Episode 1 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 1 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

”گر قبول اُفتد“
کسی شے کو چھوٹا سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُسے دُور سے دیکھا جائے یا غرور سے دیکھا جائے‘ ورنہ اگر اُسے عزت سے دیکھا جائے تو وہی شے اپنے اندر اِک جہان رکھتی ہے۔ اِک ذرّہٴ بے مایہ‘ اپنے اندر سرمایہٴ گراں مایہ رکھتا ہے… ذرّے کا دِل چِیرا گیا تو کتنے آفتاب لرز گئے…اِسی طرح قطرے کے اندر وُسعتِ بے کراں ہے…وہ اپنے دِل ہی دِل میں خود کو قُلزم ساز سمجھتا ہے‘ بلکہ قُلزم نواز سمجھتا ہے…وہ سمجھتا ہے کہ اُس کے دَم سے کائنات کی زِندگی ہے…ہر شے کی زِندگی پانی سے ہے اور پانی کی اساس قطرہ ہے …یہ قطرے کا تصوّر ہے‘ اپنے بارے میں…!
اِسی طرح قُلزم خود کو قطروں کا خالق و مالک سمجھتا ہے…وہ چاہے تو قطروں کو جدائی کے سفر پر روانہ کر دے اور چاہے تو اُنہیں وصال کی عطا کے لیے رُو برو حاضر کے لے…بہر حال یہ قطرے اور قُلزم کا کھیل ہے…اصل اور اوّل کون ہے…؟وہ ‘جسے موت نہیںآ تی…وہ‘جسے تبدیلیاں تبدیل نہیں کر سکتیں… وہ‘جسے ہمیشہ ہمیشہ سے قیام ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے…وہ‘ جسے قابو کرنا،بس میں کرنا، اِختیار میں لانا، مسخّر کرنا ‘ ناممکنات میں سے ہے…قُلزم اپنی تنہائیوں اور مستیوں میں حیّ و قیّوم ہے لیکن قطرہ اپنی تنہا ذات میں بقا حاصل نہیں کر سکتاہے۔

(جاری ہے)

وہ قُلزم کی پناہ میں ہے تو ہے‘ ورنہ اُس کا ہونا ہی نہیں ہو سکتا۔ قُلزم آشنا نہ ہو تو قطرہ‘ مرگ آشنا کر دِیا جاتا ہے۔قطرے کی تنہائی‘ اُس کی موت ہے ،قُلزم سے دُوری ‘ اُس کی فنا ہے… قُلزم اُس کی زندگی کا ماخذ ہے اور ماخذ سے کٹ کر زِندگی زندہ نہیں رہ سکتی…قطرہ ‘ ہزار شبنم بنے، ہزار آنسو بنے، اشکِ ندامت ہو کہ نوکِ خار پر رقص کرنے والا‘قطرہ اپنے مُنفرد وجود میں موجود نہیں رہ سکتا…سورج کی چشمِ عنایت سے پہلے ہی شبنم فنا ہوچکی ہوتی ہے…بہرحال قطرہ اگر وصالِ بحر سے محروم ہو تو قطرہ ہی نہیں رہ سکتا…اُس کا وجود جس ذات کا مرہونِ مِنّت ہے‘ اُسی کے دَم سے ہی قائم رہ سکتا ہے‘ نہیں تو نہیں…!
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اگر قطرہ وصالِ بحر حاصل کر لے‘ تو بھی وہ نہیں رہ سکتا …سمندر میں شامل ہو کر قطرہ‘ قطرہ تو نہیں رہے گا…سمندر بن جائے… ہزار بار بن جائے… وہ قطرہ نہیں رہے گا…وہ جو تھا…نہ رہا…اب اور کیا بن گیا…؟ سمندر نے قطرے کو ہمکنار کیا، آغوشِ رَحمت میں لے لیا،اُسے وُسعتِ بیکراں عطا کر دی… اُس کا اصل‘ اُس پر آشکار کر دیا، اُس پر ایسا حال طاری کیا کہ اُس کا ماضی‘ اب اُس کا حال ہی نہیں‘ مُستقبل بھی ہے… اصل سے جدا ہو کر اصل میں ملنا‘ بڑی بات ہے… لیکن فراق میں قائم رہنے والا قطرہ ‘ وصال میں بکھر گیا… مُنتشر ہو گیا … پھیل گیا… سمندر بن گیا … اور یوں اپنی ذات سے فنا ہو کر کسی اور ذات میں بقا پا گیا…!
ہر دو حالت میں قطرہ‘ قطرہ نہیں رہ سکتا۔
یہ وجود ہمیشہ نہیں رہ سکتا … یہ قُلزم کا فیض ہے… وہ فراق عطا کرے تو قطرہ فراق کی آگ میں سُلگتا ہُوا رُخصت ہو جاتا ہے اور اگر وہ وِصال عنایت فرمائے تو بھی قطرہ اپنی ذات سے نکل کر ذاتِ محبوب میں گُم ہو جاتا ہے۔ گُم ہو جانا تو قطرے کا مُقدّر ہے ہی سہی… کیوں نہ وہ منزل اور راستے میں گُم ہو… ”بے راہ“ راستوں میں گُم ہونے والے ”دونوں جہاں“ میں خسارہ پا گئے۔
خسارہ کیا ہے؟ نفع کیا ہے؟…یہ بہت لمبی بات ہے …چند روزہ زِندگی میں یہ بات سمجھ نہیں آ سکتی کہ اصل کیا ہے؟ سُود کیا ہے؟ نفع کیا ہے؟ ضرر کیا ہے ‘ یعنی نُقصان کیا ہے؟ ہونا کیا ہے؟ نہ ہونا کیا ہے؟ …اور کیا … ہونا‘نہ ہونا بھی ہو سکتا ہے…کیا ہم‘ واقعی ہم ہیں …ہم کب سے ہیں…کب تک ہیں… اور کیوں ہیں…؟ کیا ”قطرہ“ فنا سے ڈر کے بھاگ رہا ہے‘ یا یہ فنا کے تعاقب میں بھاگ رہا ہے…وہ جو فانی ہُوئے‘ اُن کو نکال کر ”باقی“ کی ہستی کیا ہے … اور وہ جو ”باقی“سے واصل ہُوئے ‘اُن کے بغیر کیا ”باقی“ کا وجود نہیں رہتا…!سب کچھ ‘ سب کے بغیر رہ سکتا ہے تو یہ سب کچھ کیا ہے…؟
یہی وہ سوال ہے جس کی تلاش میں سفر کے دوران اِنسان کو نئے سوالات سے آشنائی ہوتی ہے اور پھر نئے جوابات کے حُصول کا سفر ایک اور حقیقت سے آشنا کراتا ہے …محدود زِندگی میں لا محدود گوشوں کی دریافت ‘ اِک عجب حا ل ہے… اِتنی وسیع و عریض، جمیل و عظیم، ظاہری اور باطنی کائنات کے حَسِین اوراق کا مشاہدہ اور مُطالعہ کرنے کے لیے اِتنے مُختصر ایّام …کیا کِیا جائے …نظر محدود ہے اور نظارے لامحدود…!
صاحبانِ فِکر و نظر آتے ہیں اور بیان کرتے ہُوئے چلے جاتے ہیں …کائنات جوں کی توں رہتی ہے۔
اِ س کے ایک گوشے کے کسی ایک حصے کا بھی بیان مُکمل نہیں ہو سکتا … اور ابھی نہ جانے کیا کیا ہے…لکھنے والا…!اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور درخت قلم ہو جائیں ‘ تو بھی بیان نہیں کر سکتے‘ اُس کی شان اور تسبیح جو اصلِ کائنات ہے، مالکِ کائنات ہے، خالقِ کائنات ہے … یہ بیان مُمکن ہی نہیں…حُسنِ بیان عطا ہو جائے تو بھی حقِ بیان مُمکن نہیں…!
قطرہ اپنے اندر قُلزم کا جلوہ دیکھے یا قُلزم کے اندر جا کر اپنا جلوہ دیکھے… حقیقتِ حال کو بیان نہیں کر سکتا… قطرہ قطرہ‘ قُلزم ہو بھی جائے تو بھی قُلزم بیان میں نہ آئے گا … ہزار مضامین لکھو‘ بات بیان ہی نہیں ہو پا رہی… ہزار ہا لائبریریاں…علم کے چراغ … اخباروں کے کالم… مبلغین کی خیال آرائیاں … مشائخِ کرام کی طریقتیں اور طور طریقے… سیاستدانوں کی تقریریں اور تحریریں اور کوششیں …اور نہ جانے کیا کیا… اور پھر حُکمرانوں کے احکامات‘ بس…حُکم ہی حُکم…یہ سب کوششیں ہیں‘ حقیقت آشنائی کے انداز… اور پھر حقیقت بیان سے باہر…ہمیشہ ہی بیان سے باہر… وُسعتِ بیان مِل بھی جائے تو بھی بیانِ وُسعت مُمکن نہیں…بس صرف رونق ہے…صرف جلوہ ہے … دیکھنے والا منظر… غور والی بات‘ حاصل فنا ہے‘ صرف اور صرف فنا…!
میرے بعد کیا ہوگا… تجھ سے پہلے کیا تھا؟
مَیں اِس علم کو نہیں مانتا… تجھے کون مانتا ہے؟
مَیں علم تک پہنچ گیا …جہالت سے کب جدا ہُوئے ہو؟
مَیں سب کو فتح کر لوں گا… فتح کرنے کی خواہش ہی کو فتح کر لو؟
مَیں ہمیشہ رہوں گا…کس کے لیے…؟ تم جس کے لیے بھی رہو گے‘ وہ ہمیشہ
نہیں رہ سکے گا۔
مَیں کامیابی کا راز جانتا ہُوں…تم سے پہلے جو لوگ یہ راز پا گئے تھے‘
 وہ کہاں گئے؟
بہرحال یہ کہانی ختم نہیں ہو سکتی…نہ کوئی آخری معیار ہے ، نہ کوئی اسلوب‘ انتہائی … لائبریری سے باہر بھی علم ہے…اور علم سے باہر بھی علم ہے… ایک جاننے والا‘ دُوسرے جاننے والے سے بے خبر بھی ہو سکتا ہے۔ ہم خود کو معیار سمجھتے ہیں اور دُوسروں کو ماپتے رہتے ہیں۔
اُن کی خوبیاں اور خامیاں دریافت کرتے ہیں …ہم خود دُوسروں کی زَد میں ہیں… دُوسرے اپنا اپنا معیار رکھتے ہیں …کوئی معیار آخری نہیں …کوئی راز اِنتہائی نہیں… یہ سارا منظر موجود ”نظر“ کا مرہون ہے … آج کی کائنات ہی آج کے اِنسان کی ہے…کائنات‘ اِنسان کی دَسترس میں ابھی آنا چاہتی ہے اور اِنسان‘ کائنات کی گرفت میں آ بھی چکا ہے…قطرہ ‘ قُلزم کے رُوبرو ہی نہیں‘ دُوبدو بھی ہے… اور نتیجہ کیا ہو گا‘ سِوائے اِس بات کے کہ قطرہ‘ قطرہ نہ رہے گا…قطرے پر لازم ہے کہ وہ اپنی ہستی کے محسن و ماخذ پر نظر رکھے… وہ اپنے محبوب مونس اور غمگسار مالک سے رابطہ کرے… وہ کائنات اور کائنات کے خالق کو سمجھے۔
وہ اپنے اصل اور اپنے محبوب قُلزم کی لگن میں رہے… یہی اُس کی ہستی کی اساس ہے…!
اگر جُز ہی خود شناس ہو جائے تو اُسے ”کُل شناس“ بننے میں دیر نہیں لگتی … دِقّت تو صرف اِس بات کی ہے کہ اِنسان خود شناسی سے گریزاں رہتا ہے۔ وہ کائنات آشنائی کے سفر پر روانہ رہتا ہے اور خود سے نا آشنا، خود سے جدا،خود سے بیگانہ ‘ اپنے آپ میں اجنبی ہی رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علوم کی بہتات میں بھی جہالت کی کارفرمائی قائم رہتی ہے … ہم سب کچھ جانتے ہیں‘، سب کچھ پہچانتے ہیں‘ لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہم کون ہیں… ہم کو کس نے اِس جہانِ اجنبی میں نامعلوم مسافتوں پر روانہ کر رکھا ہے… اور پھر ہمیں عین سفر کے دوران اور سفر کے درمیان واپش بُلا لیا جاتا ہے…اگر جانا ہی تھا تو آنا کیا تھا؟
یہی عجب بات ہے…کہ فانی ہی باقی کا آئینہ ہے۔
کرنیں نہ ہوں‘ تو سورج کا جلوہ کیا ہے؟قدیم کا ذِکر صرف حادث ہی کی زبان سے سُنا گیا۔اِنسان فانی ہے لیکن وہ باقی کی دُھن میں ہے۔ اللہ باقی ہے لیکن وہ فانی ہی کو تخلیق فرماتا ہے، اِسی فانی سے محبت کرتا ہے، اِسی کے خیال میں رہتا ہے… خا لق اور مخلوق دونوں ایک دُوسرے کے خیال میں رہتے ہیں… عقل کا حجاب اُٹھ جائے تو جلوہ کچھ اور ہی ہے۔ باقی کی محبت فانی کیسے ہو سکتی ہے‘ باقی کا محبوب باقی ہی ہو گا!
بہرحال قُلزم کے جلوے‘ قطروں کے جلوے ہیں…نقش و نگار کی کثرت ‘ دراصل وحدت ہی کے جلوے ہیں…!خیال ایک وسیع قُلزم ہے ، صاحبِ خیال کی تخلیقات قطروں کی طرح ہیں… قطرہ قطرہ تقسیم ہونے کے بعد بھی قُلزم تو قُلزم ہی رہتا ہے… اُس کی وُسعتوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا … خیال بیان ہو کر بھی بیان نہیں ہوتا…سمندر سے دس دریا نکال لیے جائیں تو بھی وہ جوں کا توں ہے… اور اگر اُس میں دس دریا شامل کر دیے جائیں تو بھی وہ جوں کا توں ہی رہتا ہے۔
یہ صرف اِحساس کی بات ہے… تسلیم کی بات ہے… ورنہ کہاں قطرہ اور کہاں قُلزم… قطرے کا وجود عطائے قُلزم ہے اور قُلزم کا وجود ماورائے قطرہ ہے…!
مصنف اپنے مضامین کو اپنی تخلیق سمجھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ خود ہی اپنی تصنیف کا خالق ہے… دَراصل خیال کا خالق وہی ہے ‘ جو اِنسان کا خالق ہے… خیال جب چاہے‘ جہاں سے چاہے نمودار ہو جائے…جس زبان سے چاہے ‘ بیان ہو جائے، جس قلم سے چاہے‘ رقم ہو جائے…اِس لیے اِن مضامین کو خالقِ خیال کا اِحسان مانتے ہوئے‘ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہُوں…وہ چاہے تو صحرا سے چشمے پھُوٹیں، وہ چاہے تو بنجر سیراب ہو جائے، وہ چاہے تو تاریکی جگمگانے لگے، وہ چاہے تو اِنسان کو بیان کی دولت عطا ہو جائے …وہ چاہے تو معصیّت‘ مغفرت میں بدل جائے…وہ چاہے تو سرنگوں ‘ سرفراز ہو جائیں … وہ چاہے تو یہ کتاب اُسی کے نام کر دی جائے …قطرہ‘ اپنی ہستی اور اپنی ہستی کی بے مائیگی کے علاوہ قُلزم کو کیا پیش کر سکتا ہے …پس اپنی تخلیق… اپنے خالق کے نام! 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif