Episode 37 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 37 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

موت کا خوف 
موت سے زیادہ خوفناک شے موت کا ڈر ہے۔ جیسے جیسے زندگی کا شعور بڑھتا ہے ،زندگی کی محبت بڑھتی ہے‘ موت کا خوف بھی بڑھنے لگتا ہے۔ جس کو زندگی سے محبت نہ ہو‘ اُسے موت کا خوف کیا ہو سکتا ہے۔ 
جب انسان کے دِل میں موت کا خوف پیدا ہو جائے‘ تو اُس کی حالت عجیب ہوتی ہے۔ایسے جیسے کوئی اِنسان رات کو اندھیرے سے بھاگ جانا چاہے ‘یا دِن کو سورج سے بھاگ جانا چاہے‘ بھاگ نہیں سکتا۔
 
کہتے ہیں کہ ایک آدمی کو موت کا خطرہ اور خوف لاحق ہو گیا۔ وہ بھاگنے لگا۔ تیز بہت تیز ۔اُسے آواز آئی ”موت تیرے پیچھے نہیں‘تیرے آگے ہے۔“ وہ آدمی فوراًمڑا اور اُلٹی سمت بھاگنے لگا۔ آواز آئی… ”موت تیرے پیچھے نہیں‘تیرے آگے ہے۔“ وہ آدمی بولا” عجیب بات ہے‘ پیچھے کو دوڑتا ہوں تو پھر بھی موت آگے ہے۔

(جاری ہے)

آگے کو دوڑتا ہوں تو پھر بھی موت آگے ہے؟“ آواز آئی”موت تیرے ساتھ ہے۔

تیرے اندر ہے۔ ٹھہر جاؤ۔ تم بھاگ کر نہیں جا سکتے۔ جو علاقہ زندگی کا ہے ‘وہ سارا علاقہ موت کا ہے۔“ اُس آدمی نے کہا ”اب میں کیا کروں؟“ جواب مِلا ”صرف انتظار کرو۔ موت اُس وقت خود ہی آجائے گی ‘جب زندگی ختم ہو گی اور زندگی ضرور ختم ہوگی۔ زندگی کا ایک نام ہے‘ موت …زندگی اپنا عمل ترک کر دے تو اُسے موت کہتے ہیں۔“ اُس آدمی نے پھر سوال کیا ”مجھے موت کی شکل دِکھا دو تاکہ میں اُسے پہچان لوں“… آواز آئی ”آئینہ دیکھو۔
موت کا چہرہ‘ تیرا اپنا چہرہ ہے۔ اِسی نے میّت بننا ہے۔ اِسی نے مُردہ کہلانا ہے۔ موت سے بچنا ممکن نہیں۔“ 
موت کے خوف کا کیا علاج! لا علاج کا بھی کوئی علاج ہے! لا علاج مرض ‘مہلک مرض صرف زندگی کا عارضہ ہے جس کا انجام صرف موت ہے۔ زندگی ایک طویل مرض ہے‘ جس کا خاتمہ موت کہلاتا ہے۔ روزِ اوّل سے زندگی کا یہی سلسلہ چلا آرہا ہے کہ زندگی کا آخری مرحلہ موت ہے۔
اِس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ زندگی کا آخری حصہ ہے۔ ہم کشاں کشاں اِس کی طرف سفر کرتے رہتے ہیں۔ ہم خود ہی اِس کے پاس پہنچتے ہیں۔ زندگی کے اِمکانات تلاش کرتے کرتے‘ ہم اُس بند گلی تک آجاتے ہیں‘ جہاں سے مڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ آگے راستہ بند ہوتا ہے۔ ہم گھبرا جاتے ہیں اور پھر ہم شور مچاتے مچاتے خاموش ہو جاتے ہیں‘ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ 
موت نہ ہو تو شاید زندگی ایک طویل اَلمیہ بن جائے۔
ایک طویل دورانیے کا بے ربط ڈرامہ ‘کہ ٹی وی چلتا رہے اور لوگ بور ہو کر سو جانا پسند کریں۔ کہتے ہیں کہ ایک لافانی دیوی کو ایک جوان اور خوبصورت لیکن فانی انسان سے محبت ہو گئی۔اُس نے غلطی کو محسوس کیا کہ یہ تو فانی انسان ہے ‘مر جائے گا۔ وہ دیوتاؤں کے عظیم سردار کے پاس گئی کہ اے عظیم دیوتا! میرے محبوب کو لا فانی بنا دو… دیوتا نے کہا !یہ نہیں ہو سکتا۔
انسان کو موت کا حق دار بنایا جا چکا ہے۔ دیوی نے اِصرار کیا۔ فیصلہ ہو گیا کہ اُسے موت نہیں آئے گی۔ دیوی خوش ہو گئی ۔وقت گزرتا گیا۔ بڑھاپا آیا…خوبصورت چہرے پر جھُریاں نظر آنے لگیں… توانائی ‘کمزوری کی زد میں آگئی۔ وقت گزرتا گیا۔ بینائی رُخصت ہو گئی۔ سماعت بند ہو گئی۔ یاداشت ختم سی ہو گئی۔ مضمحل ہو گئے قواء سارے۔ 
وہ انسان چلایا ”اے دیوی! خدا کے لیے مجھے نجات دلائیں۔
اِس عذاب کو برداشت نہیں کر سکتا۔“ دیوی نے اپنی دوسری غلطی کو بھی محسوس کِیا۔ پھر حاضر ہوئی‘ دیوتاؤں کے عظیم سردار کے پاس کہ ”اے دیوتاؤں کے بادشاہ!… میرے محبوب کو موت عطا کرو۔ اِنسان کو اِنسان کا انجام دے دو۔“ 
بس یہی راز ہے کہ اِنسان کو اِنسان کا انجام ہی راس آتا ہے۔ بات سمجھنے کی ہے‘ گھبرانے کی نہیں۔ مقام غور کا ہے ‘ خوف کا نہیں۔
زندگی صرف عمل ہی نہیں‘ عرصہ بھی ہے۔ اگر صرف عمل ہوتا تو کوئی حرج نہ تھا۔ اِس عمل کے لیے ایک وقت بھی مقرر ہو چکا ہے۔ اِس وقت کے اندر اندر ہی سب کچھ ہونا ہے کیونکہ اِس وقت کے بعد کچھ بھی نہیں ہونا۔ ہمارا ہونا‘ صرف نہ ہونے تک ہے۔ اگر ہم زندگی کو دینے والے کا عمل مان لیں تو اِس کے ختم ہونے کا اندیشہ نہ رہے۔ دینے والا ہی زندگی لینے والا ہے۔
ڈر کی کیا بات ہے۔ دِن بنانے والے نے رات بنائی۔ رات بنانے والا یہ دِن طلُوع کرتا ہے۔ پہاڑ بنانے والا دریا بناتا ہے۔ صحرا بنانے والا نخلستان پیدا فرماتا ہے۔ زندگی تخلیق کرنے والا موت کو پیدا فرماتا ہے۔ یہ اُس کے اپنے اعمال ہیں۔ ہم صرف اُس کے عطا کیے ہوئے حال سے گزرنے پر مجبور ہیں۔ اُس نے زندگی اور موت کو صرف اِس لیے پیدا کیا کہ دیکھا جائے کہ کون کیا عمل کرتا ہے؟ اِس کائنات میں کوئی بھی تو ایسا انسان نہیں آیا ‘جو گیا نہ ہو۔
کوئی پیدائش موت سے بچ نہیں سکتی۔ جو کچھ بھی ہے ‘نہ ہو گا۔ ہر شے ‘ لا شے ہو جائے گی ‘مگر اُس کی اپنی ذات جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گی۔ 
بے مصرف زندگی کی سزا موت کا خوف ہے۔ با مقصد حیات ‘موت سے بے نیاز، موت کے خوف سے آزاد‘ اپنے مقصد کے حصول میں مصروف رہتی ہے۔ عظیم انسان بھی مرتے ہیں‘لیکن اُن کی موت اُن کی عظمت میں اضافہ بھی کرتی ہے۔
موت اِنسان سے اُس کی بلند نگاہی، بلند خیالی، بلند ہمتی چھِین نہیں سکتی۔ وہ لوگ موت کے سائے میں زندگی کے ترانے گاتے ہیں۔ زندگی کا نغمہ الاپتے ہیں۔ زندگی کے اِس مختصر عرصے میں جواں ہمت ‘آسمانوں کو چھو آئے… عالی مرتبت‘ عرش کی بلندیاں سَر کر آئے اور کم حوصلہ‘ اپنے اندیشوں کے خول سے باہر نہ نکلے۔ موت‘ فانی زندگی کو دائمی حیات میں بدل دیتی ہے۔
فنا سے بقا کا سفر موت کے گھوڑے کی پشت پر ہوتا ہے۔ موت کے لیے تیار رہو۔ موت کا خوف نہ کرو۔ 
موت کا خوف اس لیے ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے عزیزوں سے جدا ہو جائیں گے۔ عزیزوں کو تو ہم زندگی میں ہی جدا کر دیتے ہیں۔ بیٹیوں کی رُخصت کے لیے کتنی دُعائیں کرتے ہیں؟ ہم صاحب ِتاثیر اُسی بزرگ کو کہتے ہیں جو ہماری بیٹیوں کو رُخصت کرا دے… اور صاحبانِ تاثیر ہیں کہ جدائیوں کے لیے دُعابھی نہیں کرتے، کیونکہ جدائی تو آخر ہو ہی جانی ہے۔
ایک آدمی کا باپ فوت ہو گیا۔ وہ بڑا رویا۔ بڑا پریشان ہوا…موت نے بڑا ظلم کِیا۔ اُسے چَین نہ آیا۔ اُس کے گُرو نے کہا ”تم اِتنے پریشان کیوں ہوتے ہو۔ کچھ دنوں ہی کی تو بات ہے‘ تم بھی اپنے باپ کے پاس پہنچا دیے جاؤ گے۔“ بس یہی ہے‘ موت کا راز… یا …زندگی کا راز کہ ہم کچھ عرصہ اپنی اولاد کے پاس رہتے ہیں اور پھر اپنے ماں باپ سے جا ملتے ہیں۔ ڈر کس بات کا ! 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif