں مانتے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں اور ایک دوسرے سے پریشان ہیں۔ افسر ماتحتوں سے پریشان ہیں۔ ماتحت گستاخ ہیں اور ماتحتوں کو گِلہ ہے کہ افسر نااہل ہیں۔ اپنے لیے کچھ اور پسند کرتے ہیں اور ماتحتوں کے لیے کچھ اور۔ حکومت سیاستدانوں سے پریشان ہے اور سیاستدان حکومت سے پریشان ہیں۔
جلسے ہی جلسے ہیں اور پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں، دعوے ہی دعوے ہیں، بیانات ہی بیانات ہیں، تقریریں ہی تقریریں ہیں، وعدے ہی وعدے ہیں‘ اور پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ جلسوں پر کِتناخرچ ہوتا ہے… خرچ کی کیا بات! خرچ بغیر اِنسان کو قبر بھی نصیب نہیں ہوتی۔
لوگوں کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
مریض ڈاکٹروں کے رویے سے پریشان ہیں۔ مریض سے محبت کرنے کا زمانہ گُزر گیا‘ اب تو مریض کے حال پر نظر کرنے کی بجائے مریض کے مال پر نظر ہوتی ہے۔ پریشانی ہی پریشانی ہے۔ مریض ہونا غریب ہونے کی ابتداہے۔ غیر قانونی ہڑتالوں سے ہسپتالوں میں پریشانی کا جو عالم ہوتا ہے‘ اُس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اُستاد شاگرد کا مقدّس رِشتہ بھی پریشان ہو کر رہ گیا ہے۔
کالج کے طلبا اپنے اَساتذہ کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں‘ بس خدا کی پناہ… کسی زمانے میں طلبا اَساتذہ سے ڈرتے تھے اور آج اَساتذہ طلبا سے ڈرتے ہیں۔ اُستاد پریشان ہیں‘ طالبِ علم کہنا ہی نہیں مانتے! اُستاد ‘طلبا کو ایسی سزا دیتے ہیں کہ خدا کی پناہ …بڑے بڑے کالجوں کا نتیجہ خوفناک حد تک کمزور رہتا ہے۔ طلبا فیل ہو جاتے ہیں اور یوں ایک مُستقل پریشانی میں داخل کر دیے جاتے ہیں۔
طلبا ‘کلاس رُوم میں پریشان رہتے ہیں۔ کمرہٴ اِمتحان میں بھی پریشان ہوتے ہیں، سڑکوں پر آجاتے ہیں اور پھر ایک نئی قسم کی پریشانی ہوتی ہے۔ اللہ رحم فرمائے ‘آج کے طلبہ پر، آج کے اَساتذہ پر… آج کی تعلیم پر۔ 
ہر شعبہٴ حیات اپنے اپنے انداز سے پریشان ہے۔ ہر شخص اپنے ماحول میں پریشان ہے، یوں لگتا ہے کہ ہر ستارہ اپنے اپنے مدار میں سَرگرداں بھی ہے اور پریشان بھی!
پریشانی حالات سے نہیں‘ خیالات سے پیدا ہوتی ہے۔
جو انسان اپنے موجود لمحے سے گُریزاں ہو گا‘وہ پریشان ہو گا۔ اِنسان آنے والے حالات سے خوفزدہ ہو کر جانے والے حالات کو پریشان کر دیتا ہے۔ اگر گُزرے ہُوئے زمانے ‘خوشی کے زمانے ہوں تو بھی اُن کی یاد باعثِ پریشانی ہے کہ اب وہ دِن کہاں گئے، خوشی کے دِن گُزر گئے۔ جوانی اور صحت کے ایّام، محبت و وارفتگی کے دِن ہَوا ہو گئے۔ پریشانی تو یہ ہے کہ خوشیاں ختم ہو گئیں۔
وہ دِن بھی کیا دِن تھے، وہ زمانے بھی کیا زمانے تھے، وہ دَرد بھی کیا دَرد تھا ، ساتھی کتنے وفادار تھے ‘اب بس یاد ہی یاد ہے… پریشانی ہی پریشانی! 
اگر ماضی کسی غم سے عبارت ہو‘ تو بھی باعثِ پریشانی ہے۔ غم کی یاد ایک تازہ غم دے جاتی ہے۔ عجب حال ہے‘ خوشی کی یاد بھی پریشان اور غم کی یاد بھی پریشان۔ 
اِسی طرح مُستقبل اگر اُمید سے عبارت ہو‘ تو بھی حال پریشان ہے کہ کب وہ سُہانادَور آئے گا ۔
اگر خطرے کا اندیشہ ہو‘ تو بھی حال پریشان ہے کہ اِنسان دُور نظر آنے والے خطرے کو ہمیشہ قریب ہی سے محسوس کرتا ہے۔ زِندگی کے نصیب میں پریشانی لِکھ دی گئی ہے۔ کبھی اپنے لیے پریشانی ہے، کبھی دُوسروں کے لیے پریشانی ہے، کبھی اِس زِندگی کا فِکر ہے، کبھی موت کے بعد کا منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ پریشانی ہر حال میں رہتی ہے۔ پریشانی اِنسان کے ساتھ ساتھ رہتی ہے ۔
اِس کا علاج اُس وقت تک نا ممکن ہے‘ جب تک زِندگی دینے والے سے نہ پوچھا جائے۔ جس ادارے نے جو مشین بنائی ہو‘وہی اُس مشین کی حفاظت اور اُس کے اِستعمال اور اُس کی اِصلاح کا عمل جانتا ہے۔ 
اگر زندگی ہمارے اپنے عمل کا نام ہے تو اِس کے اندر پیدا ہونے والے بگاڑ اور فساد کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ اگر ہم اپنا علاج ہی نہ کر سکیں‘تو ہمیں اپنے اِختیارات کی حقیقت معلوم ہو جانا چاہیے۔
اگر زندگی‘ اپنے پیدا کرنے والے کو ہی نہ مانے تو اِسے پریشانی سے کون بچائے۔ ہم اپنے آپ پر اپنی ہِمّت سے زیادہ بوجھ ڈال دیتے ہیں۔ ہم خود ہی اپنی پریشانیوں کے مُصنِف ہیں اور خود ہی اپنی پریشانیوں سے تنگ ہیں۔ ہم متضاد خواہشات رکھتے ہیں۔ ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو دُوسری دَم توڑ دیتی ہے۔ اگر دولت اِکٹھی کی جائے تو رِزقِ حلال کا تصوّر پریشان کرتا ہے اور اگر رِزقِ حلال پر ہی قناعت کی جائے تو تلخی ٴحالات پر رونا آتا ہے۔
پریشانی بہر صُورت رہتی ہے۔ وطن سے باہر رہنے والوں کو وطن کی یاد پریشان کرتی ہے۔ وطن میں رہنے والوں کو باہر جانے کی تمنّا پریشان رکھتی ہے۔ ہر اِنسان کو اپنے علاوہ کچھ بننے کی آرزُو ہے اور یہی آرزُو‘ وجہٴ پریشانی ہے۔ 
ہم اپنے علاوہ کچھ نہیں بن سکتے… یہ حقیقت ہی زندگی کا ضابطہ ہے۔ اِسی سے زندگی کے شعبے اور پیشے قائم ہیں، اِسی سے نظامِ ہستی قائم ہے۔
ہمیں ہماری حدود میں قائم رکھنے والی قوّت پریشان تو کرتی ہے لیکن یہی قوّت زِندگی کا راز ہے ۔ہر اِنسان حکمران بننا چاہتا ہے، اگر یہ خواہش پوری ہو جائے تو کون کس کا حکمران ہو گا؟… عجیب پریشانی ہو جائے گی۔ کوئی اِنسان غریب نہیں رہنا چاہتا… اگر سب ہی امیر ہو جائیں تو کیا ہو گا؟ اگر دُنیا کی دولت برابر تقسیم کر دی جائے تو چہرے کیسے برابر ہوں گے؟ عقل کیسے برابر ہو گی؟ دِل کیسے برابر ہوں گے؟ دِلبر کیسے برابر ہوں گے؟ ایک نئے قسم کی غیر مساوی تقسیم کا شعور پیدا ہو جائے گا۔
اِنسان علاج میں ترقی کرتا ہے۔ نئے نئے علاج دریافت ہوتے ہیں اور پھر ایک نئی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ کوئی نہ کوئی بیماری ضرور مُہلک اور لا علاج رہے گی۔ اگر علاج سائنس بن جائے تو دُعا کا مقام کیا ہو گا؟ 
پریشانی اِنسان کو اِحساس دِلاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی پر اِختیار نہیں رکھتا۔ اگر اِنسان‘ اِس اِحساس پر یقین اور ایمان اُستوار کر لے‘ تو وہ پریشانی سے بچ سکتا ہے‘ نہیں تو نہیں…! 
اگر اِنسان تسلیم کر لے کہ اُس کی زِندگی اور زِندگی کے ساتھ ہونے والے واقعات اور زِندگی کا انجام خالق کے حُکم سے ہے‘ تو یہ پریشانی ختم ہو سکتی ہے۔
گُناہ اور بُرائی کی بات نہیں ہو رہی‘ زِندگی کی بات ہو رہی ہے۔گُناہ اور بُرائی‘ توبہ سے ختم ہو سکتے ہیں۔ توبہ کا مطلب واضح ہے‘ خالق کو گواہ بنا کے یہ اعلان کرنا کہ آئندہ ایسا عمل سَرزَد نہ ہو گا…! 
بہر حال پریشانی سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اِنسان اپنی زندگی کو خالق کی مرضی کے مطابق بسر کرے۔ جو شخص آج کے دِن، آج کے لمحے پر راضی ہو گیا‘ وہ پریشانی سے نکل گیا۔
زِندگی سے اگر گِلہ اور شکایت نکال دی جائے‘ تو پریشانی ختم ہو جاتی ہے۔ اپنے آپ کو پسند اور دوسروں کو نا پسند کرنا چھوڑ دیا جائے‘ تو پریشانی نہیں رہتی۔ اِس دُنیا میں ہمیشہ رہنے کی آرزُو نہ رہے‘ تو پریشانی نہ رہے گی۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہر زندگی کا انجام موت ہے‘ تو پریشانی کیسی! دُنیا میں کوئی ایسی رات نہیں آئی‘ جس پر دِن نہ طلوع ہُوا ہو۔
کوئی ایسا دِن نہیں آیا ‘جس پر رات نازل نہ ہوئی ہو، کوئی ایسا غم نہیں آیا ‘جو کَٹ نہ جائے، کوئی ایسی خوشی نہیں آئی‘ جو ہَٹ نہ جائے، کوئی ایسا اِنسان نہیں آیا ‘جو ایک مقررہ وقت کے بعد واپس نہ بُلا لیا گیا ہو۔ اِنسان پر کوئی ایسا سفر مُسلّط نہیں کِیا گیا‘ جس کی منزل نہ ہو۔
 گردشِ شام و سحر ‘اِنسان کو مسرّت، صحت، دولت اور محبت عطا کرتی ہے اور یہی گردش اپنی عطا کو واپس لے لیتی ہے اور یوں اِنسان اپنے آپ سے محروم ہو جاتا ہے، وہ پریشان ہوتا ہے‘ حالانکہ اِس میں پریشانی کی بات نہیں… اِنسان خود ہی کسی اور طاقت کا عمل ہے۔
…اُس طاقت نے اِنسان کو اِس دُنیا کے سفر پر گامزن کِیا ہے۔ اُس طاقت پر اعتماد‘اُس کا قُرب ہی اِنسان کو پریشانی سے بچا سکتا ہے، اُس کا تقرّب ہر طرح کے افسوس سے بچاتا ہے، اُس کی نزدیکی ہر طرح کے خوف سے نجات دیتی ہے، اُس پر اعتماد اِنسان کو حُزن اور اندیشے سے آزاد کر دیتا ہے اور جو خوف اور حُزن سے آزاد ہو گیا‘اُسے کیا پریشانی…!! جس نے اپنے آپ کو مالک کے سپرد کر دیا‘ اُسے کیا پریشانی! جو اپنے آپ سے نجات پا گیا ‘اُسے کیا پریشانی !خالق کا باغی‘ ہمیشہ پریشان رہے گا… خالق کا دوست ‘ کبھی نہیں!!

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif