Episode 10 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 10 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

خوف اور شوق 
ڈر اِنسان کے اِحساس کا ایک قوّی حِصّہ ہے۔ ہر حسّاس آدمی خوفزدہ رہتا ہے۔ خوف کی وجہ معلوم ہو یا نا معلوم ‘ خوف قائم رہتا ہے۔ خوف اِنسان کی سَرِ شت میں شامل ہے۔ اِس سے مفر مشکل ہے۔ 
جب تک زندہ رہنے کی خواہش زندہ ہے‘زندگی کے ختم ہو جانے کا ڈر ختم نہیں ہو سکتا۔ ڈر ایک سائے کی طرح اِنسان کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے۔
نئی خواہشیں‘ نئے اندیشے پیدا کرتی ہیں اور نئے اندیشے‘ نئی خواہشیں تخلیق کرتے ہیں۔ خواہش کے نہ پُورا ہونے کا ڈر ‘ہر خواہش کے باطن میں موجود رہتا ہے اور ڈر کے باوجود اِنسان خواہش کو نہیں چھوڑتا۔ 
بے یقینی کی فضا اور غیر یقینی حالات نے اِنسان کو اندیشے عطا کیے ہیں۔ زندگی کا چراغ موت کی آندھیوں کی زَد میں رہا ہے۔

(جاری ہے)

موت سے زیادہ خوفناک شے موت کا ڈر ہے۔

یہ ڈر زِندگی کو گھُن کی طرح کھائے چلا جا رہا ہے۔ اِنسان جب یہ سوچتا ہے کہ اُس کی ہر چیز اُس سے چھِن جائے گی اور وہ اَعِزّہ و اَقرَبا کو چھوڑ کر خالی ہاتھ کسی نامعلوم منزل کی طرف اکیلا روانہ کر دیا جائے گا‘ تو وہ خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ 
موت کا عمل تو زندگی کے عمل کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ بچپن‘ بچپن ہی میں مرجاتا ہے۔ جوانی ختم ہو جاتی ہے۔
بینائی کے چراغ مدھم ہو جاتے ہیں۔ اِنسان کی آنکھوں کے سامنے محبوب اور مانوس چہرے رُخصت ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ نقشے ،جغرافیے اور تاریخیں بدل جاتی ہیں۔ آرزوئیں ‘ حسرتیں بن جاتی ہیں۔ 
موت صرف سانس یا آنکھ کے بند ہو جانے کا نام نہیں۔ ہر آرزُو کی موت‘ موت ہے۔ بلکہ عزیزوں کی موت ‘اپنی موت ہے۔ وابستگی اور تعلق کی موت‘ اپنی موت ہے۔
مقصد مر جائے‘تو اِنسان مر جاتا ہے۔ بے مقصد زندگی چاہے کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو‘ موت سے بدتر ہے۔ بے مقصد اِنسان بے خوف نہیں ہو سکتا۔ با مقصد اور بامعنی زندگی موت کے ڈر سے بے نیاز ہوتی ہے۔ 
موت کے ڈر کے علاوہ آج کی زندگی کو اور بھی کئی خطرات کا ڈر رہتا ہے۔ ہم اپنے اعمال کی عِبرت سے ڈرتے ہیں۔ ہمیں اُس دِن سے خوف آتا ہے‘ جب راز فاش ہوں گے اور بداعمالیاں چہروں پر لکھی جائیں گی، جب مجرم کی زبان خاموش کر دی جائے گی اور مستند گواہیاں‘ اُس کے خلاف رَطبُ الِلسّان ہوں گی۔
وہ دِن‘ کسی دِن بھی آسکتا ہے۔ اِس خوف سے نجات کا راستہ صرف اور صرف توبہ ہے۔ 
دولت کی محبت غریبی کا ڈر پیدا کرتی ہے۔ اِنسان اِسی لیے تو دولت جمع کرتا ہے کہ غریبی سے نجات ملے۔ وہ جتنا مال جمع کرتا ہے ‘اُس سے زیادہ کی خواہش رہتی ہے۔ اِس طرح دولت لَوبھ پیدا کرتی ہے۔ اور یہ لَوبھ خوف پیدا کرتا ہے۔ لالچ نہ نکلے‘ تو خوف نہیں نکل سکتا۔
 
”لاخوف“،” لاتَخَفْ“ اور” لایَحْزَنُون“ کی منزلیں طے کرنے والے‘ مال کی محبت سے آزاد ہوتے ہیں۔ دولت کی تمنّا کے لیے خوف کا عذاب لِکھ دِیا گیا ہے۔ ہم اپنے آپ کو جتنا محفوظ کرتے ہیں‘ اُتنا ہی غیر محفوظ ہونے کا ڈر ہمیں دبوچ لیتا ہے۔ سیکیورٹی کی تمنّا‘خوف کا دوسرا نام ہے۔ 
جو اِنسان دوسروں کو خوفزدہ کرتا ہے‘وہ خود خوف میں مبتلا رہتا ہے۔
جو طاقت خوف پیدا کرتی ہے ‘وہ خود خوفزدہ رہتی ہے۔ طاقتور کو کمزور ہونے کا خوف کھا جاتا ہے۔ طاقت کا اِستعمال خوف کے ساتھ نفرت بھی پیدا کرتا ہے۔ کمزور اِنسان کی نفرت ہی طاقتور کے لیے خوف ہے۔ یہ خوف طاقت کی موت ہے۔ 
کوئی دنیاوی طاقت ہمیشہ کے لیے طاقتور نہیں رہ سکتی۔ فرعون کو موسٰی  کی پیدائش سے پہلے ہی خوف لاحق ہو گیا تھا۔ فرعون کی دولت، اُس کا دَبدبہ، اُس کی حکومت اور اُس کے لشکر ‘اُسے ایک بچّے کے خوف سے نہ بچا سکے۔
ایک اِنسان کے خوف نے ایک بادشادہ کو چَین سے بیٹھنے نہ دیا اور آخر کار طاقت غرقِ دریا ہو گئی۔ اِقتدار اور اِختیارکا بے قرار رہنا فِطری بات ہے۔ 
کچھ لوگوں کے لیے ماضی کی یاد خوف پیدا کرتی ہے۔ کچھ لوگ مستقبل کے اندیشوں سے دو چار ہیں۔ خوف موجود لمحے کا تو ہوتا ہی نہیں۔ خوف صرف جانے والے یا آنے والے وقت کا ہوتا ہے۔ گُزرے ہُوئے زمانے کا خوف‘ دَراصل آنے والے زمانے کا خوف ہے۔
ماضی صرف اُسی وقت خوفزدہ کرتا ہے ‘جب اُس کا ناخوشگوار نتیجہ ابھی باقی ہو۔ 
اُس کی رحمت پر نگاہ رکھی جائے ‘تو خوف ختم ہو جاتا ہے۔ خوف آخر مفروضہ ہی توہے۔ وہ اَلمیہ ‘جو ابھی رُونما نہیں ہُوا اور رُونما ہو سکتا ہے ‘اندیشہ کہلاتا ہے۔ اِنسان اگرمُستقبل کو آئینہٴ تخیّل میں اُتارنے کی بجائے حال کے فرض کا قرض ادا کرے ‘ تو خوف سے بچ جاتا ہے۔
مُستقبل صرف خواب ہی تو ہے… خوفناک ہو یا حَسِین‘ محتاجِ تعبیر ہے اور ماضی کتنا ہی بھیانک ہو‘ ایک تصویر ہی تو ہے… بے جان تصویر… حال اور صرف حال‘ حقیقت ہے۔ حال زندگی ہے… عمل ہے… خوف سے آزاد ۔جو ہُوا‘ سَو ہو چکا۔ جو ہونا ہے‘ سَو ہو جائے گا۔ 
صرف خوف کسی خطرے کو ٹال نہیں سکتا۔ صرف خوفزدہ رہنے سے تو دُشمن نہیں مرتے۔ عمل کی ضرورت ہے اور عمل کے لیے خوف سے نجات ضروری ہے۔
 
اِسی فانی اور مختصر زِندگی میں لوگوں نے خوف سے آزاد رہ کر کارنامے سَر انجام دیے، عظیم تخلیقات ہوئیں، تہذیبیں پیدا ہوئیں، عجائبات بنائے گئے، تمدّن پیدا ہوئے اور پُرانے کھنڈرات کے دامن میں نئی عمارتیں بنائی گئیں۔ 
زندگی صرف خوفزدہ رہنے کے لیے نہیں ملی۔ خوف‘ ترقی سے محروم کر دیتا ہے اور خوفزدہ اِنسان اپنے اندر ہی ریت کی دیوار کی طرح گِر جاتا ہے اور یوں زندگی ہی میں مر جاتا ہے۔
عظیم اِنسان موت کی وادی سے باوقار ہو کر گُزرتے ہیں۔ 
دَراصل کچھ مزاج ہی ایسے ہوتے ہیں‘جو ہر حال میں ڈرتے ہیں۔ عبادت کریں تو اُس کے نا منظور ہونے کا اُنہیں ڈر رہتا ہے۔ وہ سفر کریں تو حادثات کا خطرہ اُن کے دِل کی دھڑکنیں تیز رکھتا ہے۔ دُھوپ ہو تو اُنہیں دُھوپ سے ڈر لگتا ہے۔ بارش ہو تو بارش سے ۔ وہ بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرج سے ڈرتے ہیں۔
وہ کسی نا گہانی آفت کی گرفت کے اِمکان سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ اُن کے قلوب کی سَر زمین میں ہمہ وقت زلزلے آتے رہتے ہیں۔ وہ ہر وابستگی سے ڈرتے ہیں۔ وہ قُربتوں سے بھی ڈرتے ہیں اور فاصلوں سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں۔ اُن کے لیے ہر مشاہدہ خوف پیدا کرتا ہے۔ اندیشوں کی آکاس بیل اُن کی زِندگی کے شجر کو لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اُن کی ہستی‘ اُس ٹُوٹے ہوئے جہاز کی طرح ہوتی ہے‘ جسے کوئی ہوا بھی راس نہیں آتی۔
 
بُزدل اِنسان کو کوئی حالت‘ خوف سے آزاد نہیں ہونے دیتی۔ کوئی نہ کوئی خطرہ اُس کے وجود میں موجود رہتا ہے۔ اُسے دَریا میں ڈُوب جانے کا ڈر رہتا ہے۔ صحرا میں پیاس سے مر جانے کا ڈر رہتا ہے۔ اُسے دُنیا کا ڈر رہتا ہے۔ عُقبٰی کا ڈر رہتا ہے۔ وہ شاید یہ نہیں جانتا کہ اللہ کی رحمت اُس کے غضب سے وسیع تر ہے۔ یہ زندگی اندیشوں کے لیے نہیں پیدا کی گئی۔
یہ زندگی اُس کی رَحمت اور اُس کے فضل کے حصول کے لیے دی گئی ہے۔ راتیں ہمیشہ تاریک نہیں ہوتیں اور کوئی تاریک رات ایسی نہیں جو دِن کے اُجالے میں ختم نہ ہو۔ سورج ضرور طلوع ہوتا ہے… کامرانیوں کا، سَرفرازیوں کا۔ اعتماد اور یقین حاصل ہو جائے ‘تو اندیشے ختم ہو جاتے ہیں۔ اعتماد ‘محبت سے حاصل ہوتا ہے، خدمت سے حاصل ہوتا ہے، عبادت سے حاصل ہوتا ہے۔
جس زندگی میں شوق ہو گا‘ اُس میں خوف نہیں ہو گا۔ خوف دوزخ ہے‘ شوق جنت۔ 
مفادات کو مُقدّم سمجھنے والے مقامِ شوق نہیں سمجھ سکتے۔ شوق کا تعلق دِل سے ہے ،مفادات کا واسطہ دماغ سے ہے۔ دِل‘قربانیاں پیش کرتا ہے، عقل‘ حاصل کی تلاش میں سَرگرداں ہے۔ قربانیاں پیش کرنے والے کو کوئی ڈر نہیں ہوتا اور حاصل کی تمنّا کرنے والا محرومی کے اندیشوں سے نہیں نکل سکتا۔
جب تک یہ زندگی اُس مقصد کے لیے نہ صَرف کی جائے جس مقصد کے لیے اِسے تخلیق کیا گیا‘ یہ خوف کے عذاب سے نہیں بچ سکتی اور وہ مقصد خالقِ ہستی نے واضح اور واشگاف الفاظ میں فرما دیا ہے۔ پیدا کرنے والے کی منشا کے خلاف جو زندگی ہو گی‘ خوف زدہ ہو گی۔ خالق سے دُوری جس شکل میں بھی ہو‘ڈر پیدا کرے گی اور خالق کا قُرب جس حالت میں بھی ہو ‘خوف سے نجات دے گا۔ فیصلہ اِنسان نے خود کرنا ہے۔ 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif