Episode 19 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif
قسط نمبر 19 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف
مفروضے، اندازے اور مجبوریاں
کہتے ہیں ‘اور کہنے والے بڑے بزرگ لوگ ہیں اور بزرگوں کے کہے ہوئے میں دوسرے بزرگوں نے اضافے بھی کیے ہیں۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ کہتے ہیں‘ اضافے کے ساتھ… کہ ایک بستی میں چار افراد تھے۔ اُس بستی کی کُل کائنات یہی چار افراد ہی تھے۔ یہی تھا سرمایہٴ دِین و ایمان۔ اُس بستی کی ساری بساط یہی چار افراد تھے یا یوں کہیے کہ یہی چار تنکے تھے اُس آشیانے کے۔ بہر حال وہ چاروں افراد اپنے اپنے احساس میں اور اپنے اپنے مفروضے میں ماہر تھے۔ اُن کو اپنے فن پر ناز تھا اور اُن کا فن ایک اندازہ تھا، ایک مفروضہ تھا، اُن کی غالباً مجبوری تھی۔
اُن میں ایک آدمی اندھا تھا۔ بڑا باتونی، بڑا فنکار، بڑا ہوشیار، بڑا نابغہٴ روزگار۔ اُس کے پاس سب کچھ تھا۔
(جاری ہے)
گفتگو تھی، جواز تھے، بیانات تھے، کیا نہیں تھا اُس کے پاس‘ لیکن مجبوری صرف یہ تھی کہ وہ اندھا تھا۔
اندھا ہونے کے باوجود اُسے اپنی کَورچشمی کا اِحساس تک نہیں تھا‘بلکہ اِس کے برعکس اُسے اپنی دُور بینی پر ناز تھا۔ وہ ستاروں کی بات کرتا، ستارہ شناسی کا ذِکر کرتا، دُنیا میں ہونے والا ہر واقعہ گویا اُس کے رُوبرُو تھا‘ کیونکہ اُس نے تو صرف جھوٹ ہی بولنا تھا اور جھوٹ کے لیے کچھ بھی نا ممکن نہیں۔ وہ اپنے تینوں ساتھیوں کو واقعات سُناتا اور اُنہیں بتاتا کہ اُس پر ہر چیز آشکار ہے۔دُوسرا آدمی …دُوسرا آدمی ہمیشہ دُوسرا ہی ہوتا ہے۔ اندھے کے مقابلے میں دُوسرا آدمی بہرا تھا۔ اُسے بہرا ہی ہونا چاہیے تھا۔ وہ شخص بڑے کمالات کا مالک سمجھتا تھا خود کو۔ وہ اِس کائنات کے نغمات کو سننے کا دعویٰ رکھتا تھا اور بیچارہ سماعت سے محروم تھا۔ وہ کسی کی کچھ نہیں سنتا تھا۔ مجبور تھا، بے بس تھا۔ دُور کی آوازیں اور قریب کے نغمے سننا اُس کا دعویٰ تھا۔ وہ افواہوں کا سرچشمہ تھا۔ وہ بات شروع کرتا تو کہتا ”بھائیو! مَیں نے سُنا ہے کہ ایک بڑا واقعہ بلکہ معرکہ ہونے والا ہے۔“ اُس سے کوئی نہ پوچھتا کہ تُو نے کہاں سے سُنا ہے۔ اپنے پاس سے باتیں بنانے والے سے کون پوچھ سکتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیوں کہہ رہا ہے۔ بہرحال بہرا اِنسان‘ اخبارِ جہاں سُناتا تھا اور اپنے ساتھیوں کو اپنی سماعت کی کرشمہ کاریاں سُنا سُنا کر مرعوب کرتا تھا۔ اُس کے تینوں ساتھیوں نے اُسے برداشت کرنا سیکھ لیا تھا۔ وقت گُزر رہا تھا۔
تیسرا آدمی چیتھڑوں میں ملبوس تھا! لیکن اُس کا خیال بلکہ حُسنِ خیال بلکہ حُسنِ ظن یہ تھا کہ دُنیا اُس کے لباسِ فاخرہ کی دُشمن ہے۔ اُس سے برہنگی کا لباس بھی چھین لے گی‘ یہ لالچی اور مطلب پرست دُنیا۔ وہ ہمیشہ اپنی دولت کا ذِکر کرتا۔ اپنے سرمائے کا تذکرہ کرتا۔ اُس کو اندیشہ تھا کہ دُنیا اُسے لُوٹنا چاہتی ہے۔ اُسے لباس سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ وہ بیچارہ مجبور تھا کہ اپنے آپ کو لباسِ فاخرہ میں مَلبُوس سمجھے۔ وہ رات کو جاگتا رہتا کہ کہیں چور نہ آجائے۔ کسی دُوسری بستی کے لوگ آکر اُس کا سرمایہ نہ لے جائیں۔ بیچارہ بڑی اَذیّت میں تھا۔ اثاثہ نہ رکھنے کے باوجود ‘اثاثے والے لوگوں کے اندیشے لاحق تھے‘ اُس غریب کو۔ سرمایہ داروں کی بیماری تھی‘ اُس بیچارے بے سرو ساماں کو۔ مجبور ی ہی مجبوری تھی، عذاب ہی عذاب تھا۔
چوتھا آدمی… بس چوتھا آدمی ‘اُس بستی کی ہستی کا چوتھا پایہ تھا۔ وہ بیچارہ اپاہج تھا… پاؤں سے محروم‘ لیکن کمال اعتماد تھا اُس کے پاس کہ وہ اپنے آپ کو تیز رفتار سمجھتا تھا۔ وہ چل نہیں سکتا تھا‘بغیر سہارے کے‘ لیکن اُسے اِحساس تھا کہ وہ بہت ہی تیز رفتار ہے، کسی ریس کے گھوڑے کی طرح۔ بیچارہ مجبور‘ مفروضہ ہی مفروضہ، اندازہ ہی اندازہ۔
کہانی ختم ہو گئی‘ لیکن کہانی کیسے ختم ہو سکتی ہے۔ کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ حقائق ختم ہو جائیں تو بھی کہانیاں جاری رہتی ہیں۔
ایک دِن وہ چاروں افراد آپس میں مِل بیٹھ کر اپنی بستی کے بارے میں غور کر رہے تھے‘ اُس کی ترقی کے منصوبے بنا رہے تھے کہ اچانک ڈرامہ شروع ہو گیا‘بلکہ ڈراپ سین شروع ہو گیا۔
اندھا بولا ”صاحبان! میرے عزیز ہم وطنو! بلکہ غم وطنو! مَیں دیکھ رہا ہوں کہ دُشمن ہماری طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ ہم خطرے میں ہیں۔ غنیم آرہا ہے۔“
بہرا تائید کرتے ہوئے بولا ”ہاں یہ درُست ہے۔ مَیں دُشمن کے ٹینکوں کی آواز سُن رہا ہوں۔ اُس کے گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دے رہی ہیں۔“
ننگے نے فوراً اعلان کر دیا ”ہاں ہاں‘ دشمن کیوں نہیں آئے گا۔ اُسے میرے قیمتی لباس کی آرزُو تھی۔ بڑی دیر سے دُشمن موقع کی تلاش میں تھا۔“
لنگڑے نے سوچا اور فیصلے کے انداز میں بولا ”تو بھائیو! سوچ کیا رہے ہو۔ آؤ بھاگ چلیں۔“
کہانی یہاں ختم ہو جاتی تو اچھا تھا‘ لیکن جب سے علامتوں نے کہانیوں کو بامعنی بنایا ہے‘ کہانیاں ختم نہیں ہوتیں۔
بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اندھا وہ اِنسان ہے جو اپنے عیب نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اپنے آپ کو ”پرفیکٹ“ مانتا اور دُوسروں کو گُمراہ سمجھتا ہے۔
بہرا وہ اِنسان ہے جو واہمے سنتاہے، خوشامد سنتا ہے لیکن حق کی بات کے لیے اُس کے کان بند ہیں۔ اُس کے کان ‘اب کان نہیں ہیں۔
ننگا…ہر دُنیادار، غریب بیچارہ، خواہشات اور حاصل کے فرق میں پریشان رہنے والا‘ جس کا ہمیشہ یہی خیال ہے کہ لوگ اُس کے حِصّے کا مال لُوٹ کر لے جائیں گے۔
اور آخری آدمی… بس مجبوری دَر مجبوری، حصارِ وَقت کو توڑ کر نکلنے کی آرزو‘ لیکن حصارِ وقت میں پابند رہنے کی مجبوری۔ نکل سکتے ہو تو نکل کر دِکھاؤ۔ تم نہیں نکل سکتے۔ ہر آدمی اپنے اپنے حصار میں رہن رکھ دِیا گیا ہے۔ لوگ غور کیوں نہیں کرتے!
Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif
قسط نمبر 1
قسط نمبر 2
قسط نمبر 3
قسط نمبر 4
قسط نمبر 5
قسط نمبر 6
قسط نمبر 7
قسط نمبر 8
قسط نمبر 9
قسط نمبر 10
قسط نمبر 11
قسط نمبر 12
قسط نمبر 13
قسط نمبر 14
قسط نمبر 15
قسط نمبر 16
قسط نمبر 17
قسط نمبر 18
قسط نمبر 19
قسط نمبر 20
قسط نمبر 21
قسط نمبر 22
قسط نمبر 23
قسط نمبر 24

قلندر ذات (حصہ دوم)
Qalander zaat Part 2

مسکراہٹ
Muskrat

صلہ
Sila

سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں)
saat so saal baad ( Imran Khan niazi tareekh ke aaine mein )

مقدمہ شعر و شاعری
Muqadma Sher o Shayari

سوچ
Soch

بدلتے رشتے
Badaltay Rishtay

سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی
Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah
NovelAfsaneIslamicHistoryTravelogueAutobiographyUrdu LiteratureHumorousPoliticsSportsHealthPersonalitiesColumn And ProseSend Your Books & Requests