Episode 12 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 12 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

ظُلم 
ظلم کا تعلق مظلوم کے احساس سے ہے۔کسی ظالم کا کوئی عمل اُس وقت تک ظلم نہیں کہلائے گا‘جب تک مظلوم اُس عمل سے پریشان نہ ہو۔ دنیا میں ہونے والے بیشتر مظالم‘ مظلوم کی پسند کا حصّہ بنا دیئے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو مظلوم اُس ظلم کو برداشت کرنا اپنے ایمان کا حصّہ سمجھ لیتا ہے۔ 
ظالم کا سب سے بڑا ظلم یہی ہے کہ وہ مظلوم کو ظلم سہنے ، ظلم میں رہنے کی تعلیم دے چکا ہوتا ہے۔
امیر بادشاہ غریب رعایا کو تسلیم، صبر اور رضا کی تعلیم دے کر اپنے مال کو محفوظ کرتا ہے۔ غریب کو صبر کی تلقین کرنے والا خود امیر رہنا پسند کرتا ہے۔ ظلم ہوتا رہتا ہے اور کسی کو خبر تو کیا‘ اِحساس تک نہیں ہوتا۔ امیر حکمران اپنے بچوں کو انگریزوں کے سکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں اور غریب عوام کو دِین کا حوالہ دے کر سمجھایا جاتا ہے کہ اُن کے بچے کسی دارُالعُلوم میں تعلیم حاصل کریں۔

(جاری ہے)

درسِ نظامی سے فارغ التّحصیل ہو کر غریبوں کے بچے کسی مسجد کے اِمام بن کر اُس حُجرے میں زندگی بسر کرتے ہیں اور امیروں کے بچے افسر بن کر حکومت کرتے ہیں۔ 
ظلم ہوتا رہتا ہے اور کسی کو محسوس نہیں ہوتا۔ اگر کوئی دانشور اِس ظلم کی نشاندہی کرتا ہے‘ تواُسے مُلحد و زِندیق کہہ کر بدنام کر دیا جاتا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ظلم سہنے والا ، ظلم میں رہنے والا‘ خود بھی ظالم کے ساتھ مل کر‘ اُس انسان کے خلاف ہو جاتا ہے ‘جو اُسے اُس پر ہونے والے ظلم کی نشاندہی کراتا ہے۔
ظالم اپنے ظلم کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے بڑے رُوپ دھارتا ہے۔ کبھی مسیحائی کا رُوپ، کبھی رہنمائی کا بہروپ ، کبھی آشنائی کا انداز، کبھی محبت کا طلسم، کبھی تعریف کرنے والے کی شکل میں… ظلم بہر حال جاری رہتا ہے۔ آج مسیحائی کی وبا پھیل چکی ہے۔ ہر نا اہل کو زُعمِ آگہی ہے۔ قوم پر اِنتشار نازل کرنے والے مسیحاؤں کی کمی نہیں‘ ڈاکٹروں کی کمی نہیں۔
ڈاکٹروں کی شکل میں ایسے مسیحا موجود ہیں‘ جن کی توجہ مریض کے مرض کی بجائے اُس کی جیب پر ہوتی ہے۔ مسکرا کر اِتنی بات بتانے کے لیے کہ آپ کو کوئی بیماری نہیں‘ آپ سے فیس کا مطالبہ ہوتا ہے۔ آپ خوشی سے ظلم سہتے ہوئے رُخصت ہوتے ہیں۔ غریب کی بیماری ‘امیر ڈاکٹر کے لیے نوید ِبہار ہے۔ ظلم جاری رہتا ہے اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ سیاست کے میدان میں راہنما اپنی اَنا کے سفر میں بڑے بڑے ظلم کرتے ہیں۔
عوام کو گمراہ کر کے اُن کی زندگی عذاب بنا دی جاتی ہے۔ ایک اَن پڑھ چھا بڑی والے کو سیاست کے میدان کا شہسوار ہونے کی غلط فہمی عطا کر دی جاتی ہے۔ وہ بیچارہ ظلم برداشت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے بین الاقوامی سیاست کا مکمل شعور مل چکا ہے۔ وہ ”امریکہ مردہ باد“ کے نعرے لگاتا ہے اور چھابڑی کو بساطِ سیاست سمجھتا ہے۔ اِس بیچارے پر ظلم ہو چکا ہوتا ہے اور وہ اِس سے آگاہ تک نہیں ہوتا۔
ایک نئے دور کی تمنا‘ مجبور زندگی کو نئی اذیّتو ں سے دوچار کرتی ہے۔ راہنما کرسیوں کے کھیل میں غریب کی عافیت سے کھیلتے رہے ہیں۔ ظلم جاری رہتا ہے اور مظلوم کو احساس تک نہیں ہوتا۔ 
کچھ علمائے دین زندگی کی بے معنویت کو اِس حد تک بیان کرتے ہیں کہ محنت، کوشش، مجاہدہ اور سعی کی لگن چھِن جاتی ہے۔ علم کا ظلم سب سے زیادہ ہے۔ عذاب ہے وہ علم‘ جو اِنسان کے کام نہ آئے… ظالم یہ عذاب مسلّط کرتا ہے اور مظلوم اِسے تعلیم کی ضرورت سمجھ کر قبول کرتا ہے۔
تعلیم حاصل ہوتی ہے اور ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ تعلیم کا زیور گلے میں یوں لٹکتا ہے‘ جیسے بَیل کے گلے میں گھنٹی۔ وہ گھنٹی کی آواز سنتا ہے، خوش ہوتا ہے اور ظالم کی زمین میں ہَل چلاتا ہے۔ وہ خود نہیں جانتا کہ اُس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ تعلیم ہے‘ تو روزگار کیوں نہیں؟ روزگار تعلیم سے نہیں‘ تعلقات سے نصیب ہوتا ہے۔ بے معنی تعلیم بدنصیب کا مقدر بن جاتی ہے۔
اِس ظلم کی کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ بہت خطرناک ظالم زندگی میں دوست بن کر آتا ہے۔ ایسے ظالم سے بچنا بہت مشکل ہے‘ جس کے پاس محبت کی تلوار ہو۔ وہ معصوم دِلوں کو محبت کے دام میں گرفتار کرتا ہے، اُن سے کام لیتا ہے، کام نکالتا ہے اور پھر ایک نا معلوم موڑ پر اُنہیں حوادثِ زمانہ کے حوالے کر کے شیطان کی طرح مسکراتا ہوا رُخصت ہو جاتا ہے۔ ایسے ظالم کے لیے بد دعا بھی نہیں کی جا سکتی۔
وہ اپنا تھا۔ اپنا بنا ہوا تھا۔ اُس کے پرانے خطوط ابھی محفوظ ہوتے ہیں اور وہ ہر اِخلاق کے قوانین کو بالائے طاق رکھتا ہوا‘ جھٹک کر چلا جاتا ہے۔ ہم جس کی تعریف کر چکے ہوں‘ اُس کے ظلم کا بیان کس مُنہ سے کریں۔ بس ظلم ہو گیا‘ لیکن مظلوم ہمیشہ کے لیے خاموش رہ گیا۔ 
دراصل کسی شے سے اُس کی فطرت کے خلاف کام لینا ظلم ہے۔ جو شے جس کام کے لیے تخلیق کی گئی ہے‘ اُس سے وہی کام لینا چاہیے۔
اِس کے برعکس‘ ظلم ہے۔ کسی اِنسان سے اُس کے مزاج کے خلاف کام لینا ظلم ہے، جبر ہے۔ اِس سے اِنسان کے اندر ایک حبس کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اُس پر جمود طاری ہو جاتا ہے‘ اور پھر یہ جمود اندر ہی اندر لاوے کی طرح کھو لتا ہے اور پھر کسی نا معلوم لمحے میں اُبل کر لاوا باہر آجاتا ہے اور ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا تباہ کر دیتا ہے۔ مظلوم کی خاموشی ‘ظالم کی عبرت کی اِبتدا ہے۔
خاموش مظلوم ‘ خاموش طوفان کی طرح بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ کسی انسان سے اُس کے معاوضے سے زیادہ کام لینے کا نام بھی ظلم ہے۔ معاوضہ‘ دینے والے کی ہستی کے مطابق ہونا ضروری ہے۔سب سے بڑا ظلم کسی کی محنت کو رائیگاں کرنا ہے۔ 
کسی انسان میں وسوسہ پیدا کرنا بھی ظلم ہے۔ قوم کو تذبذب میں گرفتار کرنا ظلم ِعظیم ہے۔ کسی راہی کو سفر کے دوران‘ اُس کی مسافرت سے بیزار کرنا ظلم ہے۔
آدھا راستہ طے کرنے کے بعد یہ سوچنا کہ ہمیں کس سفر پر روانہ ہونا ہے، ظلم ہے۔ 
کسی غریب کی عزتِ نفس کو غریب سمجھنا اُس پر ظلم ہے۔ ظلم کی صورتیں بے شمار ہیں۔ مظلوم کی صورت ایک ہی ہے… غریب، سادہ، معصوم، شریف النفس، سادہ لوح، جلدمان لینے والا، اپنا حق ترک کر دینے والا ، سب کے لیے دعا کرنے والا‘ اور اُس کی دُعا کی وجہ سے ہی تو ظالم قائم رہتا ہے!! نہ مظلوم کا مزاج بدلتا ہے، نہ ظالم کا۔
یوں ظلم جاری رہتا ہے۔ مظلوم ظلم کو مقدّر سمجھتا ہے اور ظالم اِسے اپنی دانائی! دونوں اپنے اپنے مدار میں قائم رہتے ہیں‘ لیکن کبھی کبھی تقدیر اپنے نام سے ہونے والے ظلم کو دُور کرنے کے لیے مظلوم کی آنکھوں سے پردہ ہٹاتی ہے اور پھر مظلوم اپنے غصب شدہ حقوق کے حصول کے لیے میدانِ عمل میں اُترتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے مظلوم‘ ظالم کی کرسی پر بیٹھتا ہے اور ظالم کے لباس میں نظر آتا ہے اور ایک بار پھر ظلم جاری ہو جاتا ہے۔
ظلم بہر حال ہوتا رہتا ہے اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ 
ظلم کا پہیہ اُس وقت تک جام نہیں ہوتا‘ جب تک معاف کرنے اور معافی مانگنے کا حوصلہ اور شعور نہ پیدا ہو۔ بدلہ لینے کی تمنّا‘ ظلم کی اَساس ہے۔ معاف کر دینے کی آرزو‘ ظلم کا خاتمہ کرنے کیلئے ضروری ہے۔ ظلم توڑنے والے پرانی باتوں کو چھوڑنے والے ہوتے ہیں۔ ظلم کے ساتھ، ظالم کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے‘ پیغمبروں کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے۔
بھائیوں نے یوسف  کے ساتھ جو سلوک کیا‘ اُس کا بدلہ یہی تھا کہ” جاؤ! آج کے دن تمہارے لیے کوئی سزا نہیں“۔ فتح مکّہ کے بعد آپ ﷺکا پرانے مخالفین کے لیے یہی ارشاد تھا کہ ”جاؤ! تم سب کے لیے آج کوئی سزا نہیں“۔
اگر معاشرے میں معافی مانگنے اور معاف کرنے کا عمل شروع ہو جائے‘ تو ظلم کا عمل رُک جاتا ہے۔ خود پسندی ترک ہو جائے‘ تو ظلم رُک جاتا ہے۔
اَنا کا سفر ختم ہو جائے‘ تو ظلم کا سفر ختم ہو جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو اللہ سے معافی کا خواستگار ہے‘ اُسے سب کو معاف کر دینا چاہیے۔ جس نے معاف کیا‘ وہ معاف کر دیا جائے گا۔ دوسروں پر احسان کرنے سے ظلم کی یاد ختم ہو جاتی ہے۔ حق والے کا حق ادا کر دو‘ بلکہ اُسے حق سے بھی ماسوا دو‘ بس اِتنے سے عمل سے ظلم ختم ہو جائے گا۔ جس معاشرے میں مظلوم اور محروم نہ ہوں‘ وہی معاشرہ فلاحی ہے۔ 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif