Episode 36 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 36 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

ذرّے میں صحرا 
یہ عظیم و قدیم، جمیل و جسیم کائنات اِتنی پُراسرار و پُر انوار ہے کہ اِس کا اندازہ لگانا بھی دُشوار ہے… اِس میں کیا نہیں ہے…!
یہاں وُسعتیں ہیں… گردشیں ہیں…فاصلے ہیں… زمانے ہیں… بلکہ وُسعت دَر وُسعت، گردش دَر گردش …فاصلہ دَر فاصلہ …زمانہ دَر زمانہ …مدار دَر مدار…محور دَر محور۔ 
اِس کائنات میں عجب کھیل ہے… زمانے‘ زمانوں کی تلاش میں ہیں… گردشیں‘ گردشوں کے تعاقب میں ہیں…وقت ‘وقت کو کھا رہا ہے …زندگی موت کے حِصار میں ہے اور موت زندگی کی زد میں ہے۔
 
کائنات بنانے والے نے اِسے بہت ہی خوبصورت اور انوکھا شاہکار بنایا ہے۔ کہیں اِتنے گرم ستارے ہیں کہ ہمارے ہاں کی آگ بھی پناہ مانگے… کہیں اتنے یخ سیارے ہیں کہ ہمارے ہاں کی برف کو بھی پسینہ آجائے…! 
کائنات تو خیر ہے ہی ایک عجوبہ… لیکن یہ زمین اپنے آپ میں ایک مُکمل کائنات ہے… مختصر اور محدود زمین ‘وسیع اور لا محدود اِمکانات سے مالا مال ہے۔

(جاری ہے)

 
زمین کا حُسن ہو کہ کائنات کا حُسن… اِسے جاننے اور دیکھنے کے لیے جس مخلوق کو مقرر فرمایا گیا‘وہ ایک الگ شاہکار ہے۔ 
اِس تماشا گاہ ِعالم میں واحد تماشائی انسان ہے… اِنسان کو ایسی صفات سے نوازا گیا کہ وہ باہر کا منظر اپنے باطن میں موجود پاتا ہے… اِنسان ہی تو اِس کائنات کے رَمُوز سے آشنا ہے… اگر وہ آشنا نہیں‘ تو کون آشنا ہے؟ اُسی کے لیے یہ سب جلوے ہیں …وہی اشرف المخلوقات ہے…!
آسمان کے کروڑوں ستاروں کو بیک وقت دیکھنے والا آلہ بس اِنسانی آنکھ ہے … آنکھ نہ ہو تو حُسنِ کائنات کیا ہے …روشنی کا وجود اپنے آپ میں لاکھ موجود ہو …دیکھنے والے کے بغیر عبث سا ہو کر رہ جاتا ہے… اندھوں کے لیے سورج کا جلوہ کیا حقیقت رکھتا ہے… بے شعور کے لیے اِس کائنات کے رَمُوز کیا وُقعت رکھتے ہیں… بنانے والے نے یہ عجب کھیل بنایا ہے۔
 
کروڑ ہا سالِ نور کے فاصلے رکھنے والی پُرشکوہ کائنات کے اسرار و رَمُوز کی آگہی کا دم بھرنے والا ایک اِتنے چھوٹے سے سیارے پر رہتا ہے‘ جس کے وجود کا اِس وسیع کائنات کے حوالے سے ہونا نہ ہونا برابر ہے… ِاس چھوٹی سی دُنیا میں، کسی چھوٹے سے ملک میں، کسی چھوٹے سے شہر میں، کسی مکان کے اندر، ایک اِنسان‘ اپنی چھوٹی سی عقل کے ذریعے اِس عظیم وُسعت کا احاطہ کرنا چاہتا ہے… یہی نہیں… وہ اِس فطرت کے فاطر کی صفات و ذات کی آگہی کے شرف سے بھی اپنے آپ کو مفتحز مانتا ہے۔
 
یہ سب کیسے ہے؟ کیوں ہے؟ کیا ایسے ہے بھی سہی ‘کہ نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے‘ تو یہ سب کچھ ہونے کے باوجود نہیں ہے۔ 
اِنسان نہیں‘ تو یہ سب کچھ کیا ہے… ؟ اگر ذاکر نہ ہو تو مذکُور کون ہے؟ مذکُور کو ذاکر درکار تھا… اُس نے ذِکر پیدا کیا… ذِکر ہی کے ذریعہ سے مذکُور و ذاکر متعلق ہیں…!
وُسعتیں‘ حُسنِ خیال میں سِمٹ کے آجاتی ہیں… کون و مکان کے جلوے اِنسان کے دِل میں موجود ہوتے ہیں…!
زمین و آسماں کے رِشتے اِنسان ہی کے دم سے ہیں… ساری کائنات سِمٹ کے اِنسان کے دِل میں آجاتی ہے… ساجد کی پیشانی میں مسجود کے جلوے ہیں…اور مسجود ‘خالق بھی ہے… اور خالق‘ کائنات کے جلووں کا مالک ہے …وہ جلووں کا مالک ہے… ہم جلووں کے مستقر ہیں…ہم اُس کے جمال کا آئینہ ہیں… وہ اپنی ذات میں تنہا رہ سکتا ہے… لیکن اُس نے چاہا کہ وہ جانا جائے ‘پہچانا جائے… بس اُس نے مخلوق بنا دی …یہ کائنات ‘عالمِ موجودات… اور پھر اِس میں اشرفُ المخلوقات ‘اِنسان…!
یہی اِنسان‘ محدود و فانی ہونے کے باوجود لا محدود باقی کو جاننے والا اور ماننے والا… اُس کے جلوے‘ اِس میں ہیں…اُس کا پَرتو‘ اِس میں ہے …وہ مخفی ہے‘ تو یہ آشکار ہے… وہ عظیم فنکار ہے‘ تو یہ اُس کا عظیم شاہکار ہے… اُس کو کیسے جان سکتا ہے … بس یہی وہ راز ہے ‘جس کے جاننے سے سب کچھ جان لیا جا سکتا ہے۔
 
ماضی‘ ایک طویل ماضی سے آشنائی‘ آج کا اِنسان کر رہا ہے…مُستقبل سے آشنائی‘ آج کا اِنسان کر رہا ہے… آج کا اِنسان‘ آج کے اِنسانوں کو جانتاہے… وہ کائنات کے رَمُوز سے باخبر ہے… وہ سب کچھ جانتا ہے، کیسے؟ 
وہ اپنے آپ کو جاننے کے بعد سب کو جان سکتا ہے… خود سے آشنا‘ سب سے آشنا ہے… ذرے سے آشنا ہے، صحرا سے آشنا ہے… قطرے سے آشنائی ‘قلزم سے شناسائی ہے۔
 
قابلِ غور نُکتہ یہ ہے کہ جہاں کسی شے کا وجود ایک حقیقت ہے ‘وہاں اُس کا اِدراک ایک الگ حقیقت ہے… ہم وجود سے اِدراک کے سفر پر روانہ ہیں۔ 
ہو سکتا ہے‘ حقیقتِ وجود کا مقصد ہی تخلیقِ حقیقت ِاِدراک ہو… صاحبِ اِدراک اپنے آپ میں حقیقت کے رُوبرو رہتا ہے …وہ اپنے آئینے میں خو بصورت ‘رنگا رنگ نیرنگ دیکھتا ہے …وہ نظارے کو منظر کا حاصل سمجھتا ہے…صاحب ِنظر جان لیتا ہے کہ ایک منظر دوسرے منظر سے بہت مختلف نہیں… ایک آنسو کسی دوسرے آنسو سے الگ نہیں… نئے غم اور پُرانے غم‘ سب برابر ہیں…فاطر ایک ہے تو فطرت کے سب جلوے بھی ایک ہی ہیں۔
 
درخت سے ٹُوٹا ہوا پتّا بھی اُتنا ہی اہم ہے‘ جتنی اِس کائنات کی وُسعتیں… خلا کی پہنائیاں… اور بڑی بڑی کہکشاؤں کے درمیان چیختی ہوئی تنہائیاں…!
اِنسان ‘باعثِ تخلیق بھی ہے اور حاصلِ تخلیق بھی…یہاں اِنسان کو اپنی ہستی کا اِدراک حاصل ہو جائے تو یہ کائنات‘ وَرق وَرق اُس کے سامنے اپنے مفہوم کے ساتھ حاضر ہے …سب جلوے ایک حُسن کا پَرتو ہیں… یہ سب کثرت‘ ایک وحدت کے اِظہار کے لیے ہے …ہر جُز‘ اپنے کُل کا مظہر ہے… اور کُل تو ایک ہے… اِس لیے کوئی جُز‘ کسی دوسرے جُز سے علیحدہ نہیں ہو سکتا۔
 
غریب کا دِل اُتنا ہی مقدس ہے‘ جتنا مغرور امیر کا…جس کی خِدمت میں ذرّے نے اپنا دِل چِیر کے رکھ دیا ہو‘ اُس کے سامنے صحرا اور گردِ صحرا ایک ہی شے ہیں… بات تعلق کی ہے …نسبت کی ہے …اِدراک کی ہے …عنایت کی ہے …عطا کی ہے … ورنہ کہاں ایک چھوٹا سا دِل اور کہاں وُسعت ِکون و مکاں… کہاں اِنسان اور کہاں کائنات …بس !
سلام ہو ‘اِس کائنات کے حُسن اور اِس کی وُسعتوں کو… اور سلام ہے‘ اِس کو جاننے والے اور اِس کو چاہنے والے اِنسان کے لیے… اور سجدہ ہے‘ اِن کو پیدا فرمانے والی ذات کی خِدمت میں…!! 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif