Episode 4 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 4 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

موتی
سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ، بسیط قلزم کی تاریک پہنائیوں میں ، سِیپ کے باطن میں ، پردوں میں لپٹے ہوئے مخفی خزانے ، آب و تاب کے کرشمے ، فطرت کے شہکار ، اپنی چمک دمک میں مست ، دُرِّ نایاب‘ موتیوں کی موجودگی ایک عجب سربستہ راز ہے۔ 
موتی کیا ہیں ؟ بس ایک جلوہٴ مستور کی داستان ہیں ۔ اِنسانی آنکھ سے اوجھل ، جھلمل کرنے والے ، پردے ہی پردے میں پلنے والے‘ کسی فنکار کی تخلیق کا اِفتخار ہیں ۔
سمندر کا باطن اور پھرسِیپ کا باطن اور اُس میں چھپا ہوا خزانہ ‘ گنج ہائے گراں مایہ کا یہ سرمایہ ‘اِنسانی عقل و خرد کے لیے تحیّرکا مقام ہے۔ یہ کنزِ مخفی جب آشکار ہوتا ہے تو آنکھوں کو خِیرہ کرتا ہے۔ یہ راز جب ظاہر ہوتا ہے ‘اِس کی قدر دانیاں ہوتی ہیں، اِس کی قیمتیں لگتی ہیں، اِس کی ضرورتیں محسوس ہوتی ہیں اور یہ چھوٹی سی مخلوق ‘اشرف المخلوقات کی دُنیا میں اپنے جلووں کی تابانی سے جگمگاہٹیں پیدا کرتی ہے۔

(جاری ہے)

اِنسان موتیوں کی مالا سے اپنی ہستی دوبالا کرتا ہے۔ 
فطرت کو موتی پسند ہیں ۔ یہ بڑے مقام کی تخلیق ہے۔ اللہ کریم نے بہشت میں رہنے والی حُور کے حُسن کو ایسے بیان فرمایا کہ جیسے خیمے میں مقصور موتی ہوں۔ دُرِّ مکنون ، چھپے ہوئے موتی ‘سِیپ کے باطن میں، پردے کے اندر موتی ، آبدار اور تابدار موتی ، اِنسانی آنکھ اور اِنسانی لمس سے دُور ، اپنی پاکیزگی کی چادر میں لپٹی ہوئی حُور ، اِتنی پاکیزہ اور منزّہ ‘جیسے یاقوت اور مرجان۔
بیانِ حُسن اور یہ حُسنِ بیان‘ اللہ اللہ ‘ یہ اللہ کا ہی کلام ہو سکتا ہے۔ اللہ کو موتی پسند ہیں ۔ موتی سے تشبیہ ‘ اِلہامی تشبیہ ہے ۔ جس شے کو اِنسانی ہاتھ کے لمس کا تجربہ بھی نہ ہو ‘ اِنسانی آنکھ ، اِنسان کی نظر سے بھی جس کا جمال آزاد ہو ‘وہ موتی کیا موتی ہو گا ۔ جس طرح سمندر موتیوں کے سرمائے سے مالا مال ہے ‘اُسی طرح بہشت دمکتے ہوئے لولوؤں سے جگمگاتا ہے ۔
خیموں میں چھپے ہوئے خزانے، انمول موتی ، دُرِّ ثمین، ایک رازِ سر بستہ، تخلیق کا شہکار ، فنکار کا نقش ، فنکار کا نقشِ افتخار …موتی ہی موتی، بہشت دَر بہشت ، سُچّے موتی کی لڑیاں ، خیام میں قیام کرنے والے انعام و اکرام کے گنجینے … اِنسان کون کون سی نعمت کا شکر ادا کرے ، کس کس خزانے کا انکار کرے ، کس کس رحمت کو جھٹلائے ۔ رحمتیں ہی رحمتیں ہیں ، نعمتیں ہی نعمتیں ہیں ، برکتیں ہی برکتیں ہیں ۔
موتی فطرت کا پسندیدہ استعارہ ہے ۔ یہ اِشارہ ہے ‘مومنوں کے لیے منتظر رحمت کا۔
یہ کائنات موتیوں سے بھری ہُوئی ہے۔ سمندر کے اندر موتی ، سمندر کے باہر موتی … بادلوں کی جھڑیاں ‘سُچّے موتیوں کی لڑیاں برستی ہیں ۔ موتی برستے ہیں۔ آسمانوں سے موتیوں کی بارش ہوتی ہے ۔ خزانے ہیں ‘ زمین کے لیے۔ زمین کی پیاس بجھانے والے موتی ، زمین کو دولت بخشنے والے ، زمین سے خزانے بنانے والے ، زمین کو ربوبیت بخشنے والے ، رَب کے بنائے ہوئے ، بادلوں کے برسائے ہوئے موتی۔
جھلمل کرنے والے قطرے ، مقطّر ‘منزّہ ‘پاکیزہ موتی ۔ جَل تھل کر دینے والے !کیا کیا نعمتیں ہیں ، کیا کیا برکتیں ہیں ! موتی ہی موتی ، خزانے ہی خزانے!!
سمندر میں موتی ، زمین پر بارش کے موتی اور پھر شبنم کے پاکیزہ گوہر … غنچے کو پھُول کر دینے والے معصوم قطرے ‘ کتنے خوبصورت ہیں! پُر اسرار خزانے ہیں ‘کتنے سربستہ راز ہیں ! کیا کیا کرشمے دکھاتی ہے اوس …شبنم … اِنسان کے لیے، اِنسان کی صحت کے لیے آسمانی انعام‘ موتیوں کا چھڑکاؤ۔
شبنم بڑا راز ہے ‘ رات کا اعجاز ، رات کے آنسو ۔گُل کِھل اُٹھتے ہیں ، دِل کھِل جاتے ہیں …گُلوں کو رنگ اور رنگوں کو خوشبوعطا کرنے والی شبنم ‘ ایک دولت ہے‘ موتیوں جیسی خوبصورت اور موتیوں جیسی قیمتی …فطرت کا عطیہ ‘مفت حاصل ہونے والا خزانہ ‘مخفی خزانہ …کس کس نعمت کو جھٹلایا جائے …اللہ کی دین ہے۔ 
سمندر میں موتی ، زمین پر موتی ، ہوا اور فضا میں موتی اور آسمان … آسمان تو موتیوں سے جھلملاتا ہے۔
چمکنے والے ننھے ستارے ، دمکنے والے موتی ، دُور سے نظر آنے والے ، راز ہائے سربستہ ‘کائنات کی لا محدود وُسعتوں میں جگمگاہٹیں ستاروں کے دَم سے ہیں …اللہ کریم نے ستاروں کو روشن شمعیں کہا ہے ۔ اِستعارہ دَر اِستعارہ ” ہم نے آسمانوں کو مصابیح سے سجایا“ …سبحان اللہ ‘ آسمان کی چادر کو موتیوں نے زِینت بخشی ۔ پاکیزہ موتی ، سربستہ موتی، فطرت کے شہکار موتی ، تخلیق کا افتخار موتی … کیا کیا نقشے ہیں ، کیا کیا جلوے ہیں ، کیا کیا رعنائیاں ہیں۔
ستارے ہیں کہ بس جھلملاتے نظارے ہیں ۔ موتی ہی موتی… موتیوں کی لڑیاں …حُسن و خوبی سے فطرت نے جڑاؤ کیا ہے ۔ اِنسان غور کرے … سائنس اپنا کام کرے ، محبت والے اپنا کام کریں … نگاہ کو جلوہ درکار ہے اور جلوے سُچے موتی ہیں‘ ہر طرف بِکھرے ہُوئے‘خزانہ دَر خزانہ،حسن دَرحسن، لطف دَرلطف…!
موتیوں کے ذِکر میں اُن موتیوں کا ذکر کیسے نہ آئے ‘جو رات کے خاموش آنگن میں دَرد والے دِل کی سِیپ کے باطن سے ظہور کرتے ہیں اور اِنسان کی آنکھ سے ٹپکتے ہیں۔
یہ آسمانِ فکر کے ستارے ہیں کہ اندر کی آگ کے انگارے ہیں ۔ آنسو کیا ہیں ؟ بس موتی ہیں۔ چمکنے والے ، بہنے والے ‘گرم آنسو ‘فریاد کی زبان ہیں۔ پُرانی یادوں کے ترجمان ہیں …یہ آنسو‘ انمول خزانہ ہیں ‘معصوم اور پاکیزہ … مستوردوشیزہ کے حسن سے زیادہ حسین ‘ حُور سے زیادہ مکنون ‘اور یہ خزانہ کمزور کی طاقت ہے… دِل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والا آب ِحیات کا چشمہ ، سعادتوں کا سر چشمہ ، آرزوؤں کے صحرا میں نخلستانوں کا مژدہ ۔
آنسو ‘ تنہائیوں کا ساتھی ،دعاؤں کی قبولیت کی نوید‘ اِنسان کے پاس ایسی متاعِ بے بہا ہے ‘جو اسُے دیدہ وری کی منزل عطا کرتی ہے۔
یہ موتی بڑے انمول ہیں ۔ یہ خزانہ بڑا گراں مایہ ہے۔ یہ تحفہ ‘فطرت کا نادر عطیہ ہے … تقرب ِ اِلہٰی کے راستوں پر چراغاں کرنے والے موتی‘ اِنسان کے آنسو ہیں ۔ اِن ستاروں ، چراغوں ، موتیوں کی قیمت یہ ہے کہ اِن کی خریدار‘ خود رحمتِ پروردگار ہے ۔
جس کی رات اَشکوں سے منوّر ہے ‘اُس کا نصیب درخشندہ ہے۔ اُس کا مستقبل خود شناسی اور خود آگاہی کا حقدار ہے ۔ یہ موتی کبھی رائیگاں نہیں جاتے ۔ یہ وہ دولت ہے جس سے وہ بھی نا آشنا ہے‘ جس نے یہ دَرد عطا کیا ہو۔ یہ حسّاس روحوں کا مقدّر ہے …چشمِ تر بذاتِ خود شعرِ تر ہے۔ اِس دُنیا میں کسی اور دُنیا کے سفیر اِنسان کے آنسو ہیں ۔ سوزِ نفس کا آہنگِ دلخراش آنسوؤں سے فاش ہوتا ہے۔
اِنسان کے آنسو اُس کے لیے اِدراک کی وُسعتیں لکھتے ہیں ۔ رُوح کی زبان آنسو ہیں ۔ رُوح کی نوا ‘اشکِ سحر ہے ۔ رُوح کی پرواز کو آنسو ہی توانائی عطا کرتے ہیں ۔ خرد کی بے مائیگی کو سرمایہٴِ جنوں عطا کرنے والا فرشتہ‘ آنسوؤں کے ساتھ نازل ہوتا ہے۔ آہِ سحر گاہی‘ آہِ رسا کا دُوسرا نام ہے ۔ آنسو ‘ خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہنے دیتے۔
یہ وہ موتی ہیں ‘ جو اِنسان کو اُس کے اپنے باطن سے آشنا کرتے ہیں ۔ چشمِ گہربار‘ عنایتِ پروردگار ہے۔
دُنیا کے عظیم اِنسان‘ نالہٴ نیم شب کی داستان ہیں۔ رازہائے سربستہ آشکار ہو ہی نہیں سکتے ‘جب تک آنکھ اشکبار نہ ہو …کہتے ہیں کہ ایک بہت پُرانے زمانے میں ایک گُرو نے اپنے چیلے کو جڑی بوٹیوں کا رَس اکٹھا کرنے کا حکم دیا … چیلے نے عمر بھر جواہرالعقاقیر اکٹھا کیا ۔
وہ خوشی خوشی اپنے گُرو کے پاس خزانے سے بھری ہوئی شیشی لے کے چلا ۔ اُسے ٹھوکر سی لگی اور اُس کے ہاتھ سے شیشی گِر کے چکنا چور ہو گئی … وہ تڑپا…پھڑکااور لگا رونے اور پکارنے کہ ” اے میرے گُرو ! میں برباد ہو گیا ۔ میری کمائی لُٹ گئی۔ میرا حاصل لاحاصل ہو گیا … اب تو مَیں بوڑھا ہو گیا ہوں ۔ اب مَیں دوبارہ کیسے جتن کروں۔ میرے گرو!میں مر گیا ‘میں تباہ ہو گیا ‘میری دولت مٹی میں مل گئی “…اُس کا گُرو سنتا رہا اور پھر اُس نے خوشی سے قہقہہ لگایا … چیلے نے کہا ” گُرو ! میں مر رہا ہوں اور آپ ہنس رہے ہیں ۔
“ گُرو نے کہا ” تم سمجھ رہے ہو تم لُٹ گئے‘ میں جانتا ہوں کہ آج تجھے وہ دولت مل گئی جس سے بوٹیوں میں رَس پیدا ہوتا ہے ۔ خزانہ گم نہیں ہوا ‘ خزانہ مل گیا ہے ۔“ چیلے نے پوچھا ” کونسا خزانہ؟ “ گُرو نے کہا” تیرے آنسو …یہ آنسو نہ ہوں تو دُنیا میں ویرانی آ جائے۔ میرے چیلے! تجھے مبارک ہو۔ اب من کی چنتا سے آزاد ہو جا … اِس دُنیا میں دِل کی بوٹی کا امرت رَس حاصل کرنا ہوتا ہے‘ یعنی آنسو …آج تُو سرفراز ہے …یہ تیرے من کے مندر کی مُورتی کا دَرشن ہے۔
 بہر حال اِنسان کے آنسو ‘حصولِ رحمت کا قوی ذریعہ ہیں ۔ آنسوؤں کی فریاد مقبول ہے ۔ نالہٴ نیم شب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مقبول ہے ۔ بارگاہِ صمدیت میں آنسوؤں کی درخواست رَد نہیں ہوتی ۔ آنسوؤں سے زمانے بدلتے ہیں ، مقدر بدلتے ہیں ، نوِشتے بدلتے ہیں ۔ حوادث کے طوفانوں کے رُخ پھر جاتے ہیں ۔ گردشِ ایّام کے طور بدل جاتے ہیں ۔ معصیّت کو مغفرت مل جاتی ہے ۔
بدحال ماضی کو خوشحال مستقبل مل جاتا ہے۔ گمشدہ ‘برآمد ہو جاتا ہے ۔ بھٹکے ہوئے راہی ‘صاحبانِ منزل بن جاتے ہیں ۔ گرداب میں گھِرے ہُوئے سفینے ‘ساحلِ مُراد تک آتے ہیں … فراقِ مجاز ‘ وصالِ حق بن جاتاہے ۔ اَشکوں کے موتیوں کی مالا ‘عالمِ بالا تک کی خبر لاتی ہے … یہ سُچّے موتی ‘ گوہر ہائے تابندہ ‘ اِنسان کو … مایوس اور مرے ہُوئے اِنسان کو… زِندہ کر جاتے ہیں۔
جو فریاد لبِ اظہار تک نہ آ سکے‘ وہ اَشکوں میں بیان ہوتی ہے ۔ مذہب ، رنگ اور نسل سے آزاد ‘ہر اِنسان کی آنکھ میں ایک جیسے آنسو ہوتے ہیں ۔ یہی اِنسان کا اِنسان سے واحد رشتہ ہے … ہمدردی کا ، غمگساری کا …!
عشق کے مسافروں کازادِ راہ آنسو ہیں۔ عشق‘ حقیقی ہو یا مجازی‘ آنسوؤں سے عبارت ہے ۔ روضہٴ رسول ﷺپر حاضری دینے والے ‘آنسوؤں کی زبان سمجھتے ہیں ۔
یہ سرمایہ کسی کا اِحسان ہے ، کسی کی دین ہے ، کسی کا اعجاز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دریاؤں کو پہاڑوں کے آنسو فرمایا …بے اَشک آنکھ کو پتھر کہا ۔ پتھر دل ، پتھر نصیب … ہم اپنے اللہ کے سامنے کیاپیش کریں ۔ نامہٴ اعمال تو پیش کرنے کے قابل نہ رہا ، دفترِ عمل میں کیا دھرا ہے۔ رہی عبادت ‘منظور ہو کہ نہ ہو‘کیا کہہ سکتے ہیں … اِبلیس کی کروڑوں سال کی عبادت ایک انکار سے را ئیگاں ہو گئی۔
ہم تو کتنے احکامات سے رُو گردانیاں کرتے ہیں ، من مانیا ں کرتے ہیں ۔ ہم نادان اِنسان ‘کیا پیش کریں … ٹُوٹے ہوئے دِل اور بہتے ہوئے اَشکوں کے ساتھ ہم اُس کے سامنے سر بسجود ہیں کہ اے اللہ ! یہ حقیر سرمایہ ہی ہم اِس زِندگی سے حاصل کر سکے ہیں۔ 
یہ ندامت اور شرمساری کے نذرانے ‘ تیرے سامنے حاضر ہیں … قبول فرما …اپنی بارگاہِ بے نیازی میں ۔
اپنی شانِ غفّاری دِکھا اور ہمارے اَشکوں کو پذیرائی عطا فرما،اور ہماری مِلّی اور انفرادی لغزشوں کو درگزر فرما اور عطا کر ہمیں اسلاف کا سوزِدروں اور جذبہٴ صداقت۔ ہماری اِلتجا اور فریاد اور مُدعا صرف یہی ہے کہ ہمارے اِن موتیوں کو اپنی شانِ کریمی کی تابداری عطا فرما … تُو جانتا ہے کہ ہم بے کس و بے بس ہیں … تیرے حبیب ﷺ کے نام لیوا ہیں اور ہماری بساط کیا ہے …قبول فرما لے مولا ! ہماری فریاد جو صرف آنسوؤں کی زبان میں ہم بیان کرتے ہیں ۔ تُواور تُو ہی ہمارے آنسوؤں کا آخری سہارا ہے …تُوقبول کر لے تو یہ موتی انمول ہیں ۔ تجھے موتی پسند ہیں …․ ہم تیری بارگاہ میں یہ موتی پیش کرتے ہیں ۔ تجھے دُرِّ یتیم اور دُرِّ نجف ﷺ کا واسطہ ‘ ہمارے موتی قبول فرما ! 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif