Episode 7 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 7 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

محبوب 
عجب بات ہے کہ محبوب بیٹا جدا ہُوا‘ تو باپ کی بینائی چھِن گئی اور مُدّت بعد بیٹے کی قمیض کی خوشبو سے بینائی لَوٹ آئی۔ کہیں محبوب ‘بینائی ہی نہ ہو! اپنی چاہت کا چہرہ نہ رہے ‘تو بینائی کیا بینائی ہے۔ شاید دیکھنے کی تمنّاہی بینائی ہے۔ شاید محبوب کا چہرہ ہی بینائی کا سبب ہے اور یہی چہرہ بینائی کا انجام ۔ 
محبوب ‘ محب کی زندگی میں عجب رنگ دِکھاتا ہے۔
محبت اِنسان کو ماسِوائے محبوب سے اندھا کر دیتی ہے۔ وہ کسی اور شے کو دیکھ کر بھی نہیں دیکھتا۔ اُس کے دِل و نگاہ میں صرف ایک ہی جلوہ رہتا ہے‘ محبوب کا جلوہ! 
محبوب زندگی کے صحرا میں نخلستانوں کی نوید ہے۔ محبوب ‘محب کو زِندگی کے میلے میں اکیلا کر دیتا ہے۔ محبوب ہی باعثِ سفر ہے، وہی ہم سفر ہے، وہی رہنمائے سفر ہے اور پھر وہی محبوب ہی تو حاصلِ سفر ہے۔

(جاری ہے)

محبوب کبھی جلوہ بن کے رُوبرو ہوتا ہے اور کبھی یاد بن کر چار سُورہتا ہے۔ محبوب جدا ہو کر بھی جدا نہیں ہوتا۔ وہ مر کے بھی نہیں مرتا۔ وہ محب کی آنکھ میں رہتا ہے۔ آنکھ سے اوجھل ہو تو دِل میں آ بستا ہے۔ محبوب ختم نہیں ہوتا، غائب نہیں ہوتا۔ وہ کبھی عدم نہیں ہوتا۔ 
دنیا کی رونقیں محبوب کے دَم سے ہیں۔ اِنسان اپنی زندگی کو محبوب کی خوشنودی کے لیے وَقف کرتا ہے۔
اِنسان تو اِنسان ‘کائنات کی سب مخلوق اپنے محبوب کے لیے سر گرداں ہے۔ مور کا رقص، رمِ آہو، نغمہٴ عنادل، چکور کی فریاد، لہروں کا تلاطم‘ محبوب کی کرشمہ کاریاں ہیں۔ محبوب ‘محب کو شعور ِزیست عطا کر کے شعور ِذات عطا کرتا ہے۔ سجدے سے انکار کرنے والا، حُسنِ آدم سے بے خبر اِبلیس‘ محبت سے محروم تھا۔ وہ رَحمت سے مایوس ہُوا۔ مردُود قرار دے دِیا گیا۔
اِبلیس کا معبود تو تھا، محبوب کوئی نہ تھا۔ لعین ہونے کے لیے اِتنا ہی کافی ہے۔ اِنسان کی محبت کے بغیر خدا کا سجدہ‘ اَنا کا سجدہ ہے۔ خدا اِنسان سے محبت کرتا ہے اور اِبلیس اور اُس کے چیلے اِنسان سے محبت نہیں کرتے۔ کیسے کر سکتے ہیں!
اِنسان سے محبت وہی کر سکتا ہے‘ جس پر خدا مہربان ہو۔ خدا جب کسی پر بہت مہربان ہو‘ تو اُسے اپنے بہت پیارے محبوب ﷺکی محبت عطا کر دیتا ہے۔
اللہ کے اِحسانات میں سب سے بڑا اِحسان محبت ہے۔ محبت‘ کم ظرف اور کم نظر کا کام نہیں۔ یہ عالی ظرف اور بُلند نگاہ اِنسانوں کا کھیل ہے۔ یہ بُلند نصیب اِنسانوں کی بات ہے۔ اِس زندگی میں جسے محبوب مل گیا‘اُسے سب کچھ ہی تو مِل گیا۔ 
محبوب کے ملنے کی دیر ہے کہ زندگی نثر سے نکل کر نظم میں داخل ہو جاتی ہے۔ محبوب خود شعرِ نازک ہوتا ہے۔
اُس کا قُرب‘ محب کو شعر آشنا کر دیتا ہے۔ جسے محبوب نہ ملا ہو‘جسے محبت نے قبول نہ کیا ہو‘اُسے غزل بے معنی نظر آتی ہے۔ اُسے نظم سے بَیر سا ہو جاتا ہے۔ محبوب میسر نہ ہو‘تو رعنائیِ خیال کا ملنا محال ہے۔ محبوب اُس ذات کو کہتے ہیں‘ جس کے تقرّب کی تمنّا کبھی ختم نہ ہو۔ اپنی ذات سے فنا ہو کر جس کی ذات میں بقا ہونا منظور ہو‘ اُسے محبوب کہا جاتا ہے۔
محبوب‘ محب کے حُسنِ اِنتخاب اور حُسنِ خیال ہی کا نام ہے۔ 
ہر زندہ اِنسان کے لیے کوئی نہ کوئی محبوب ضرور ہو گا۔ جن کا کوئی محبوب نہیں‘وہ اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں، اپنی اداؤں پر مرتے ہیں۔ اپنے خون کی سرخی پر فدا ہونے کی خواہش ‘اُن کے خون کے سفید ہونے کی دلیل ہے۔ ایسے لوگ آئینہ خانوں میں اکثر دیکھے جاتے ہیں۔ نہ وہ کسی کو پسند کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور اُن کو پسند کرتا ہے۔
ظاہر ہے ‘اُن کی زندگی ایک جزیرے کی طرح ہے۔ وہ خود ہی آوازہیں اور خود ہی گوش برآواز۔ ایسے لوگ سخت دِل اور تُند خُو ہوتے ہیں۔ اُن کے نصیب میں تنہائیاں ہیں۔ ایسے لوگ کبھی کبھی خود ی سے آشنا بھی ہو جاتے ہیں۔ اُن کو اپنے ہی سِرِّنہاں تک رسائی ہو جاتی ہے۔ اُن کا محبوب …اُن کی ذات‘ اُن کے لیے کرشمہ کاریاں کر جاتی ہے۔ آج کے دَور کا اِنسان محبوب سے آزاد سا ہو گیا ہے۔
وہ اِنسانوں سے مایوس ہو چکا ہے۔ وہ اپنے آپ سے مایوس ہو چکا ہے۔ اُسے کسی پر‘ کسی حالت میں اعتماد نہیں۔ وہ اپنے ماضی پر تو نادم ہے ہی سہی ‘اپنے مستقبل پر بھی نادم ہے۔ 
آج کے اِنسان کا محبوب ‘سرمایہ ہے۔ وہ اپنے مال کو اپنا محبوب مانتا ہے۔ اُسے چاہتا ہے۔ اُس کی پوجا کرتا ہے۔ اُس کے وِصال سے خوش ہوتا ہے اور اُس کے فراق سے ڈرتا ہے۔
آج کے اِنسان کو موت سے زیادہ غریبی کا ڈر ہے۔ مال کی محبت نے اندھا کر دیا ہے۔ اِنسان کو غافل کر دیا ہے۔ اُس کی آنکھ تب کھلتی ہے‘ جب بند ہونے لگے۔ بڑی محرومیاں ہیں‘آج کے محب کے لیے‘ آج کے محبوب کے حوالے سے۔ 
مال میں عجب حال ہے۔ پڑا رہے تو بے کار ہے۔ اِس کی افادیّت اِس کے خرچ میں ہے، اِس کے اِستعمال میں ہے، اِس کی جدائی میں ہے۔
یہ محبوب ہمیشہ سے ہر ایک کے ساتھ بے وفا ہے، بے وفا رہا ہے اور بے وفا رہے گا۔ بے جان مال کی محبت‘ جان دار اِنسان کو اِخلاقی قدروں سے محروم کر دیتی ہے۔ مال کی محبت حریص بناتی ہے اور حریص کی جیب بھر جائے تو بھی دِل خالی رہتا ہے۔ 
کچھ لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں‘صرف خدا سے اور بس ! خدا کے بندوں سے نہیں ۔خدا کے بندوں سے محبت نہ کرنے والوں کو خدا کیسے پسند کر سکتا ہے! خدا کے حبیب ﷺ تو وہ ہیں ‘جو مخلوق کے محب اور خالق کے محبوب ہیں۔
اللہ کی محبت کا راز اِنسان کی محبت میں ہے۔ اللہ معبود ہے‘ انسان محبوب۔ اللہ کی راہ اِنسانوں کی راہ ہے …اِنعام یافتہ اِنسانوں کی۔ آج کے محبوب ’مال‘ نے آج کے اِنسان کو بڑی محرومیاں عطا کی ہیں۔ آدمی ‘آدمی سے دُور ہو رہا ہے۔ جغرافیائی فاصلے ختم ہو رہے ہیں‘ لیکن دِلوں اور نگاہوں کے فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ خاندان تو ختم ہو ہی چکا ہے۔
میاں بیوی، اولاد اور والدین کے درمیان پیسے کی دِیوار حائل ہو چکی ہے۔ بیوی‘ خاوند سے جدائی برداشت کر سکتی ہے ‘پیسے سے جدائی برداشت نہیں کر سکتی۔مال کے مقدّر میں پردیس لکھا جا چکا ہے۔ خاوند پردیس میں ہے، بیوی خطوط اور مال پر گزارہ کر رہی ہے۔ گھر سجائے جا رہے ہیں اور جس کی خاطر مقصود تھی ‘وہ نظر نہیں آتا‘ کمائیاں کرنے گیا ہوا ہے۔
 
کچھ لوگوں کا محبوب‘ نظریہ ہے۔ نظریات کی محبت نے مُلکوں میں فساد مچا رکھا ہے۔ دائیں اور بائیں کی تقسیم‘ قوم کو تقسیم کر چکی ہے۔ بھائی‘ بھائی کے رُوبروہے‘ بلکہ دُوبدُو ہے۔ گُلستانِ وطن میں بڑے گُل کھِلنے والے ہیں۔ نظریہ پرست اِنسان‘ مردم بیزار ہے۔ نظریات کی جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ صُورتِ حال خوفناک ہے۔ اِنسان تقسیم ہو چکا ہے۔
ایران، عراق‘ نظریات ہیں۔ ہر دو فریق‘ مصروف ِجہاد۔ سچّے خدا کے نام پر دونوں گروہ جنگ کر رہے ہیں۔ کون سچّا ہے کون جھوٹا۔ دونوں سچّے تو نہیں ہو سکتے۔ محبوب پرستی ‘جنگ پرستی تو نہیں ہو سکتی۔ اپنے ہاں حکومت اور حزبِ مخالف‘ دو نظریے برسرِپیکار ہیں۔ اِنسان کی محبت سے محروم لوگ نظریات کی گرفت میں ہیں۔ 
اِنسان سے محبت نہ ہو‘ تو وطن کی محبت بھی واہمہ ہے۔
جس دیس میں ہمارا کوئی محبوب نہ ہو‘ اُس دیس سے محبت ہو ہی نہیں سکتی۔ آج کے اِنسان کی وطن پرستی اِس لیے مشکوک ہے کہ وہ اِنسانوں کی محبت سے عاری ہے۔ زمین، مکان اور پیسے سے محبت کرنے والا اِنسان ‘محبت کی اصل رُوح سے محروم ہے۔ وطن اِس لیے پیارا ہوتا ہے کہ ہمارے پیارے اِس میں رہتے ہیں‘ورنہ وطن کیا اور وطن کی محبت کیا! اگر محبوب وطن سے باہر ہو‘ تو محبت وطن سے باہر ہو جائے گی۔ 
محبوبوں میں سب سے زیادہ خطرناک محبوب ‘شہرت ہے۔ شہرت سے محبت کرنے والا دراصل اپنی اَنا کا پرستا رہے۔ اِنسانوں میں خدمت کے بغیر سَربُلندی کی تمنّا ظلم ہے۔ جھُوٹے معاشرے میں شہرت حاصل کرنے والا سچّے معاشرے میں بدنام گِنا جائے گا۔ 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif