23 مارچ۔۔۔۔ایک وعدے کی پہچان اورتجدیدِ عہد وفا کا دن

اگر تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کیا جائے تو ہم پر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد اسی دن پڑ گئی تھی جس دن ساحلِ مالا بار کی ریاست گدنگا نور کے حکمران راجہ سامری نے اسلام قبول کیا تھا

Murad Ali Shahid مراد علی شاہد جمعہ 22 مارچ 2019

23 march aik wady ki pehchan aur tajdeed e ehad e wafa ka din
برصغیر پاک و ہند میں تاریخِ تحریک پاکستان اتنی ہی قدیم ہے جتنی مسلمانوں کی ہندوستان میں قدم رنجہ فرمانے کی تاریخ قدیم ہے۔پاکستان ایک نظریہ کے تحت قائم ہوا تھا اور وہ نظریہ تھا”دو قومی نظریہ“یعنی ہندوستان میں ایک نہیں بلکہ دو قومیں آباد ہیں،اگر تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کیا جائے تو ہم پر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد اسی دن پڑ گئی تھی جس دن ساحلِ مالا بار کی ریاست گدنگا نور کے حکمران راجہ سامری نے اسلام قبول کیا تھا،رفتہ رفتہ دینِ اسلام کی کرنیں ہر سو پھیلنے لگیں ۔

بالآخر 712 ء میں محمد بن قاسم نے سندھ فتح کر کے اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔
اسلامی حکومت کے قیام سے انگریز حکومت کے قائم ہونے تک برصغیر میں مختلف مسلمان خاندانوں کی حکمرانی میں اسلامی حکومت کا قیام ممکن رہا ،تاہم اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد اس کے نا اہل جانشین اپنی اس وراثت کو قائم و دائم نہ رکھ سکے اورانگریز برصغیر کے سیاہ و سفید کے مالک بن گیا۔

(جاری ہے)

لیکن مسلمان کبھی بھی چین کی نیند نہ سو سکے اور اپنے تئیں1857 سے1947 تک بھر پور کاوشیں کرتے رہے۔تاہم مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس منعقدہ 22تا24 مارچ 1940 منٹو پارک لاہور میں ایک قرارداد پیش کر کے مسلمانوں نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کے اضطراب کو سکون اسی وقت نصیب ہوگا جب اس مطالبہ کو عملی شکل نہ دے لیں گے۔اور چشمِ فلک نے دیکھا کہ 23مارچ1940 کے تاریخی اجلاس میں پورے ہندوستان سے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے شرکت کی۔

اس تاریخ ساز اجلاس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمائی جبکہ نواب سر شاہ نواز ممدوٹ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا،قراد دادکے متن کو شیرِبنگال مولوی اے۔کے۔فضل الحق نے پیش کیا ،اس قرار داد کی تائید چوہدری خلیق الزمان،مولانا ظفر علی خان،سر عبداللہ ہارون،سردار اورنگزیب،نواب اسماعیل،قاضی عیسیٰ اور بیگم محمد علی جوہر نے فرمائی۔

یہ قرار داد چارسو الفاظ اور چار مختصر پیراگراف پر مشتمل تھی،اس قرار داد میں کہا گیا کہ”کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی یہ رائے ہے کہ کوئی بھی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابل عمل اور مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا جب تک وہ درج ذیل اصول پر وضع نہ کیا گیا ہو۔یعنی جغرافیائی طور پر متصلہ علاقوں کی حد بندی ایسے خطوں میں کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

 مثلاً ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے ،ان کی تشکیل ایسی ”آزاد ریاستوں“کی صورت میں کی جائے جس کی مشمولہ وحدتیں خود مختار اور مقتدر ہوں۔نیز ان وحدتوں اور خطوں کی اقلیتوں کے مذہبی،ثقافتی،معاشی،سیاسی،انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کا مناسب تحفظ ان کے مشورے سے آئین میں صراحت کے ساتھ پیش کیا جائے۔جبکہ قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے اوراس کو اسی لحاظ سے حل کرنا چاہئے،جب تک اس اساسی اور بنیادی قیقت کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا،جو دستور بھی بنایا جائیگا وہ چل نہیں پائے گا۔

پاکستان ایک صدی پر محیط داستان ِحریت کا کوئی صفحہ نہیں کہ جسے روانی میں پڑھا اور ورق تبدیل کر لیا ۔یہ ایک مربوط تحریک اور شاندار تاریخ ہے۔ جو صدیوں کی محرابوں پر محیط ہے۔اس تحریک کو صدی در صدی مسلمان مجاہدین اور غازیانِ حریت نے بیش بہا قربانیاں دے کر اسے بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
تیری بنیاد میں ہے لاکھوں شہیدوں کا لہو
ہم تجھے گنجِ دو عالم سے گراں پاتے ہیں
تاریخِ برصضیر کا اگر جائزہ لیا جائے توغزنوی سے بہادر شاہ ظفر تک کئی تحاریک نے جنم لیا اور عروج کے بعد زوال پزیر ہو گئیں،تحاریک حق و رد کا یہ سلسلہ 1947 میں تقسیم ہند پہ جا کر مکمل زوال پزیر اس لئے ہو گیا کہ ہندوستان کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ اور کانگریس اپنے اپنے منشور کے مطابق الگ الگ وطن کے مطالبہ کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گئیں۔

گویا تحریک ختم اور تعمیر کا سلسلہ شروع ہو گیا،گویا امتحان ختم نہیں اب شروع ہوا۔کہ نوزائیدہ مملکت کے تمام نظام(سماجی،سیاسی،معاشی،ثقافتی،تہذیبی)کو ایک ایسی شاہراہ کا مسافر بنا نا ہے جس کی منزل خوشحالی ،محض خوشحالی ہو۔مگر تعمیر سے قبل تاریخ کے چند اوراق قارئین کی نذر کرنا اس لئے ضروری ہیں کہ بقول اقبال”تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے“بحثیت قوم ہمارے حافظہ میں ہماری تاریخ محفوظ ہونی چاہئے جسے ہم نسل در نسل یا سینہ بہ سینہ اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے میں فخر محسوس کریں۔

1857 سے1947 تک نوے سالہ دورجو ایک ہجوم کو قوم بنانے میں لمبا عرصہ خیال نہیں کیا جاتا۔اس لئے کہ قوموں کی تخریب میں لمحات درکار ہوتے ہیں جبکہ تعمیر کے لئے صدیوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔مگر یہ صدیاں لمحات بن کر انسانوں کی مٹھی میں اس وقت قید ہو جاتی ہیں جب قوموں کو ایک باشعور و باکردار راہنما میسر آ جائے۔ہماری خوش بختی رہی کہ سر سید سے لے کرقائدِ اعظم تک ہمیں تاریخِ پاکستان میں ایسے راہنماؤں سے واسطہ رہا جو اپنے کردار میں بلاشبہ بہت عظیم تھے۔

بلکہ اعمال میں بھی اتنے ہی پر عزم،وہ سر سید کی تعلیمی خدمات ہوں، سر آغا خان کا مسلم لیگ میں کردار،میثاق لکھنئو میں قائد کی ہندو مسلم اتحاد کی کاوشیں،تحریکِ خلافت،چودہ نکات،گول میز کانفرنس سے اعلانِ آزادی ہند تک مسلمانانِ برصضیر اور راہنماؤں نے محبت،رواداری،تعاون،اور دیگر اقوامِ ہندوستان سے بھائی چارہ کی فضا سے ہی تمام تحاریک میں کامیابیاں حاصل کیں۔

گویا رواداری،بھائی چارہ جیسے سنہری اصول دراصل تاریخِ پاکستان کی بنیادوں کی وہ خشتِ اولین ہیں جس پر پاکستان کی عمارت ایستادہ ہے۔یعنی بقولِ قائد،ایمان،اتحاد اور تنظیم یا امید ،جرأت،اعتماد،انہیں مذکور چند اصول و ضوابط پر اگر پاکستان کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے تو کیا وجہ؟ان تمام اصولوں کے عملی نفاذ سے ہم پاکستان کی تعمیر کو ممکن نہیں بنا سکتے۔

یقینا بنا سکتے ہیں اگر ہم یہ عزم کر لیں۔
کسی منزل پہ بھی رکتا نہیں راہوار اپنا
راستے گرد کی مانند اڑے جاتے ہیں
حالات کیسے بھی رہے،قدغن اور پابندیاں جیسی بھی لگتی رہیں،سیاسی نظام کے تجربات در تجربات نے جیسے بھی ملک کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا،کبھی مارشل لا تو کبھی نام نہاد جمہوریت،اور کبھی نیم جمہوریت جیسے نظاموں کوعوام پر مسلط کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں،پھر بھی عوامی ترقی تاراج نہ ہو سکی۔

اور دیکھتے ہی دیکھتے ہماری نوجوان نسل نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ہر ملک میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا نام اور مقام پیدا کیا۔وہ شعبہ سائنس کا ہو یا سوشل اسٹڈیز کا ،صحت،تعلیم،کھیل،اور ثقات ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا آپ منوایا۔اگر میں صرف قطر کی ہی بات کروں،اس لئے کہ عرصہ سترہ سال سے میں یہاں بسلسلہ روزگار مقیم ہوں،گویا قطر میرے لئے اب اپنے گھر جیسا ہی ہے۔

تو اس خطہ میں وہ کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں پاکستانی اپنا کلیدی کردار ادا نہ کر رہے ہوں۔تعلیم سے لے کر آئل اینڈ گیس ڈیپارٹمنٹ تک ،ہر ادارے میں ،ہر شعبہ میں پاکستانیوں نے اپنی ذہانت کا لوہا منوایا ہے۔یہی بس نہیں بلکہ امیری گارڈ جسے بادشاہ کی پرسنل آرمی خیال کیا جاتا ہے اس میں ہی تقریبا 80 فیصدپاکستانی اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ تعمیر پاکستان میں1947 سے تاحال اگرچہ سیاسی خلفشار،معاشی عدم توازن اور عوامی تربیت کا فقدان رہا ہے،جس کا بالواسطہ یا بلا واسطہ اثر ہمارے خارجہ و داخلی تعلقات اور معیشت پر بھی پڑا ہے تاہم ہمارا ایمان ہونا چاہئیے کہ یہ سب رکاوٹیں ملکی ترقی کی راہ میں عارضی ثابت ہوں گی اور ملک پاکستان کو انشا اللہ دنیا کے نقشہ پر تا قیامت رہنا ہے۔
رات کتنی طویل ہو جائے
شوق# سورج تو مر نہیں جاتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

23 march aik wady ki pehchan aur tajdeed e ehad e wafa ka din is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.