Episode 29 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif
قسط نمبر 29 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف
تعریف
تعریف سننے کی تمنّااِنسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے‘ لیکن اِس کمزوری کے اندر بعض اوقات اِنسان کی طاقت پنہاں ہوتی ہے۔ تعریف سننے کی آرزو میں اِنسان کے اندر کا خوابیدہ فنکار بیدار ہوتا ہے۔ فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے اور خراجِ تحسین وصول کرتا ہے۔ فن کی بقا ‘تعریف کے دَم سے ہے۔ تعریف نہ ہو‘ تو فن اَفسردہ ہو جاتا ہے۔
اِنسان کی صفات تعریف کی متقاضی ہیں۔ تعریف‘ خوشامد نہیں۔ خوشامد‘ بغیر صفت کے تعریف ہے۔ خوشامد ‘اُس بیان کو کہتے ہیں‘ جس کے دینے والا جانتا ہے کہ جھوٹ ہے اور سننے والا سمجھتا ہے کہ سچ ہے۔ خوشامد سننے کا طالب مریض ہے اور خوشامدی اِس مرض میں اضافہ کرتا ہے۔
بادشاہوں کو ظِلِ سبحانی کہلانے کا شوق دربارکو خوشامدیوں کی آماجگاہ بنا دیتا ہے اور یہ درباری‘ بادشاہوں کی آنکھوں پر خوشامد کی خوبصورت پٹیاں باندھ کر اُنہیں اُن کی اصلیّت سے بے خبر رکھتے ہیں۔
مُلکی معاملات کی اِصلاح کی بجائے شہنشاہ اپنے قصیدے سنتے ہیں اور رعایاکو مرثیہ خوانوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
(جاری ہے)
تعریف نہ ہو تو شاید دُنیا میں اِتنا ہنگامہ نہ ہو۔ لوگ جائز ناجائز دولت کما کر گھروں کو سجاتے ہیں۔ اُن میں قمقمے لگاتے ہیں۔ روشنیاں کرتے ہیں اور پھر دوستوں کو دعوت دیتے ہیں۔ تعریف ہوتی ہے اور پھر ہوتی ہی رہتی ہے۔ گھروں میں چراغاں رہتا ہے اور دِل اندر سے بجھتے جاتے ہیں۔ مال کی تعریف، مال کی نمائش کی تعریف‘ اِنسانوں کو اندھا کر دیتی ہے۔ جس اِنسان میں ذاتی صفات نہ ہوں‘وہ اپنے لباس سے لے کر اپنے مکان تک ‘اپنی ہر شے کی تعریف چاہتا ہے۔
تعریف کی تمنّا‘اِنسان کو بڑے کرب میں مبتلاکر دیتی ہے۔ وطن میں تعریف سننے کی تمنّامیں اِنسان پردیس تک پہنچ جاتا ہے۔ مال کماتا ہے۔ پردیس کی اَذیّت برداشت کرتا ہے۔ اُس کے گھر والے دولت کا اظہار کرتے ہیں، تعریف سنتے ہیں اور وہ پردیس میں تنہائی کی بھٹی میں جلتا ہے۔ سال میں ایک آدھ دفعہ وطن واپس آتا ہے ۔ دوستوں کو جمع کرتا ہے۔ مال خرچ کرتا ہے۔ تعریف سنتا ہے اور پھر آزُردہ خاطر‘ پردیس کی اجنبیت کے حوالے ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات تعریف کی آرزُو میں اِنسان جان پر بھی کھیل جاتا ہے۔ وہ اپنی موت کو قابلِ تعریف بنانے میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ تعریف کا زخم ‘سب سے گہرا زخم ہے۔ اُس کا مندمل ہونا مشکل ہے۔ تعریف سننے کی بیماری میں مبتلا اِنسان کی اگر تعریف نہ کی جائے تو وہ اِسے اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اگر آپ کا دوست نیا لباس زیبِ تن کر کے آپ کے پاس آئے اور آپ کسی وجہ سے اُس کے لباس کی طرف توجہ نہ کریں تو آپ کی دوستی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اِنسان کی تمام تراش خراش، بن سنور، سج دھج، اُس کابانکپن، اُس کا دَم خم، اُس کا لب و لہجہ، اُس کے ناز و ادا، اُس کی حرکات وسکنات‘ تعریف طلبی کے حربے ہیں۔ ایک پہلے سے مقروض انسان ‘نیا قرضہ لے کر اپنے بیٹے کا ولیمہ فائیو سٹار ہوٹل میں صرف اِس لیے کرتا ہے کہ اُس کی تعریف ہو۔ تعریف کرنے والے تعریف کرتے ہیں‘لیکن دِل ہی دِل میں اُس کی کوتاہ اندیشیوں کے تذکرے کرتے ہیں۔ اُس کے قرض خواہ اُس کی کیا تعریف کرتے ہوں گے!
اگر اِنسان کی شکل بہتر ہے تو اِس میں اُس کا اپنا کیا کمال ہے… اِنسان میں اِنسان کا اپنا کیا ہے؟
امیر آدمی کی تعریف ‘ غریب کو اُس کے حق سے محروم رکھنے کا جواز ہے۔ اگر ہم دولت مندوں کی آرائشوں کی تعریف کرنا چھوڑ دیں‘ تو شاید دُنیا میں ظلم کم ہو جائے۔ حق والوں کو حق سے محروم کر کے ظالم اپنی دولت کی تعریف سنتا ہے اور یوں معاشی نا ہمواریاں قائم رہتی ہیں۔ ظالم اپنے ظلم کو فن کے طور پر ظاہر کرتا ہے اور تعریف کرنے والے اُسے داد دیتے ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے‘ تو تعریف کی داستان میں ظلم کی داستان پنہاں ہے۔ بڑی بڑی سلطنتیں، بڑے بڑے ممالک، ترقی یافتہ ممالک‘ قابلِ تعریف کارنامے سر انجام دیتے ہیں‘ لیکن اُن کے پیچھے وہ مظالم مخفی ہوتے ہیں جو وہ اِنسان پر رَوا رکھتے ہیں۔ اِنسان دوست مُمالک‘ افغانستان میں دوستی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ آج آدھی دُنیا کرب میں مبتلا ہے اور باقی کی دُنیا‘ قابلِ تعریف ٹھہرائی جا رہی ہے۔
سائنس نے بڑے بڑے قابلِ تعریف کارنامے انجام دیئے… بس‘ کائنات کی تسخیر کا سہرا سائنس کے سر ہے اور ایٹم بم کی تباہ کاریاں بھی اِس تعریف کے پردے میں موجود ہیں۔ زندگی کو آسانیاں عطا کرنے کا دعویٰ رکھنے والی تہذیبیں‘ زندگی کو عذاب میں مبتلا کر رہی ہیں۔ آج کے اِنسان کو آسائشیں عطا کر دی گئی ہیں۔ بیماروں کے لیے ہسپتال‘ قابلِ تعریف کارنامہ ہے۔ زِندگی کی حفاظت کا دعویٰ کر کے تعریف سننے والے‘ زِندگی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اَمن کے پجاری ‘جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ تعریف کی لائی ہوئی تباہی ‘اپنی قباحتوں کا مظاہرہ کرنے والی ہے۔ اگر تعریف کرنے والے کا مزاج بدل جائے ‘تو تعریف سننے والے کا مزاج ضرور بدل جائے گا۔
تعریف سننے والے اِنسان کی اصلاح اُس وقت تک ممکن نہیں‘جب تک تعریف کرنے والے کی اِصلاح نہ ہو۔ بہرحال تعریف حد سے نہیں بڑھنی چاہیے۔ تعریف کے باب میں سب سے زیادہ خطرناک وہ مقام ہے‘ جب کوئی کم ظرف اپنی زبان سے اپنی تعریف کر رہا ہو۔ یہ عذاب ہے۔ کوئی آئینہ اُسے اِس عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ تعریف جہاں انعام ہے‘ وہاں سزا بھی ہے۔ تعریف صفت ساز بھی ہے اور صفت شکن بھی… لیکن اپنے منہ سے اپنی تعریف ‘اپنی اِنسانیّت کی تذلیل ہے۔
Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif
قسط نمبر 1
قسط نمبر 2
قسط نمبر 3
قسط نمبر 4
قسط نمبر 5
قسط نمبر 6
قسط نمبر 7
قسط نمبر 8
قسط نمبر 9
قسط نمبر 10
قسط نمبر 11
قسط نمبر 12
قسط نمبر 13
قسط نمبر 14
قسط نمبر 15
قسط نمبر 16
قسط نمبر 17
قسط نمبر 18
قسط نمبر 19
قسط نمبر 20
قسط نمبر 21
قسط نمبر 22
قسط نمبر 23
قسط نمبر 24

اسلام کے بارے میں سو سوال
Islam Key Barey Main 100 Sawal

پھانسی
phansi

سحر ہونے تک
sehar honay tak

آوازِ نفس
Awaz e nafs

اللہ محبت ہے
allah mohabbat hai

سات نوبل انعام یافتہ ادیب
7 noble Inaam Yafta Adeeb

دلیپ کمار
Dilip Kumar

حیات ممکن ہے
Hayat Mumkin Hai
NovelAfsaneIslamicHistoryTravelogueAutobiographyUrdu LiteratureHumorousPoliticsSportsHealthPersonalitiesColumn And ProseSend Your Books & Requests