الہٰ آباد کا نام”پر یاگ راج“میں تبدیل

قدیم عمارتوں ،شاہراؤں اور ریلوے اسٹیشنز کا بھگواکرن جاری تاریخی شہر کو اکبر بادشاہ نے بسایا ،علامہ اقبال نے تاریخی خطبہ الہ آباد میں دیا تھا

بدھ 31 اکتوبر 2018

ala abad ka naam par yaag raaj mein tabdeel
 رابعہ عظمت
بھارت میں مسلم تاریخ و ثقافت کا نام ونشان مٹانے کی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ بی جے پی حکومت کے ابتدائی دور میں نصابی کتب میں سے مسلمان حکمرانوں اور بادشاہوں کے ناموں کو حذف کر دیا گیا اور اب مسلم حکمرانوں سے منسوب شہروں، شاہراؤں حتیٰ کہ ریلوے اسٹیشنوں کے نام بدلنے کی سازش کی جارہی ہے۔ قبل ازیں شہنشاہ اورنگزیب سے منسوب دارالحکومت دہلی کی اہم شاہراہ کا نام بدل کر مودی حکومت نے مسلمانوں سے بغض، تعصب اور منافرت کا ثبوت دیا۔

عالمی معروف اسلامی درسگاہ ”دارالعلوم“ سے پہچانے جانے والے تاریخی شہر دیوبند کا نام بدلنے کے لئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ بی جے پی کے فرقہ پرست لیڈروں کا کہنا ہے کہ” دیوبند“ کا ذکر مہا بھارت میں ملتاہے اور وہ اپنے جنگلات کی وجہ سے’ دیو بن‘ مشہور تھا۔

(جاری ہے)

بھارتی ریاست اتر پردیش میں یوگی کے برسرِ اقتدار آتے ہی نصابی کتب کیساتھ ساتھ تاریخی عمارتوں، شاہراؤں اور ریلوے اسٹیشنوں کا بھگوا کرن جاری ہے۔

مغل سرائے جنکشن تاریخی ریلوے اسٹیشن کا نام تبدیل کر کے دین دیال اپادھیائے جنکشن رکھ دیا گیا۔ بی
جے پی کے صدر نے امیت شاہ نے با قاعدہ ایک تقریب میں مغلیہ عہد کی اس یادگار کو مٹاتے ہوئے اس کی جگہ سنگھ پریوار کے پرچارک کا نام دیدیا۔ دین دیال اپادھیائے یہیں اسی ریلوے اسٹیشن کے نزدیک 11 فروری 1968ء کو مشکوک مردہ حالت میں پایا گیا تھا اسی لئے مغل سرائے کو اسی کے نام سے منسوب کیا گیا۔

1942ء میں دین دیال آرایس ایس کا کارکن بنا۔ 1951 میں جب بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد
 ڈالی تو یوپی کے پہلے جنرل سیکرٹری بنائے گئے تھے۔ دین دیال اپادھیائے نے مسلمانوں کے حوالے سے کہا تھا کہ” وہ اپنی ہندوستانیت کو ثابت کریں۔ وہ ہندوستان کے ہیں ان میں ہندوستانیت ہے۔ ہندوستان میں جو آ با دی رہ گئی ہے وہ مشکوک ہے اس لئے ان کو اپنی وفاداری ثابت کرنی چاہئے“۔

دین دیال جن سنگھ کا پہلا صدر بھی تھا اور سنگھ پریوار کا وفادار تھا۔ مسلمانوں کے بارے میں
نفرت و دشمنی کا انداز ہ اس کے مذکور ہ بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ہندو سرکا ر مسلم تعصب و منافرت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہے کہ وہ ہندوستان کی سرزمین سے مسلمانوں کی تہذیب وتمدن اور اسلامی تاریخ کی یادگاروں کو یکے بعد دیگرے مسخ کر رہی ہے۔

بھارت کا تاریخی شہر آلہٰ آبا د کوسنگھ پریوار نے اپنا ہدف بنالیا ہے۔ یوگی حکومت نے تاریخی شہر آلہٰ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج رکھ دیا ہے اور فرقہ پرست بھارتی پارلیمنٹ نے بھی اس کی منظوری دیدی ہے۔ میڈیا رپورٹ
کے مطابق ریاستی وزیر اعلیٰ کمبھ کے میلے سے قبل مسلم و قدیم اہمیت کا حامل شہر آلہٰ آباد کا نام تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوؤں کے مطابق مقدس در یاؤں کے سنگم پر واقع اس شہر میں ہر برس میلے لگتے ہیں اور کمبھ کا میلہ بارہ برس بعد ایک مرتبہ منعقد کیا جاتا ہے۔

وزیراعلیٰ اتر پردیش کا کہنا ہے کہ مغلیہ دور میں عمارتوں،شہروں اور شاہراؤں کے تفویض کردہ ناموں کو تبدیل کیا جائے گا۔ 16 ویں صدی کے ابتداء میں مغل حکمرانوں نے پریاگ راج کا نام بدل کر آلہٰ آباد رکھ دیا تھا۔
اتر پردیش کے وزیر صحت سدھارتھ سنگھ نے کہا کہ پریاگ راج نام کی مخالفت کرنے والے تاریخی حقائق سے واقف نہیں۔ کہا کہ ابھی مزید تاریخی عمارتوں اور شہروں کے نام تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔

گنگا جمنا کے سنگم پر واقع آلہٰ آباد کو بھارت کے قدیم ترین شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں تجارتی مراکز، ہندوؤں کا مقدس مقام اور ریلوے کا بہت بڑا جشن موجود ہے۔ بادشاہ اکبر کا ایوان، جامع مسجد، زیر زمین قلعہ اور خسرو باغ سمیت قدیم قابل دید تاریخی عمارات موجود ہیں۔ اس علاقے پر مسلمانوں نے طویل عرصہ حکومت کی۔ آئینہ اکبری
کے مطابق اس تاریخی شہرکومغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے1574ء میں بنایا تھا۔

اس کی تاریخ443 سال قدیم ہے۔ اس شہر نے برصغیر میں لڑی جانے والی جنگوں میں اہم کردار ادا کیا۔ آلہٰ آباد قلعہ 1575ء
 میں مغلیہ بادشاہ نے تعمیر کروایا تھا۔1857 ء جنگ آزادی
کے دوران انگریزوں نے اسی علاقے پر قابض ہونے کی کوشش کی مگر انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بالآ خر چار سال بعد 1861ء میں انگریزوں نے شہر پر تسلط جمالیا اور اپنی حکومت قائم کی۔

یہاں مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں اور ان کی شناخت آلہٰ آبادی کے نام سے ہوتی ہے۔ یہ شہر علمی و تعلیمی لحاظ
سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں قدیم مندر اورمحل بھی موجود ہیں۔ جو ہندو کتب کے مطابق ہندو مذہب میں بہت اہم ہیں۔
آلہٰ آباد وہ شہر ہے جہاں1930ء میں شاعرمشرق علامہ اقبال نے تاریخی خطبہ دیا جسے خطبہ آلہٰ آباد کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اردو ادب کے کئی عظیم شعراء کا تعلق آلہٰ آباد سے ہے اور وہ اردو ادب کی تاریخ میں آلہٰ آبادی کے نام سے منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ جن میں اکبر آلہٰ آبادی، نوح ناروی، فراق گورکھپوری، شبنم نقوی، راز آلہٰ آبادی، عتیق الہٰ آ با دی جیسے بڑے نام شامل ہیں۔ اس شہر کو بھارت کے وزرائے اعظم کا شہر بھی کہا جاتا ہے اب تک منتخب ہونے والے
13 میں سے 7 کا تعلق اسی شہر سے ہے۔

پہلے بھارتی وزیراعظم جواہرلعل نہرو‘ لال بہادر شاستری‘ اندر اگاندھی‘ راجیو گاندھی ‘گلزاری لال نندا‘ سوشوناتھ‘ پرتاب سنگھ اور چندر شیکھر شامل ہیں۔
بھارت کے معروف انگریزی روزنامے نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ” آلہٰ آباد کا نام تبدیل کر نا تاریخ اور قوم کی یاداشت مٹانے جیسا ہے۔ اس سے سیات کی بو آتی ہے۔ آلہٰ آباد کے باشندوں نے
کبھی نام بدلنے کا مطالبہ نہیں کیا۔

اخبار مزید لکھتا ہے کہ آلہٰ آباد ایک زمانے سے علمی‘ ثقافتی‘ صنعتی‘ حرفی اور تجارتی اعتبار سے کثیر جہتی و کثیر ملی شہر رہا ہے۔ ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں لکھا ہے پریاگ راج
 ہندوؤں کے مطابق دو مقدس ند یوں گنگا اور جمنا کے سنگم پر واقع ہے۔ اس مقام پر سرسوتی ندی بھی اس میں ملتی تھی جس کا اب سراغ بھی نہیں ملتا۔ اسلئے اس کو ہندو مت میں” تروینی سنگم“ بھی کہا جاتا ہے۔

اس سنگم کے پاس ایک وسیع و عریض میدان ہے جو قدیم زمانے سے پریاگ کہلاتا ہے۔ اکبر بادشاہ نے اس سنگم پر ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا اور ایک الگ شہری آلہٰ آباد کی بنیاد ڈالی تھی۔ اخبار کے مطابق ”محسوس ہوتا ہے کہ مغلوں سے آلہٰ آباد کا تاریخی حقائق ہی اس انتقامی اقدام کی وجہ بنا ہے۔ جومغل تاریخ کے حوالوں کو ہی مٹادینا چاہتا ہے۔ بی جے پی
کے ایک ترجمان نے مغل سرائے اور آلہٰ آباد کے ناموں کی تبدیلی کو گنگا صفائی پروجیکٹ سے جوڑنے کی کوشش کی تھی اور یہ تجویز دی تھی کہ ہندوؤں کیلئے مقدس دریا کے کنارے کوئی ایسا مقام نہیں ہونا چاہیے جو مغل حکمرانوں سے وابستہ ہو۔

مذکورہ اخبار کے اداریے کے آخر میں لکھا ہے کہ بی جے پی لیڈروں کی یہ خواہش کہ یوپی کی سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی زندگی سے اسلامی اثرات کو قطعی خارج کر دیا جائے۔ نہایت خطرناک ہے۔ ریاست میں مسلم آبادی 20 فیصد ہے جو تین کروڑ 80 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ ریاست کیرالہ کی کل آبادی کے برابر
ہے۔ ایسی بڑی آبادی کو عوامی زندگی میں اس کا مناسب حصہ نہ ملنا ایک فرقہ کیلئے سیاست کو خالص کرنا ہے۔

گزشتہ دو انتخابات میں بی
جے پی نے لوک سبھا کی 80 اور اسمبلی کی 403 نشستوں میں سے ایک پر بھی کسی مسلم امیدوار کوٹکٹ دینے سے انکار کیا۔ ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ سیاست میں اچھوت بنانے کی پالیسی کو پارٹی زندگی کے ثقافتی اور سماجی شعبوں میں بھی توسیع دینا چاہتی ہے۔ عامی اخبارات نے بھی آلہٰ آباد کا نام تبدیل کرنے پر بی جے پی اور یوگی حکومت پر تنقید کی۔

گارڈین لکھتا ہے کہ ریاست کی ہندو نظریاتی حکومت نے شہر کا نام اس وجہ سے تبدیل کر دیا کیونکہ یہ مسلم
 نام تھا اور اسے مسلمان حکمران کیطرف سے دیا گیا تھا۔ گلف سٹائمز نے بھی جارحانہ انداز میں پیش کیا لوگوں کو مٹھائی بانٹتے ہوئے ایک تصویر بھی دکھائی ہے اور یہ لکھاہے کہ اگلے سال ہونے والے کمبھ سے پہلے یہ بڑافیصلہ ماناجا رہا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے آلہٰ آ باد کا نام پریاگ راج رکھنے پر حکومت کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ مراد آباد کا نام من کی بات نگر رکھ دیں۔

انہوں نے اپنے ٹویٹ میں 30 شہروں کے نام بدلنے کا مشورہ دیا ہے۔ چیف جسٹس کی دی گئی فہرست میں فتح پور کا نام بدل کر امیت شاہ نگر رکھنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ ایک شخص نے جسٹس کا ٹجو کے طنز پر مز ید طنز کرتے ہوئے کہا
”کا ٹجو جی! آپ انہیں یہ آئیڈیاز دے رہے ہیں اور یہ کر بھی دیں گے اور کوئی کام تو ہے نہیں ان کے پاس۔ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ کی مسلم ناموں سے دشمنی آج کی نہیں بہت پرانی ہے۔

آج سے 20 سال قبل جب وہ رکن پارلیمنٹ بنے تھے تو انہوں نے گورکھپور کے مشہور اردو بازار کا نام ”ہندی بازار“ رکھ دیا تھا۔ ہندو فرقہ پرست تنظیم ہندو یو واوہنی نے بہت تحریک چلائی کہ اردو بازار کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ اس کے با وجود کہیں نہ کہیں اردو بازار کا نام آ ہی جاتا ہے۔ آلہٰ آباد کے نام کی تبدیلی کے بعد مراد آباد‘ فیض آبا ود‘خلیل آباد سمیت کئی مسلم ناموں سے منسوب شہروں کی باری آجائے گی۔

قنوج‘ فیروزہ کے نام بھی بدلے جائیں گے اور تاریخی و قدیم شہر حیدر آباد کا نام ہندو دیوی بھاگیہ لکشمی کے نام پر ‘شیواجی کے بیٹے سنباجی
کے نام پر اورنگ آ با د کا نام رکھا جانے کا مطالبہ زیر غور ہے۔ احمد آباد کا نام بدل کر ہند و با دشاہ کرند یو کے نام پر کرنا وتی رکھا جائے گا۔ سب سے پہلے بمبئی کا نام بدل کر ممبئی رکھ دیا گیا۔ ہر یانہ حکومت نے حال ہی میں گڑ گاؤں کا نام گروگرام رکھ دیا ہے اور تو اور آرایس ایس کیرالہ کا نام بھی تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔

ریاست کا نام ریلک رکھا جائے گا کیونکہ کیرالہ عیسائیوں کا دیا ہوا نام ہے۔ اپوزیشن
 جماعت کانگریس نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے مشہور آلہٰ آباد کا نام بدلنے سے علاقے کی پہچان متاثر ہوگی اور اس کا اثر تعلیمی و معاشی سرگرمیوں پر بھی پڑے
گا۔ راجستھان کی بی جے پی سرکار نے ریاست کے 20 ایسے دیہاتوں کے نام تبدیل کر دیئے ہیں جو مسلمانوں سے منسوب تھے۔

جلال الدین اکبر روڈ کا نام مہارانہ پرتاب سنگھ سے بدل دیا گیا۔ تاج محل کو ”تبجو مہالیہ“ بنانے میں بھی یوگی حکومت پیش پیش ہے اور یہ پروپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ تاج محل کو کسی مسلمان بادشاہ نے نہیں ہندو راجہ
نے بنوایا تھا۔ تاج محل سے لیکر آ لہٰ آباد کے نام کی تبدیلی کے پس پردہ مسلم دشمنی کارفرما ہے۔ بی جے پی حکومت در اصل ہندوستان کے چپے چپے‘
 ہر علاقے‘ ہر گلی‘ ہر حملے میں بکھری مسلم تاریخ ثقافت اور مسلمان بادشاہوں سے جڑی یادگاروں“ علامتوں کو مٹانا بھارت سے مسلمانوں کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہے تا کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی آنے والی نسلیں اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں مسلم تہذیب‘ تمدن سے بھی روشناس نہ ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

ala abad ka naam par yaag raaj mein tabdeel is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 October 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.