Episode 23 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 23 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

گردش تیز ہے ساقی 
ترقی کا زمانہ ہے، تعمیر کا دَور ہے، تیزی کا وقت ہے، تعجیل کی گھڑی ہے۔ ہر شے بھاگے چلی جا رہی ہے۔ گردشِ زمان ومکاں تیز تر ہے۔ اِنسان مشین ہے، مشین کا پرزہ ہے، جلد باز ہے، جلد رفتار ہے۔ اُس کے سامنے لا محدود فاصلے ہیں اور وقت محدود ہے‘ اِس لیے وہ دوڑتا ہے اور دوڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ اِنسان کو یہ تو معلوم ہے کہ اُسے جلدی جانا ہے ‘لیکن کہاں جانا ہے‘ یہ معلوم نہیں۔
 
اِنسان شاید تعمیرِحیات کے لیے جلدی کرتا ہے‘ اُسے فوری طور پر زندگی مُکمل کرنا ہے اور وہ جلدی جلدی اِسے بناتا ہے، بناتے بناتے بگاڑتا ہے اور اُس کے ہاتھ سے زندگی یوں نکل جاتی ہے‘ جیسے ہاتھ سے کبوتر اُڑ جائے، یا ہاتھوں کے طوطے اُڑ جائیں۔ 
اِنسان فطرتاً جلد باز ہے۔

(جاری ہے)

وہ آہستہ رَوی یا میانہ رَوی کو برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ ایک ہی دِن میں سارے کام ختم کرنا چاہتا ہے۔

پُورے تِیس دِن کے طویل اِنتظار کے بعد اُسے تنخواہ ملتی ہے اور اِسے وہ ایک ہی دِن میں خرچ کر دیتا ہے، اور پھر وہی اِنتظار… تنخواہ کے علاوہ آمدن کا اِنتظار…جائز آمدنی اور ناجائز آمدنی کا اِنتظار… اِنسان بھاگتا ہے ‘جیسے اُس کے اندر آگ سی لگی ہوئی ہو… جب خطرہ اندر ہو‘ تو باہر کی رفتار اِسے کیسے ٹالے گی؟ 
تیر رفتاری ہی شاید ترقی کا دوسرا نام ہے! تیز رفتاری نے فاصلے سمیٹ لیے ہیں … اِنسان‘ اِنسان کے قریب آرہا ہے… یہ الگ بات کہ وہ اپنے آپ سے دُور ہو رہا ہے۔
ہر شے‘ ہر دوسری شے کے قریب ہے۔ یہ تیز مسافرت ،یہ جہاز،یہ اِنگلستان، یہ امریکہ یہ افریقہ، یہ پاکستان اور پھر یہ زندگی… اور یہ رہا قبرستان! ہر سفر جلدی کا سفر ہے۔ کہیں قیام ہی نہیں… تیز رفتاری کی منزلوں میں کوئی مقام بھی تو نہیں… کہیں کوئی پڑاؤ نہیں۔ زمین سے آسمان تک کے فاصلے طے ہو رہے ہیں… برسوں کی مسافتیں مِنٹوں میں طے ہوتی ہیں۔
یوں لگتا ہے جیسے چاند، سورج، ستارے ، سیارے‘ سب زمین پر اُتر آئے ہوں… یا …زمین آسمان پر جا پہنچی ہو۔ 
سائنس نے اِنسان کو رفتار دی ہے‘ لیکن یہ رفتار بے جہت وبے سمت ہے۔ آج کی راہیں کوئے جاناں کو نہیں جاتیں۔ آج کا اِنسان اپنے آپ سے فرار چاہتا ہے۔ اپنے جامے سے نکلنے والا اِنسان اپنی بے مائیگی کا احساس نہیں کرتا۔ 
وسیع وبسیط خلا اُسے کسی بنانے والے کی طرف متوجہ نہیں کرتی! انسان جلدی جلدی محنت کرتا ہے۔
اُس آدمی کی طرح ‘جو گھاس کی رَسّی بُن رہا تھا‘ اور اُس کے پاس اُس کا گدھا بُنی ہوئی رَسّی کو کھاتا جا رہا تھا… برسوں کی محنت کے بعد اُس کی کُل پُونجی رسّی کا اُتنا حِصّہ تھی‘ جو اُس کے ہاتھ میں تھی… باقی گدھا کھا چکا تھا۔ اِنسان محنت کرتا جا تا ہے اور اُس کی محنتیں مِٹتی جاتی ہیں… اُس کا حاصل کیا ہے… اُس کی موجود زندگی… باقی سب لا محدود ماضی کی نذر ہو جاتی ہے۔
محسوسات سے محروم اِنسان‘ معلومات کے سفر پر روانہ ہے…!! انجام نہ جانے کیا ہو گا! 
اِنسان فطرتاً عجول بروزنِ جہول ہے۔ اِنسان نے ذرّے کا دِل چِیر کر طاقت دریافت کی ہے لیکن ذرّے میں طاقت پیدا کرنے والے کو دریافت نہیں کر سکا۔ اِنسان نے آسمانوں کے راستے دریافت کیے ہیں لیکن اُسے دِل کا راستہ نہیں ملا… باہر کی کائنات نے اِنسان کو اندر کی کائنات سے غافل کر رکھا ہے۔
 
خارجی کائنات میں رفتار ہے، گردشیں ہیں، عُجلت ہے۔ زمان و مکاں کی وُسعتوں میں ہر شے تیزی سے متحرک ہے۔ اِنسان اِس حرکت سے خود ہی متحرک ہو جاتا ہے۔ وہ لپکتا ہے ستاروں پر، وہ دوڑتا ہے سایوں کے پیچھے ، بھاگتا ہے سرابوں کے تعاقب میں، وہ چاہتا ہے کہ وہ راز ہائے سَر بستہ معلوم کر لے… لیکن اُسے معلوم نہیں کہ وہ خود ہی کلیدِ اَسرار ہے، وہ خود شاہکارِ تخلیق ہے، حُسنِ لازوال کا مُرقّعِ جمال ہے… جب تک وہ اپنا راز دریافت نہ کرے ‘وہ رازِ کائنات معلوم نہیں کر سکتا۔
اُس کا بیرونی سفر تیز رفتار ہے لیکن اندرون کا سفر کسی عُجلت کا تقاضا نہیں کرتا۔ اُس کی باطنی کائنات ‘ داخلی دُنیا، ہر بیرونی، ظاہری اور خارجی کائنات سے زیادہ وسیع و عریض ہے، زیادہ خوبصورت ہے، زیادہ دِلچسپ و دِل پذیر ہے۔ 
رفتار کے سفر نے اِنسان کو اُس کے اصل سفر سے الگ کر دیا ہے۔ اِنسان خود ہی روبوٹ بن کے رہ گیا ہے۔ وہ مُلک مُلک پھرتا ہے‘ سکون کی تمنا میں… شہر شہر، نگر نگر چھانتا ہے‘ دولت کی تلاش میں۔
وہ مُلکِ دِلبری کا راستہ نہیں جانتا ‘جہاں دولت ِ تسکین کے خزانے مستور ہیں۔ تیز رفتار اِنسان‘ سایہٴ دیوار ِیار سے محروم ہے! 
آج کا اِنسان ، تمام تر آسائشوں اور رفتاروں کے باوجود اکابرینِ سلف کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ دستور ِحیات کی اساس ‘ماضی کے عظیم اِنسانوں نے رکھی۔ آج کی عمارت اُسی بنیاد پر قائم ہے۔ لیکن آج کا اِنسان اُس عمارت کو جلد مکمل کرنا چاہتا ہے اور تکمیلِ تہذیب‘ اختتامِ تہذیب ہے۔
 
جلد رفتاری نے پہلے بھی بڑے گُل کھِلائے ہیں۔ جلد بازیوں نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں جلوے دِکھائے ہیں۔ تیز رفتار جہازوں اور گاڑیوں اور بسوں نے اِنسانی زندگی کو جس طرح تباہ کیا ‘اِس کی مثال ہی نہیں ملتی۔
آج کا عُجلت باز اِنسان دُنیا کو تیزی سے ایک نئی راہ کی طرف لے جا رہا ہے۔ آج کے اِنسان کو جلد بازی نے ایک عجب خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
یہ خوف محض اندیشہٴ خیال نہیں… یہ خوف ایک حقیقت بن کر اُفقِ زندگی پر طلوع ہو رہا ہے۔ یہ خوف ہے ایک تیسری جنگ ِعظیم کا ‘یہ جنگ بین السّیاروی جنگ ہو گی… اور اِس جنگ کی تعریف صرف یہی ہو سکتی ہے کہ اِس کے بعد کوئی اور جنگ نہیں۔ دنیا میں کوئی اِنسان ہی نہ ہو گا تو جنگ کون لڑے گاِ کِس کے ساتھ، کِس کے لیے!
تیز رفتار ارتقاء‘ بظاہر اِنسان کو اِنسان کے قریب لایا لیکن اصل میں خطرہ ‘خطرے کے قریب آیا ہے! 
آج کی مہذب و متمدن دُنیا میں، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دُنیا میں‘پس ماندگی کا قائم رہنا اِنسان کے لیے بڑا پیغام ہے۔
 
اِنسان کے اِنفرادی وجود کی طرح‘ کسی ایک حِصّے کا حد سے بڑھ جانے کا مطلب وجود کی ہلاکت ہے… اِسی طرح ایک قوم یا ایک سماج کا حد سے نکل جانا‘ وجود ِآدم کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ 
جہاں رفتار بڑھی ہے وہاں فاصلے بھی کروڑوں نوری سالوں کے ہیں۔ نتیجہ پھر وہی ہو گا‘ اِنسان بے بس ہو کر بیدم ہو جائے گا… ابھی تو یہ کہکشاں بھی اِنسان کی دَسترس سے باہر ہے اور ابھی لاکھوں کہکشائیں ہیں دریافت کرنے والی …لا تعداد سیارے بھیجے جائیں تو بھی لا محدود فاصلے نہیں مِٹتے… اور اِنسان کی زندگی … چند محدود ایّام کے علاوہ کچھ نہیں۔
ترقی ایک ایسے جہاز کی طرح ہے جو سطحِ سمندر پر اپنے آپ کو موجوں سے محفوظ کر لیتا ہے ۔ اِس کا سفر تیز رفتار تو ہے لیکن اِس جہاز کے نصیب میں منزل کا نام ہی نہیں۔ بے نام اور بے نشان منزلوں کی طرف گامزن ہونے والا اِنسان اپنی رفتار پر کیا ناز کر سکتا ہے! 
گھر سے قبرستان تک کا فاصلہ ہے ‘کتنی رفتار درکار ہے۔ تقریبا ًپچاس سال کی مسافت ہے… تیز رَوی کیا کرے گی! آج بھی دن چوبیس گھنٹوں کا ہے، سال بارہ مہینوں کا… موسم اپنی پُرانی رفتار سے بدلتے ہیں، بچپن اپنی رفتار سے کٹتا ہے ،جوانی کے ایّام اپنی رفتار سے گزرتے ہیں اور پھر بڑھاپا…اِنسان کو کوئی رفتار بھی توپناہ نہیں دے سکتی۔
وہ سمندروں میں یا سیاروں میں چھُپ جائے تو بھی اُسے زِندگی کا قرض واپس کرنا ہے۔ سانس کی ڈوری راستے میں ہی کٹتی ہے… اِنسان کے گِرد مجبوریوں اور پابندیوں اور سُست رَوی کا حِصار ہے …اُس کی تیزی اُسے ہلاک کر رہی ہے۔ وہ جتنی تیزی سے علاج دریافت کرتاہے ‘اُتنی ہی تیزی سے نئی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ عجب حال ہے اُس جلد باز مسافر کا… بُرا حال ہے اُس تیز رفتار شکار کا… جس کے آگے فاصلے ہیں ‘نہ طے ہونے والے اور جس کے پیچھے اُس کی جان کا دُشمن شکاری اُس کے دِن گِنتا ہُوا ہواؤں کے گھوڑے پر سوار آرہا ہے۔
اِنسان بھاگتا ہے لیکن کب تک؟ آخر اَنہونی ہو کے رہتی ہے اور نا معلوم اور بے سمت فاصلوں کا تیز رفتار مسافر خاموشی سے موت کی آغوش میں سو جاتا ہے۔ 
ترقی یا ترقی پسندی یا اِرتقاء نے اِنسان کو کیا دِیا ہے؟ آفرین ہے ‘اِنسان کی تیز رفتاریوں پر… تحسین ہے‘ تعجیل کے پُجاریوں کے لیے… رفتار حد سے نکل گئی، اِنسان جامے سے باہر ہو گیا! 
تیز زندگی… تیز تر گردشِ خون ‘ آخر رَنگ لاتی ہے… اِنسان تو اِرتقاء کے اِمتحان میں پاس ہو جاتا ہے… بس صرف ہارٹ فیل ہو جاتا ہے۔
 
آج کا معاشرہ، تیز رفتار معاشرہ‘ اِنسانی قدروں کا قبرستان ہے ۔بشر کی کوئی صفت‘ آج کے بشر میں نہیں۔ فطرت کے قوانین توڑنے والا اِنسان دراصل خود کو توڑ رہا ہے اور جلدی جلدی توڑ رہا ہے۔ ابھی وَقت ہے کہ وَقت کی رفتار کے ساتھ چلا جائے … بے موسم پھل اور بے وَقت حاصل آخر اِنسان کو نقصان پہنچائیں گے… فصلوں کو جلد اَزجلد اُگانے کی کوشش زمینوں کی توانائی ختم کر رہی ہے…اور اِس طرح حاصل ہونے والے اَجناس اور پھل بے ذائقہ ہی نہیں ‘نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ رفتار وہی بھلی‘جس سے سانس نہ پھُولے۔ 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif