افغانستان میں امن کا خواب

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتاامن کا قیام یہاں بھی نا ممکن ہے ۔ پاکستان اس وقت سخت دہشتگردی کا شکار ہے اور اس دہشت گردی کی جڑیں افغانستان میں ہیں جس پر بھارت کے ایما پر افغانستان کنٹرول کرنا نہیں چاہتا۔پاکستان کی شدید خواہش ہے اور کوشش بھی کہ افغانستان میں امن قائم ہو

پیر 29 اگست 2016

Afghanistan Main Aman Ka Khawab
سکندر خان بلوچ:
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتاامن کا قیام یہاں بھی نا ممکن ہے ۔ پاکستان اس وقت سخت دہشتگردی کا شکار ہے اور اس دہشت گردی کی جڑیں افغانستان میں ہیں جس پر بھارت کے ایما پر افغانستان کنٹرول کرنا نہیں چاہتا۔پاکستان کی شدید خواہش ہے اور کوشش بھی کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ اسی میں ہماری بھی بہتری ہے۔

افغانستان میں ایک طویل عرصے سے امن کی کوششیں جاری ہیں جس پر کھربوں ڈالرز خرچ ہوچکے ہیں مگر نہ تو افغانستان میں جاری جنگ کو روکا جا سکا ہے اور نہ ہی امن قائم ہوسکا بلکہ افغانستان میں امن خواب بن کر رہ گیاہے جس کی سب سے بڑی وجہ وہاں کے اندرونی اور بیرونی حالات ہیں۔ وہاں اس وقت طاقت کے چار بڑے مراکز قائم ہو چکے ہیں اور ان تمام مراکز کے مفادات ایک دوسرے کے مفادات کے مخالف ہیں لہٰذا مفادات کے ٹکراؤ کے باعث حالات امن لانے کی بجائے ایک مستقل جنگ کی صورت اختیار کر گئے ہیں جن پر قابو پانا فی الحال نا ممکن نظر آتا ہے۔

(جاری ہے)

ان چار مراکز میں دو مراکز افغانستان کے اندرونی حالات سے پیدا ہوئے ہیں اور وہ ہیں افغانستان کی اپنی حکومت اور اسکے مقابلے میں طالبان اور داعش کی طاقت اور دوسرے دو مراکز بیرونی دخل اندازی کا نتیجہ ہیں۔ دخل اندازی کے ذریعے مراکز قائم کرنے والی دو طاقتیں ہیں بھارت اور امریکہ جن کے اپنے اپنے تزویرانی مفادات ہیں اور یہ مفادات باقی دو مراکز کے مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے۔


افغانستان میں اس وقت ایک یونٹی حکومت قائم ہے جس میں اشرف غنی صاحب صدر اور عبد اللہ عبد اللہ صاحب ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ ان دونوں شخصیات کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ دونوں شخصیات کی حتی الوسع کوشش ہے کہ تمام اداروں میں اور خصوصاً اعلیٰ پوسٹوں پر ان کے حامی موجود ہوں تویوں ادارے ان کے قابو میں رہیں گے۔

لہٰذا دونوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اعلیٰ پوسٹوں پر اپنے اپنے حامی تعینات کریں۔ کچھ عرصہ پہلے افغانستان کے اہم صوبے ہلمند میں نیا میئر لانے کی ضرورت پیش آئی تو دونوں حکمران شخصیات میں اختلاف شدت اختیار کرگیا اور دونوں نے اپنے اپنے پسندیدہ اشخاص کو میئر نامزد کر دیا جس سے ملکی حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپس کے اختلافات کی وجہ سے تمام ادارے سیاسی اکھاڑہ بن چکے ہیں۔

کرپشن اور اقربا پروری بہت زیادہ بڑھ چکی ہے جس سے اداروں کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی ہے۔ سیاسی طور پر بھی حکومت نے اب تک کوئی خاص کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔طالبان سے صلح کی تمامتر کوششیں بری طرح ناکام ہوئی ہیں ۔لے دے کرحکمت یارگروپ کی حزب اسلامی سے صلح ہوئی ہے۔حکمت یار نے افغانستان کے آئین اور موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے لیکن اہل نظر حضرات کوصلح کے اس معاہدے پر زیادہ یقین نہیں کیونکہ ماضی کی تاریخ کے مطابق تمام جنگجو گروپس کی عادت ہے کہ جب حالات ان کے مخالف ہوں تو وہ حکومت سے صلح کرکے دوبارہ اپنے آپ کو منظم کرتے ہیں۔

لہٰذا بہت سے تجزیہ نگاروں کا اب بھی یہی خیال ہے کہ حکمت یار نے صرف وقت حاصل کرنے کے لئے صلح کی ہے۔
طاقت کا دوسرا بڑا مرکز طالبان اور داعش کے جنگجو ہیں۔یہ لوگ بہت تربیت یافتہ اور گوریلا جنگ کے ماہر ہیں۔ امریکہ کی نیٹو فورس اور ایڈوانس جنگی مشین بھی انہیں شکست نہیں دے سکی۔ موجودہ حالات میں امریکہ کی فورس کی تعداد محض8ہزار کے لگ بھگ ہے۔

وہ قطعاً طالبان یا داعش سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ جہاں تک افغان فوج کا تعلق ہے وہ امریکہ کی تربیت یافتہ ہے۔ طالبان کے مقابلے میں اس کی جنگی کارکردگی ہرگز تسلی بخش نہیں، نہ ہی یہ لوگ طالبان کے سامنے ٹھہرتے ہیں۔ مثالیں موجود ہیں کہ سخت جنگی مقابلو ں میں یا تو یہ لوگ جنگ سے بھاگ جاتے ہیں یاپھر اپنے آپ کو طالبان کے حوالے کر دیتے ہیں۔

بعض افغان سولجرز اپنے طو رپر بھی طالبان سے مل جاتے ہیں۔ ان حالات میں افغان فوج جنگی طور پر کوئی زیادہ قابل اعتماد نہیں نہ ہی اب تک اس نے طالبان کو کہیں شکست دی ہے۔افغان فوج کی کمزور کارکردگی کی وجہ سے طالبان اور داعش کا اثر بڑھ رہا ہے۔ اس وقت افغانستان کے شمال مغربی علاقے میں 40اضلاع پر طالبان کا قبضہ ہے جہاں انہوں نے اپنی سخت گیر حکومت قائم کر رکھی ہے۔

افغانستان میں طاقت کا تیسرا بڑا مرکز بھارتی اثر رسوخ ہے۔ بھارت کے وہاں دو بڑے مقاصد ہیں۔ اول پاکستان میں دخل اندازی کرکے پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنا اور دوسرا افغانستان کی معدنیات پر قبضہ کرنا۔ اس مقصد کے لئے بھارت نے افغانستان میں معاشی اور فوجی امداد کا ڈھونگ رچایا۔ سڑکیں بنائیں۔ سکولز اور ہسپتال بنائے۔ افغانستان قومی اسمبلی کی بلڈنگ تعمیر کی اور ہرات میں ایک ڈیم بھی تعمیر کیا۔

افغان فوج کی تربیت اور ہتھیاروں کی فراہمی کا چکمہ بھی دے رکھا ہے لیکن اس معاشی اور فوجی امداد کی آڑ میں بھارت نے وہاں اپنے لیے بے تحاشا قونصل خانے کھولے۔ افغانستان کی سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا اور سب سے بڑھ کر سرز میں افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت حاصل کی۔ وہاں اپنے تربیتی مراکز قائم کئے جہاں بلوچ نوجوانوں کو انسرجنسی کی تربیت دینے کے بعد انہیں ہتھیار اوررقوم دیکر پاکستان میں دہشت گردی کرائی جاتی ہے۔

ضرب عضب کے نتیجے میں یہاں سے بھاگ کر جانے والے طالبان کی بھی سرپرستی کرکے انہیں بھی پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
یوں بھارت کے مفادات افغان حکومت سے بالواسطہ طور پر ٹکراتے ہیں۔ بھارتی طالبان کی سرپرستی کرتے ہیں جبکہ افغان حکومت طالبان کو ختم کرنا چاہتی ہے۔طاقت کا چوتھا بڑا مرکز افغانستان میں امریکی فوج کی صورت میں امریکہ کی موجودگی ہے۔

امریکہ کے بھی وہاں سٹریٹیجک مفادات ہیں۔ وہ ایک طرف تو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا چاہتا ہے اور دوسری طرف اس کی نظریں سنٹرل ایشیاء کے تیل و گیس کے ذخائر پر ہیں۔ اس کے ساتھ وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر بھی نظر رکھنا چاہتا ہے۔ ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت سے بھی وہ زیادہ خوش نہیں۔یہ تمام مقاصد حاصل کرنے کے لئے اسے اس علاقے میں مستقل اڈہ چاہیے جس کے لئے افغانستان بہت مناسب جگہ ہے لہٰذا وہ اسے خالی نہیں کرنا چاہتا جبکہ طالبان اسے برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی طالبان امریکہ کی موجودگی میں افغان حکومت سے امن کی بات چیت کریں گے تو یوں افغانستان اس و قت طاقت کے مختلف مراکز کے ٹکراؤ کے باعث مسلسل حالتِ جنگ میں ہے ۔

مستقبل قریب میں مفادات کے اس ٹکراؤ کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا اور جب تک یہ ممکن نہ ہو افغانستان میں امن خواب ہی رہے گا۔افغانستان کی سرزمین سے جنم لینے والی دہشتگردی پاکستان کے اندرونی حالات خصوصاً امن و امان کو بھی شدید متاثر کرتی رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Afghanistan Main Aman Ka Khawab is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 August 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.