Episode 3 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 3 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

توبہ
اگر اِنسان کی اپنی عقل‘ اُس کی اپنی زندگی خوشگوار نہ بنا سکے ‘ تو اُسے زُعمِ آگہی سے توبہ کرنی چاہیے۔ 
اگر اپنا گھر اپنے سکون کا باعث نہ ہو‘ تو توبہ کاوقت ہے ۔
اگر اِنسان کو اپنا حال اور حالات درست کرنے کا شعور نہ ہو‘تو دانشور کہلانے سے توبہ کرنی چاہیے۔ 
اگر مستقبل کا خیال ‘ماضی کی یاد سے پریشان ہو ‘ توتوبہ کر لینا ہی مناسب ہے ۔
اگر اِنسان کو تلاش کے باوجود ہمیشہ غلط ر ہبر یا رہنما ملیں ‘تو اُسے اپنی اِطاعت شعاری کے دعویٰ سے توبہ کرنی چاہیے۔
 اگر اِنسان اپنے آپ کو غم ،پریشانی، غریبی،غریب الوطنی یا موت سے نہ بچا سکے ‘ تو اُسے اپنے خود مختار ہونے کے بیان سے توبہ کرنی چاہیے۔
 اگر اِنسان ایک ہی پتھر سے دو دفعہ ٹھوکر کھائے ‘تو اُسے اپنی صحیح روی کی ضد سے توبہ کرنی چاہیے۔

(جاری ہے)

 
اگر اِنسان اپنی جوانی اور رُوپ سے پریشان ہو‘ تواُسے اپنے بناؤ سنگھار سے توبہ کرنی چاہیے۔
 اگر انسان میں اپنی کامیابی کا سرور ختم ہو جائے اور اِنسان کویاد آ جائے کہ کامیاب ہونے کے لیے اُس نے کتنے جھوٹ بولے ‘تو اُسے ضرور توبہ کر لینی چاہیے۔ 
اگر اِنسان کو اپنے خطا کار یا گنہگار ہونے کا احساس ہو جائے ‘تو اُسے جان لینا چاہیے کہ توبہ کا وقت آ گیا ہے۔
اپنے گناہوں کا اِحساس ہی توبہ کی ابتدا ہے ۔ اگر گناہ کا کوئی گواہ نہ ہو ‘تو توبہ تنہائی میں ہونی چاہیے، اور اگر گناہ پوری قوم کے سامنے سر زد ہوا ہو‘ تو توبہ بھی پوری قوم کے سامنے ہونی چاہیے۔ 
در اصل توبہ کا خیال خوش بختی کی علامت ہے ۔ جو اپنے گناہ کو گناہ نہ سمجھے ‘ وہ بدقسمت ہے۔ شیطان کو اپنی غلطی پر توبہ کا خیال نہ آیا‘ ہمیشہ کے لیے لعین و رجیم ہو گیا۔
اِنسان حُکم عدولیوں پر توبہ کرتا رہتا ہے ‘اِس لیے اشرف المخلوقات ہے۔ کافر اپنے کُفر کو دِین سمجھتا ہے ‘اپنی عبرت کو پہنچے گا۔ 
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپنے ضمیر اور اپنے مزاج کے خلاف عمل کرنا گناہ ہے ۔ ایسا ہر گز نہیں ۔ گناہ اپنے مزاج کے خلاف عمل کرنے کا نام نہیں ‘اللہ کے حکم کے خلاف عمل کا نام ہے۔
 گناہ اخلاقیات کے حوالے سے نہیں ، دِین کے حوالے سے ہے۔
اخلاقیات کا دِین اور ہے ،دِین کی اخلاقیات اور!
سچ بولنا اخلاقی فریضہ بھی ہے اور دِینی بھی ، لیکن دِین نے ایسی صداقتیں بھی بیان کی ہیں‘ جو اخلاقی صداقتوں سے بہت مختلف اور ماورا ہیں ۔ اللہ ، فرشتے ، رسول ، مابعد اور رُوح ایسی صداقتیں ہیں‘ جنہیں اخلاقیات سمجھنے سے قاصر ہے ۔ اخلاقیات‘ اِنسانوں کے بنائے ہوئے ضابطہٴ حیات کا نام ہے اور دِین ‘اللہ کے عطا کیے ہوئے ضابطہِٴ حیات کا نام ہے ۔
گناہ ‘اللہ کے فرمان سے اِنکار کا نام ہے۔ایک پیغمبر اور اخلاقی مفکّر میں فرق صرف یہی ہے کہ پیغمبر کسی اور دُنیا کی صداقت بھی بیان کرتا ہے۔ جبکہ مفکّر اِسی دُنیا اور اِسی معاشرے کی اِصلاح کی بات کرتا ہے۔ اخلاقیات دِین کا حصہ ہے ، لیکن دینیات ‘اخلاقیات سے بہت بلند ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ دِینیات ‘اخلاقیات اور الٰہیات کے مجموعے کا نام ہے۔
بہرحال توبہ اپنی پسند اور نا پسند کے حوالے سے نہیں ۔ یہ اللہ کی پسند اور نا پسند کے حوالے سے ہے۔ ہم اُس شے سے توبہ کرتے ہیں ‘ جو ہمارے عمل میں اللہ کی ناپسند کا باعث ہو۔ اِس میں بُرائی بھی شامل ہو سکتی ہے اور وہ عبادت بھی ‘جسے ریا کاری کہا جاتا ہے ‘اور وہ منافقت بھی جسے فیشن کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔ ہمارا ہر وہ عمل جو اللہ کو ناپسند ہو ‘ گناہ ہے اور ایسے عمل سے توبہ کرنا ہی عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
اللہ اور انسان کے مزاج میں بڑا فرق ہے۔ خالق اور مخلوق کے درجات کے علاوہ بھی فرق ہے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے کسی مُلّاکو دنیا کی خدائی دے دی جائے ‘تو وہ اِس دُنیا میں کیا کیا تبدیلیاں کر دے گا ۔ کافروں کو نیست و نابود کر دے گا ۔ یہودیوں کوفی النّار کر دے گا۔ غیر اِسلامی معاشروں کو تباہ کر دے گا ۔ غرضیکہ اِس دنیا کو اپنے جیسا مسلمان کر دے گا۔
 یہ انسان کی خدائی ہو گی۔ اللہ کی خدائی وہ ہے ‘ جو ہے۔ اللہ کے ہاں پسندیدہ دِین اِسلام ہی ہے لیکن کافروں کو پیدا کرنا ، اُنہیں طاقت اور قوّت دیتے رہنا ، مسلمانوں کی جو حالت ہے اُسے خاموشی سے دیکھتے رہنا ‘اللہ ہی کا کام ہے۔ اِنسان اور خدا کے عمل میں جو فرق ہے ‘ اُس پر غور کرنا چاہیے۔ ہماری جو مرضی اللہ کے علاوہ ہے ‘ غلطی ہو سکتی ہے اور اِس غلطی سے توبہ کرنا لازم ہے۔
ہم اپنے لیے ایک زندگی چاہتے ہیں ‘ایک انداز کی زندگی۔ اللہ ہمارے لیے ایک زندگی چاہتا ہے ‘ ایک اور انداز کی زندگی۔ اگر اِن دونوں میں فرق ہے تو غلطی موجود ہے۔ اللہ کی پسند کے علاوہ کسی انداز کی زِندگی کو پسند کرنا گناہ ہے۔ اِس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ 
پیغمبر خطا سے معصوم ہوتا ہے۔ کسی پیغمبر کا استغفار پڑھنا عجب ہے۔ نئے مقامات حاصل ہونے پر پُرانے مقامات سے استغفار ہے۔
عروج کی منزل ‘استغفار اور الحمد کی منزل ہے۔ نئی بلندی کا شکر… اور پہلے درجے پر استغفار۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک مکمل نیک اور وحی ٴاِلٰہی کے مطابق چلنے والی زِندگی کے لیے بھی استغفار کا عمل منشائے الٰہی کے عین مطابق ہے۔ توبہ‘ اللہ کی رضا کا حصول ہے۔ 
بار بار غلطی کرنے اور بار بار توبہ کرنے کے بارے میں اکثر پوچھا جاتا ہے۔ اگر انسان کو گناہ سے شرمندگی نہیں ‘تو توبہ سے کیا شرمندگی۔
توبہ کا عمل ترک نہ ہونا چاہیے۔ اگر انسان کو موت آ جائے ، تو اُسے حالتِ گناہ میں نہ آئے، بلکہ حالتِ توبہ میں آئے۔ اور کچھ خبر نہیں موت کس وقت آجائے۔ 
گناہ کا احساس پیدا ہو جائے تو گناہ سے نفرت ضرور پیدا ہو گی ۔ نفرت ہو جائے ‘ تو دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم پیدا ہو گا۔ دوبارہ گناہ نہ کرنے کا اِرادہ ہی توبہ ہے۔ اللہ کو گواہ بنا کر اپنی غلطی پر معذرت اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کا وعدہ‘ توبہ کہلاتا ہے۔
 
توبہ منظور ہو جائے تو وہ گناہ دوبارہ سرزد نہیں ہوتا ۔ جب گناہ معاف ہو جائے ‘ تو گناہ کی یاد بھی نہیں رہتی۔اگر اللہ اِحسان فرما دے ‘ تو اِنسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں داخل کر دیا جاتا ہے،اُس کی سابقہ بُرائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اللہ‘ توبہ کرنے والوں پر بڑا مہربان ہوتا ہے۔ آدم  نے توبہ کی‘ اُنہیں خلافتِ ارضی کا تاج پہنا دیا گیا۔
یونس نے توبہ کی ‘اُنہیں نجات ملی۔ ہر توبہ کرنے والے کو اللہ نے اپنا قُرب عطا فرمایا ۔ شرط صرف یہ ہے کہ توبہ صدقِ دل سے کی جائے۔ اور اپنے آپ کو اُس راستے سے الگ کر دیا جائے‘ جس راستے پر غلطی کے دوبارہ ہونے کا اِمکان ہو۔
 توبہ کرنے والے کی زندگی تبدیل ہو جاتی ہے۔ اللہ سے توفیق مانگنی چاہیے کہ توبہ سلامت رہے ۔ توبہ شکن اِنسان کہیں کانہیں رہتا ۔
وہ اپنی نظروں سے گِر جاتا ہے۔ وہ احترام کے تصور سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ دُعا سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ عبادت کی افادیّت سے محروم ہو جاتا ہے۔ 
گناہوں میں سب سے بڑا گناہ توبہ شکنی ہے۔ توبہ شکنی اِنسان کی شخصیت کو اندر سے توڑ پھوڑ دیتی ہے۔ اُس کا ظاہری وجود بے خراش ہو تب بھی اندر کا وجود قاش قاش ہو جاتا ہے۔ 
دراصل گناہ بالعموم اِنسان کو نقصان پہنچانے والاعمل ہوتا ہے۔
انسان نہیں سمجھتا۔ خالق نے جس عمل سے روکا ہے ‘ اُس سے رُک جانا ہی سعادت کا ذریعہ ہے۔ 
ادب کی دُنیا میں اگر مصنف ایسی کتاب تحریر کرے جس کے قاری میں گناہ کی رغبت یا میلان پیدا ہو جائے ‘تو ایسی تخلیق گناہ ہی کہلائے گی۔ ایسے گناہ سے توبہ کرنا لازم ہے۔ مصنف کاعمل تصنیف ہے اور یہ عمل ‘خیر یا شر کے باب میں اپنا انجام ضرور دیکھے گا۔
گناہوں پر اُکسانے والے کا انجام‘ گنہگار کے انجام سے بھی زیادہ خطرناک ہو گا۔ نیکی پر گامزن کرنے کا عمل ‘ نیک اعمال میں سب سے زیادہ مستحسن عمل ہے ۔ ادیب مر جاتا ہے‘ ادب زندہ رہتا ہے اور ادیب اپنی تاثیر پیدا کرتا رہتا ہے۔ 
تاثیر پیدا کرنے والا ‘مرنے کے بعد بھی اپنے نامہٴ اعمال میں اپنے قاری کی نیکی بدی کے حوالے سے اضافہ کرتا ہے۔
جس نے جتنے زیادہ لوگوں کو نیک بنایا ‘ اُسے اُتنا ہی زیادہ اِنعام ملے گا۔
 مصنف کو اپنی گناہ ساز اور گناہ پروَر تصانیف سے توبہ کرنی چاہیے۔ اگر توبہ قبول ہو گئی تو اُسے نیک تصانیف کا شعور عطا ہو گا ‘جس سے وہ ہر آنے والے دَور سے دُعائیں حاصل کرے گا ۔ آنے والے زمانوں کی دُعائیں یا بد دُعائیں‘ جانے والے انسان کے لیے بڑی تاثیر رکھتی ہیں۔
نیّت کا گناہ‘ نیّت کی توبہ سے معاف ہو جاتا ہے ۔ عمل کا گناہ ‘ عمل کی توبہ سے دُور ہوتا ہے۔ تحریر کا گناہ‘ تحریر کی توبہ سے ختم ہو جاتا ہے۔
 جس ڈگری کا گناہ ہو گا ‘ اُسی ڈگری کی توبہ چاہیے۔ صاحبِ تاثیر کی تحریر‘اُس کے نامہٴ اعمال میں بھی رکھی جائے گی۔ جس اِنسان کو جو دولت عطا ہوئی ہو‘اُس کی باز پُرس ہو گی۔ الفاظ کی دولت حاصل کرنے والوں سے ضرور اِس دولت کے اِستعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اگر نصیب یاوری کرے ‘تو اپنی تحریر کو اپنی نیکیوں میں اضافے کے لیے استعمال کر لیا جائے۔ گزشتہ پر توبہ کا مُدعا ہی یہی ہے کہ آئندہ اپنے الفاظ کے اِستعمال کو اپنے اعمال کے آئینے میں دیکھا جائے۔
اِنسان کا پیشہ سیاست ہو یا وکالت ، تعلیم ہو یا کاروبار‘الفاظ کا استعمال‘ عمل کے میزان میں ضرور دیکھا جائے گا۔ جو انسان جتنا موٴثر ہو گا ‘اُس کا گناہ اُتنا ہی بڑا ہو گا۔
ہم اپنے گناہوں کو اپنے حلقہٴ تاثیر میں سند بنا دیتے ہیں اور یوں ہم زیادہ سزا کے مستحق ہو جاتے ہیں ۔ اگر توبہ برملا نہ ہو ‘ تو برملا گناہ معاف نہیں ہوتا۔ جتنے بڑے ہجوم میں جھوٹ بولا گیا ہو‘ اُتنا بڑا جھوٹ ہوتا ہے اور اُس کے لیے اُتنی ہی بڑی سزا ہے۔ اِس سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ اُتنے بڑے ہجوم میں توبہ کی جائے یا آئندہ ہجوم کے سامنے آنے سے توبہ کی جائے۔ 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif