Episode 18 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 18 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

مذہب
سورج سے کسی نے اُس کا مذہب پوچھا۔ وہ خاموش رہا، مسکراتا رہا۔ سوال دہرایا گیا تو سورج نے کہا ”آنکھ ملا کے سوال کرو۔“اُس نے کہا” تم سے آنکھ تو نہیں ملا سکتے، تم اتنے تابناک ہو۔ “سورج نے کہا ”تم خود سوچو‘میرا مذہب کیا ہے۔“ سائل سمجھ گیا کہ سورج کا مذہب اِسلام ہے۔ اِس کا تذکرہ قرآن میں ہے۔ پھر اُسے معاًخیال آیا کہ قرآن میں تو کفّار کا بھی ذکر ہے، شیطان کا بھی ذکر ہے۔
وہ بڑا پریشان ہوا۔ اِس سوچ میں گُم ہو گیا کہ آخر سورج کا مذہب کیا ہے۔ وہ سوچ کے سمندر میں غوطہ زَن تھا کہ اُسے آواز آئی‘ نادان! سورج کا مذہب صرف روشنی ہے، نور ہے۔ یہ مذہب اُسے فطرت نے‘بلکہ فاطِرنے عطا کیا ہے۔ سورج، چاند، ستارے اپنے اپنے مذہب پر کار بند ہیں۔ یہ اُن کا مدار ہے۔

(جاری ہے)

اُن کے لیے مدام گردشوں کا مذہب مقرر ہو گیا ہے اور وہ کفر و اسلام کے تفرقوں سے آزاد ہیں۔

سب کے لیے یکساں ہیں، رنگ و نسل سے آزاد، عذاب و ثواب سے بے نیاز! 
اُس نے سوچا کہ یہ عجیب بات ہے کہ مذہب سب کا الگ ہے اور خالق سب کا ایک ہے‘ تعجب ہے! ایسے نہیں ہو سکتا۔ اُس نے سوچا اور وہ سوچتا ہی چلا گیا۔ اللہ تو قادرِ مُطلق ہے، خلّاقِ عظیم ہے۔ اللہ نے ابلیس کو پہلے دن ہی ”ٹھاہ“ کیوں نہ کر دیا۔ نہ ابلیس ہوتا‘ نہ یہ بکھیڑے ہوتے۔
یہ رنگ رنگ کے نیرنگ، یہ فرق فرق کے فرقے، یہ عہد عہد کے معبد،یہ الگ الگ سجدے، یہ روپ روپ کے بہروپ، یہ ایک آدم اور کئی انسان، یہ ایک خدا اور اُس کی جدا جدا عطا‘یہ عجیب صورت حال ہے… مذہب اور پھر مذاہب۔ اگر سب مذاہب سچ ہیں تو مذہب کیا ہے اور اگر سب مذاہب سچ نہیں تو مذہب کیا ہے؟ 
مذہب کے نام پر دنیا میں کیا کیا نہیں ہو چکا۔ مذہب کی آڑ میں کیا کیا نہیں کِیاجا چکا۔
مذہب کی حفاظت میں کیا کیا نہیں قربان ہوا اور پھر مذہب انسان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ 
لا مذہب بھی اپنے لیے ایک مذہب رکھتا ہے۔ وہ اپنی ”لا مذہبیّت“ پر ایسے کار بند ہے‘ جیسے مذہب والا اپنی ”مذہبیّت“ پر! 
کافر خود کو اپنے کفر کا مومن سمجھتا ہے اور مومن کبھی کبھی اپنی کئی کافرانہ حرکات و عادات کو ایمان ہی کا حِصّہ سمجھتا ہے۔
وہ صرف لباس مذہبی اختیار کرتا ہے اور اعمال…چلو اعمال کا ذکر چھوڑو‘کوئی اور بات کرو! اعمال کا ذکر کیسے چھوڑیں؟ کوئی اور بات کیسے کریں؟ مذہب گناہ کی سزا دیتا ہے، گنہگار کو اپنے دامن سے دُور نہیں کرتا۔ یہی تو عجب بات ہے کہ مذہب بھی جاری رہے اور بُرائی بھی قائم رہے۔ بُرا اِنسان اچھا مذہب اختیار کر لینے کے باوجود بُرا‘ اور تعجب ہے کہ اچھا اِنسان مذہب اختیار نہ کرنے کی وجہ سے پھر بُرا۔
یہی مذہب کی آمریّت ہے کہ وہ ایک غیر مُبدّل نظامِ تعزیر رکھتا ہے۔ جو مذہب کو نہ مانے‘ اُس کے لیے ایک جہنم، نارِجہنم، عذاب، عبرت‘ مقرر ہے اور جو مذہب کو مانے اُس کے لیے ایک ایسا راستہ ہے‘ جس پر چلنا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اللہ مدد نہ فرمائے اور اللہ کی مدد‘ مقدر والوں کے حِصّے میں آتی ہے۔ آج کا انسان مذہب سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔
کیوں؟ مذہب نے اُس کا کیا بگاڑا ہے؟ مذہب کی موجودگی میں وہ اپنے گناہوں پر ندامت کرنے پر مجبور ہے۔ 
وہ حرام مال کماتا ہے اور اِس کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ حلال کی کمائی ممکن نہیں ہے اور اگر ہے تو بہت کم‘ بلکہ کم کم اور جب وہ حرام مال گھر میں لاتا ہے تو اُسے یاد آتا ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ اِنسان سے اُس کے مال اور اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
وہ مذہبی خیال سے دُور بھاگتا ہے اور مذہب اُس کے اپنے اندر سے آواز دیتا ہے ”خبردار! تم بھاگ کے کہاں جاؤ گے۔ مَیں تمہارے ضمیر میں ہوں، تمہارے خون میں ہوں، تمہارے خمیر میں ہوں۔ غافل! بھاگنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ٹھہر جا اور غور کر۔ یتیم کا مال واپس کر دے۔ دیکھ! اپنے بچوں کو آگ نہ کھِلا۔ یہ ناجائز کمائی تیری اولاد کے لیے آگ ہے۔ تیرے معصوم بچوں نے تیرا کیا بگاڑا ہے۔
اِن معصوموں پر رحم کھا۔ اِنہیں عذاب کا لُقمہ نہ کھِلا۔ رشوت کی دولت تیرے لیے، تیری اولاد کے لیے ایک عذاب ہے۔ باز آ۔ نادان! عقل کر ۔“لیکن نادان کیسے عقل کرے۔ مذہب کیا بتائے؟ 
مذہب نے زندگی میں بڑے اِنقلاب بپا کیے ہیں۔ امیر آدمی کو مذہب بڑا راس آیا ہے۔ وہ اللہ سبحانہُ تعالیٰ کی مہربانیاں حاصل کرتا ہے۔ مال جمع کرتا ہے اور بہت زیادہ جمع کرتا ہے۔
اللہ کا شُکر ادا کرتا ہے اور صرف شُکر ہی ادا کرتا ہے ‘ مال تقسیم نہیں کرتا۔ وہ غریبوں کو توکّل کی دولت سے مالا مال دیکھنا چاہتا ہے۔ غریب کو صبر اور استقامت کا درس دیتا ہے‘ اُسے مال نہیں دیتا۔ وہ بیمار کے لیے دُعا کرتا ہے‘ اُسے دوائی نہیں دیتا اور خود بڑے بڑے ہسپتالوں میں داخل خارج ہوتا رہتا ہے۔ اُس کے جسم سے خوشبو آتی ہے۔ اُس کا لباس عطر میں ڈوبا ہے اور دِل فکر میں! اُسے معلوم ہے کہ جسے وہ مذہب سمجھ رہا ہے ‘وہ مذہب نہیں ہے۔
وہ مذہب کا لبادہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ سچّامذہب لبادے اور نقابوں سے آزاد ہے۔
آج مذہب پر گفتگوہوتی ہے بلکہ ”گفتگوئیں“ ہوتی ہیں۔ ٹی وی پر افہام و تفہیم کے ذریعے مفہومِ دین بتایا جاتا ہے اور کسی مُبلّغ کی بات‘ کسی اور مُبلّغ کی بات سے ملتی نہیں۔ شاید سب سچّے ہیں۔ سب سچّے ہیں؟ سب کیسے سچّے ہو سکتے ہیں۔ کچھ لوگ سچّے ہیں اور کچھ لوگ جھوٹے ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک مذہب میں کچھ لوگ سچّے اور کچھ لوگ جھوٹے …پھر! کیا سارے جھوٹے ہیں؟ نعوذ باللہ۔ اللہ ہمیں ہمارے نفس کے شر سے بچائے۔ ہم کیوں جھوٹ بولیں۔ آخر ایک دن ہمیں مرنا ہے اور پھر موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ اللہ کی رحمتوں اور رحمتوں والے نبی ﷺکی رحمتوں کو ماننے والے کے لیے مرنے کا منظر اور موت کا منظر رحمت ہی رحمت ہے‘ لیکن کون مانے۔
مذہب والوں کو یہ بات کیسے سمجھ آئے! 
کیا اللہ کی رحمت اُس کے غضب سے وسیع نہیں ہے؟ کیا حضور ﷺ‘ رحمتہ للعالمین ﷺ نہیں ہیں؟ مرنے کے بعد کا عالم‘ آپ ﷺکی رحمت! 
اگر رحمت اعمال کے نتیجے سے انسان کو نہ بچائے تو رحمت کا تصوّر کیا ہے؟ کیا اللہ معاف کرنے پر قادر نہیں ہے؟ کیا مذہب والے اور مذہب سے انکار کرنے والے دوزخ میں کبھی اکٹھے ہوں گے؟ اگر ہوئے تو کافر‘ مذہب والوں کا مذاق اُڑائیں گے کہ تم ہمیں کس نجات کی دعوت دیتے تھے؟ خیر چلو‘اِس بات پر کیا بحث ۔
جو ہو گا‘ہو جائے گا۔ جو کچھ کر رہے ہو‘ کرتے جاؤ…بس مذہب کے نام پر ہونا چاہیے۔ 
ہم ایک یا کسی ایک مذہب کی بات نہیں کر رہے ‘ ہم تو عام طور پر مذہب کی بات کر رہے ہیں۔ اگر اِنسان کا باطن صادق نہ ہو‘ تو صداقت کا مذہب اُسے کوئی فلاح نہیں دیتا۔ 
اگر کسی کو زندگی کی آسانیوں میں شریک نہیں کرتے‘ تو صرف علم میں شریک کرنے کا فائدہ؟ وہ علم تو بتاؤ جس کے ذریعے تم اِتنے امیر ہو اور تمہارا پڑوسی غریب ہے ‘ جبکہ تم دونوں ایک ہی دفتر میں ملازم ہو، ایک ہی تنخواہ پر۔
 
مذہب پر بحث نہیں ہونی چاہیے۔ چلو اِسی بات پر اتفاق کر لو کہ آئندہ مذہب پر بحث اور مذاکرے نہ ہوں۔ مذہب بتانے والی بات نہیں‘کرنے والا کام ہے۔ بات سچی ہے ‘اور کام؟ کون جواب دے گا!
جب شروع میں کوئی کافر حضور اکرم ﷺکے پاس قبولِ اِسلام کے لیے حاضر ہوتا‘ تو آپﷺاُسے کلمہ شریف پڑھاتے اور وہ مسلمان ہو جاتا۔ 
اگر وہ سوال کرتا کہ اب مجھے کیا کرنا ہے ‘تو اُسے جواب ملتا کہ جو مسلمان کر رہے ہیں ‘وہی کرو۔
جہاد کا وقت ہے تو تیاری کرو اور اگر امن کا زمانہ ہے تو رزقِ حلال کماؤ، محنت کرو،عبادت کرو۔ کسی سے یہ نہیں کہا گیا کہ اب تم کتابیں پڑھو، تقریریں کرو۔ 
آج مذہب پر لائبریریاں بھری ہوئی ہیں اور انسان کا دل خالی ہے۔ مذہب علم نہیں‘عمل ہے اور عمل کی انتہا یہ ہے کہ وہ انسانِ کامل ﷺ‘ جو سب میں افضل ہیں‘اُن کی زندگی سب سے زیادہ سادہ، سب سے زیادہ غریب اور یہی ہے سب سے زیادہ بلندی۔
مذہب یہ ہے کہ خود پیاساہونے کے باوجود اپنے پیاسے بھائی کو پانی کا واحد پیالہ پیش کر دے اور خود جامِ شہادت نوش کر لے ۔ 
مذہب کے عمل کی بات کیا تھی اور علم کی بات کیا ہے۔ کون سا اِنسان ہے جس کاعمل‘ اُس کے علم کا شاہد ہو؟ اگر علم اور عمل میں فرق ہو تو مذہب … لامذہب۔ اِس لیے بہتر ہے کہ عمل دکھاؤ‘ علم نہ سناؤ اور یہی ہے مذہب کی اساس۔ سورج کی روشنی‘ اُس کا مذہب! 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif