امریکہ اور اسرائیل نے روس کے خلاف بڑ ی جنگ کی تیاری کر لی

پاکستان اور ترکی کا عسکری اتحاد ناگزیر کیوں؟ افغان طالبان نے دیگر مسالک کے مسلمانوں سے اتحاد کر لیا

بدھ 11 اپریل 2018

America aur Israel ne roos ke khilaaf barri  jung ki tayari kar li
محمد انیس الرحمن

کسی حقیقت کا سا منے آجانااور اس کا سمجھ لیا جانا دو مختلف معا ملات ہیں۔ایسا ہی ایک معاملہ 1898ء میں پیش آیا جب مصر کی ”وادی االمکوک “سے ا یک ایسے فرعون کی نعش دریافت ہوئی جوروایتی انداز میں حنوط نہیں تھا بلکہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اسے جلد بازی میں کسی پہلے سے تیار شدہ اہرام میں رکھ دیا گیا ہوا، اسی برس یعنی 1898ء میں ایک اور واقعہ رونما ہوتا ہے یعنی اس برس یورپ میں عالمی صہیونیت کی تنظیم کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے۔

اللہ تعالی قرآن کریم کی سورة اسراء میں فرماتا ہے کہ "وان عدتم عدنا وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا" (ترجمہ) اگر تم اپنے (ظلم) کے ساتھ پلٹوگئے تو ہم اپنی (سزا) کے ساتھ پلٹین گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنایا ہے۔

(جاری ہے)

قرآن کریم کی اس ایک آیات میں سمجھنے کے لئے بہت سا مواد تھا مگر افسوس مسلم دنیا کے فکری انحطاط نے ایسی سبیل ہی نہ نکلنے دی جس سے مسلمان آنے والے خطرات کا پہلے سے اندازہ کر سکتے۔

قرآن کریم تو اس قسم کی آنے والی خبروں سے بھرا ہوا ہے لیکن اسے سمجھنے کے لئے مطلوبہ طریقہ کار کو سمجھنا ضروری ہے۔
1898ء میں جب یورپ میں دنیا پر دجالی غلبے کے لئے عالمی صہیونیت کی داغ بیل ڈالی جارہی تھی اسی برس اللہ رب العزت نے فرعون کی نعش کو ظاہر کر کے یہ الٹی میٹم یاد دلا دیا تھا کہ اگر یہودیوں نے ظلم کی تلوار سے دوبارہ غلبے کی کوشش کی تو ہم بھی دوبارہ اپنی اسی سزا کے ساتھ لوٹ آئیں گے جس کا مزا انہیں پہلے تاریخ میں چھکا یا گیا تھا۔

عالمی سطح پر ایک ہی برس میں ان دو اہم واقعات کا رونما ہونا کیا محض اتفاق تھا۔۔۔۔؟اس دریافت کے ٹھیک سو برس بعد آج ظلم کی یہ آگ پوری طرح دنیا کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے جس میں مشرق وسطی اور شمالی افریقہ پوری طرح جھلس رہا ہے، افغانستان میں اس آگ نے لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا ہے۔ اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ آگ محض ایک مقصد کی جانب اشارہ کرتی ہے لیکن اب امریکہ کے بعد اسرائیل کی بین الاقوامی قیادت کا قیام عمل میں لانا ہے جس کے لئے خطے کے تمام ممالک کو اسرائیل کے سامنے سرنگوں کیا جائے اس کے بعد باقی دنیا کو اس عالمی دجالی حکومت کے احکامات ماننے پر مجبور کیا جا سکے جس میں سب سے بڑی رکاوٹ یقینا سب سے پہلے روس اور پھر چین ہیں۔

مشرق وسطی کے ممالک کی کمر توڑنے کے لئے پہلے مرحلے میں یہاں آپس جنگیں کروائی گئی ہیں جس کی تفصیلات سب کے سامنے ہیں اس کے بعد ایران کو ان عرب ممالک کا بڑا حریف بننے کا موقع فراہم کیا گیا ایران 35 برس سے دنیا کے سامنے امریکہ اور اسرائیل کا ایک بڑا حریف بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا دلیردشمن موجود ہونے کے باوجود امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے اس پر آج تک ایک گولی بھی فائز ہیں کی گئی ایسا کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایران کو امریکہ اور اسرائیل اپنے ہاتھوں سے اس حشر سے دو چار کر دیتے جو عراق کا ہوا تو پھر عربوں کو کس سے ڈرایا جاتا اور عراق اور شام میں آپس کی جنگیں کیسے کرائی جاتیں، یمن میں مسلک کے نام پر مداخلت کروا کر مسلمانوں کو آپس کی جنگ میں کیسے الجھایا جاتا صرف اس لئے کہ باقی ماندہ عرب ممالک کی شخصی حکومتوں کو باور کرایا جا سکے کہ تمہیں ایران سے کوئی بچا سکتا ہے تو وہ اسرائیل ہے‘ کیا آج دھڑا دھڑ عرب حکو متیں اسرائیل سے قربتیں نہیں بڑھا ر ہیں؟ اسرائیل سے قربتیں بڑھانے کی دوڑ میں ان عرب حکومتوں نے مظلوم فلسطینی ، شامی، مینی اور عراقی مسلمانوں کے بہتے خون سے آنکھیں پھیرلی ہیں ، دوسری جانب خلیجی عرب ریاستوں نے قطر کے خلاف مورچہ لگایا ہوا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں فریقوں کا اتحادی ایک ہی ہے یعنی امریکہ۔

۔۔ بالعلجب۔۔۔ہم بہت پہلے سے اس جانب اشارہ کرتے آرہے ہیں کہ عربوں اور ایرانیوں کو مسلک کی جنگ میں الجھا کر پہلے ان دونوں فریقوں کو معاشی انداز میں دیوالیہ کیا جائے گا اس کے بعد انہیں اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے گا اور آج کی صورتحال ان دونوں فریقوں کے سر پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ جنگیں اور وہ بھی پراکسی جنگیں ایک مہنگا کاروبار ہے بڑے بڑے امیر ملک جس کے متحمل نہیں ہو سکتے لیکن مشرق وسطی میں اس جنگ کی کیفیت پیداکر کے عربوں اور ایرانیوں کا تیل نکال دیا گیا ہے۔

ایران میں عوام اب حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اٹھ رہے ہیں معاشی بدحالی نے اس تاریخی قوم کی کمر توڑ ڈالی ہے تو دوسری جانب تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک ہیں جن کا محفوظ سرمایہ اسلحے کے انبار لگانے میں خرچ کروا دیا گیا ہے جو شایدکبھی استعمال ہونے کی نوبت ہی نہ آئے اس وجہ سے وہاں بھاری ٹیکس نافذ کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے اب وہاں سے غیرملکی کارکنان نکلنے میں عافیت سمجھ رہے ہیں، یہ وہ حالات ہیں جن کا نائن الیون کے ڈرامے سے پہل تصور بھی محال تھا لیکن درحقیقت نائن الیون کا ڈرامہ اس مقصد کے لئے رچایا گیا تھا کہ مشرق و سطی سمیت مسلم دنیا کے اثاثوں پر قبضہ جما کرانہیں ہمیشہ کے لئے مفلوج کر دیا جائے۔

اس میں شک نہیں کہ سرد جنگ کا خاتمہ سوویت یونین کی تحلیل کے ساتھ ہی ہو گیا تھا اس سرد جنگ کے بڑے فریق سابق سوویت یونین اور اس کے اتحادی ممالک اور دوسری جانب امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی تھے۔ اصولی طور پر مسلمان ممالک اس جنگ میں فریق نہیں تھے کیونکہ ان کی اتنی اوقات ہی نہیں تھی لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو اک سرد جنگ میں بھی سب سے زیادہ مسلمانوں کا ہی خون بہا ہے۔

سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں لاکھوں مسلمانوں کوقتل کردیا گیا لیکن دنیا نے یہ کڑوا گھونٹ آسانی سے حلق سے اتار لیا۔ فریق نہ ہونے کے باوجود امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کا ڈراپ سین مسلمانوں کے ہاتھوں ہی ہوا جس میں سوویت یو میں تحلیل ہو گیا لیکن مغرب نے مسلمانوں کا احسان ماننے کی بجائے انہیں کے خلاف اپنی توپیں کردیں اور بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے نام پر ایک نئی جنگ کا آغاز کردیا گیا یوں ظلم کی اس آندھی کا دوسرا باب شروع ہوا پہلے سوویت یونین مسلمانوں کو قتل کرتا تھا اب امریکہ اور یورپ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ بلند کر کے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔

حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے عالمی صہیونیت کا دجالی ایجنڈہ سامنے کھل کر آتا جارہا ہے۔ سوویت یونین کی جانب سے گرم پانیوں تک رسائی کی خواہش تو کی جاتی تھی لیکن امریکہ اور مغربی صہیونی دانشوروں نے جان بوجھ کر اسے اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا کہ مسلم دنیا میں خوف کی لہر دوڑ گئی تھی اور نہ وہ سوویت یو نین جسے افغان اور عرب مجاہدین نے افغانستان میں دبوچ لیا تھا اتنی آسانی سے اس خواہش کی تکمیل نہ کر پاتا لیکن ”ففتھ جنریشن وار“ میں میڈیا اورپراپگینڈہ ایک اہم ہتھیار تصور کئے جاتے ہیں اس لئے اس ہتھیار سے بھر پور کام لیا گیا اور تاحال لیا جارہا ہے۔

آج سویت یونین کا ترکہ روس ہے جسے ایک گولی چلائے بغیر چین کے ساتھ گوادر تک رسائی حاصل ہے، ان تمام حالات میں افغانستان کی صورتحال امریکہ اور اسرائیل کو پریشان کر دینے کے لئے کافی ہیں کیونکہ جو مقاصد وہ تیزی کے ساتھ مشرق وسطی میں حاصل کر سکے ہیں افغانستان میں اس کے بالکل الٹ ہورہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ افغان طالبان نے حکمتیار کی حزب اسلامی کی مشاورت سے اپنی صفوں میں موجود مسلکی اختلافات ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، اس سلسلے میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے قندھار میں ایک معاہدے پر دستخط بھی کر دیئے ہیں اس لئے اب ان کی صفوں میں بریلوی،سلفی اور شیعہ مسلمان بھی شامل ہو چکے ہیں یہ صورتحال کا بل کی کٹھ پتلی اشرف غنی حکومت اور امریکہ کے لئے سوہان روح سے کم نہیں ہے اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان کی صورتحال کا نقشہ کس قسم کا ہوسکتا ہے۔

اس بات کو ذہن نشین کرنا ہوگا کہ دنیا بھر میں جنگی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اسی طرح طور طر یقے بھی ، روایتی فوجوں سے زیادہ خطرناک امریکہ اور اسرائیل کے لئے منتشر جنگی گروپ ہی ہو سکیں گے کیونکہ جس قسم کے اسٹیٹ آف دی آرٹ اسلحے کے انبار امریکہ اور اسرائیل نے لگا رکھے ہیں وہ تا حال دنیا کے سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ نے شمالی شام میں روس کے 3 سو کرائے کے فوجیوں کو زمین پر بھاگنے بھی نہیں دیا تھا اور انہیں جلا دیا تھا جس پر فی الحال روں نے خاموشی اختیار کر لی ہے، اس منظر کو دیکھ کر میرے ذہن میں امریکہ کے سابق صہیونی وزیر خارجہ ہنری کسنجرکی و و تحریر ذہن میں آجاتی ہے جس میں اس نے عربوں کو کہا تھا کہ اسرائیل پر حملہ آوروں کو ہم سڑکوں پر ہی جلا کر راکھ بنا دیں گے اسی تناظر میں بہت پہلے ایک تجزیے میں کہا تھا کہ روایتی جنگ کے لئے ضروری ہے کہ جدید عسکری ٹیکنالوی Collapse کر جائے وہ اسی صورت میں ہوگی جب روس اپنی عسکری ٹیکنالوی کے ساتھ میدان میں اترے گا۔

روسی اس جنگ کی پوری طرح تیاری کر چکے ہیں، امریکہ اور نیٹو بالٹک ریاستوں میں اپنا حساس اور بھاری اسلحہ اتار چکے ہیں اس سلسلے میں گزشتہ دنوں امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ جنگی مشقیں بھی کی گئی ہیں۔ ظلم کی انتہاء اپنے انجام کی جانب بڑھ رہی ہے۔" وان عدتم عدنا وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا" (ترجمہ) اگر تم اپنے (ظلم) کے ساتھ پلٹو گئے تو ہم اپنی (سزا) کے ساتھ پلٹیں گے اور ہم نے جہنم کو کا فروں کے لئے قید خانہ بنایا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

America aur Israel ne roos ke khilaaf barri jung ki tayari kar li is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 April 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.